میت پر رونا کیسا ہے
میت پر رونا کیسا ہے
(۱)’’عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّہَ لَا یُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَیْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَلَکِنْ یُعَذِّبُ بِہَذَا وَأَشَارَ إِلَی لِسَانِہِ أَوْ یَرْحَمُ وَإِنَّ الْمَیِّتَ لَیُعَذَّبُ بِبُکَاء أَہْلِہِ عَلَیْہِ‘‘(1)
حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ رسول ِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فر مایا کہ خبردار ہو کر سن لو کہ آنکھ کے آنسو اور دل کے غم کے سبب خدائے تعالیٰ عذاب نہیں فرماتا۔ (اور زبان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) لیکن اس کے سبب عذاب یا رحم فرماتا ہے ۔ ا ور گھر والوں کے رونے کی وجہ سے میت پر عذاب ہوتا ہے ۔ ( جب کہ اس نے رونے کی وصیت کی ہو یا وہاں رونے کا رواج ہو اور اس نے منع نہ کیا ہو یا یہ مطلب ہے کہ ان کے رونے سے میت کو تکلیف ہوتی ہے )۔ (بخاری، مسلم)
(۲)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّہُ مَہْمَا کَانَ مِنْ الْعَیْنِ وَ مِنَ الْقَلْبِ فَمِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمِنَ الرَّحْمَۃِ وَمَا کَانَ مِنَ الْیَدِ وَ مِنَ اللِّسَانِ فَمِنَ الشَّیْطَانِ ‘‘۔ (2)
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جو آنسو آنکھ سے ہو اور جو غم سے ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور اس کی رحمت کا حصہ ہے اور غم کا جو اظہار ہاتھ اور زبان سے ہو وہ شیطان کی طرف سے ہے ۔ (مشکوۃ)
(۳)’’عَنْ أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی لِمَلَائِکَتِہِ قَبَضْتُمْ
حضرت ابو موسی اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ جب کسی مومن بندہ کا بیٹا مرجاتا ہے تو خدائے تعالیٰ ملائکہ
وَلَدَ عَبْدِی فَیَقُولُونَ نَعَمْ فَیَقُولُ قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہِ فَیَقُولُونَ نَعَمْ فَیَقُولُ مَاذَا قَالَ عَبْدِی فَیَقُولُونَ حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ فَیَقُولُ اللَّہُ ابْنُوا لِعَبْدِی بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ‘‘۔ (1)
سے فرما تا ہے کہ تم نے میرے بندہ کے بیٹے کی روح قبض کرلی تو وہ عرض کر تے ہیں ہاں، پھر خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے اس کے دل کے میوہ کو توڑ لیا۔ تو وہ عرض کرتے ہیں ہاں۔ پھر خدائے تعالیٰ فرماتا ہے (اس مصیبت پر)میرے بندہ نے کیا کہا ؟ تو
فرشتے عرض کرتے ہیں کہ تیری تعریف کی اور إِنَّا ﷲِ وإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ پڑھا تو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے اس بندہ کے لیے جنت میں ایک گھر بنائو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ (احمد، ترمذی)
(۴)’’عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمَیْنِ یُتَوَفَّی لَہُمَا ثَلَاثَۃٌ إِلَّا أَدْخَلَہُمَا اللَّہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہِ إِیَّاہُمَا فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ أَوْ اثْنَانِ قَالَ أَوْ اثْنَانِ قَالُوا أَوْ وَاحِدٌ قَالَ أَوْ وَاحِدٌ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنَّ السِّقْطَ لَیَجُرُّ أُمَّہُ بِسَرَرِہِ إِلَی الْجَنَّۃِ إِذَا احْتَسَبَتْہُ‘‘۔ (2)
حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ جن دو مسلمان یعنی میاں بیوی کے تین بچے مرجائیں تو خدائے تعالیٰ ان دونوں کو اپنے فضل و رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ!اگر دو بچے انتقال کرجائیں تو حضور نے فرمایا دو کا بھی یہی اجر ہے ۔ پھر صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! اور اگر ایک فوت ہوجائے تو حضور نے فرمایا ایک کا بھی یہی اجر ہے ۔ پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کہ خام حمل جو ساقط ہوجاتا ہے اپنی ماں کو’’ آنول‘‘(3)کے ذریعہ جنت کی طرف کھینچے گا۔ جب کہ ماں ( اس تکلیف پر ) صبر اور ثواب کی طالب ہوئی ہو۔ (احمد، مشکوۃ)
(۵)’’ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَاءحضرت عبداللہ بن جعفر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نے فرمایا کہ
نَعْیُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَقَدْ أَتَاہُمْ مَا یَشْغَلُہُمْ‘‘۔ (1)
جب حضرت جعفر کی شہادت کی خبر آئی تو نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو اس لیے کہ ان کو وہ مصیبت
پہنچی ہے جو انہیں کھانا پکانے سے باز رکھے گی۔ (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ)
اس حدیث کے تحت حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ:
’’دریں حدیث دلیل است بر آنکہ مستحب ست خویشاں وہمسائیگان ودوستان راتہیئہ طعام مراہل میت را‘‘۔ (2)
یعنی اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور دوستوں کو میت کے گھر پکا ہوا کھانا لانا مستحب ہے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد اول)
انتباہ:
(۱) …نوحہ یعنی میت کے اوصاف مبالغہ کے ساتھ بیان کرکے آواز سے رونا جس کو بَین کہتے ہیں۔ بالاجماع حرام ہے ۔ (3) (بہار شریعت بحوالہ جوھرہ)
(۲) …گریبان پھاڑنا، منہ نوچنا ، بال کھولنا، سر پر مٹی ڈالنا ، ران پرہاتھ مارنا اور سینہ کوٹنا سب جاہلیت کے کام ہیں۔ ناجائز اور گناہ ہیں۔ (4)(فتاوی عالمگیری، جلد اول مصری، ص ۱۵۷)
(۳) …آواز سے رونا منع ہے اور آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں۔ (5)( (بہارشریعت)
(۴) … تعزیت مسنون ہے اور اس کاوقت موت سے تین دن تک ہے اس کے بعد مکروہ ہے ، اور اگر کوئی
موجود نہ تھا یا علم نہ تھا تو بعد میں حرج نہیں ۔ (1) (بہار شریعت، بحوالہ ردالمحتار وغیرہ)
(۵) … تعزیت میں یہ کہے کہ خدائے تعالیٰ میت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبر کی توفیق دے اور مصیبت پر ثواب عطا فرمائے ، یا اسی کے مثل دوسرے جملے کہے ۔
(۶) …میت کے گھر صرف پہلے دن کھانا بھیجنا سنت ہے اس کے بعد مکروہ ہے ۔ (2) (بہار شریعت بحوالہ عالمگیری)
(۷) … میت کے گھر والے تیجہ کے دن یا اس کے بعد میت کے ایصالِ ثواب کے لیے فقراء اور مساکین کو کھانا کھلائیں تو بہتر ہے لیکن دوست احباب اور عام مسلمانوں کی دعوت کریں تو ناجائز و بدعت قبیحہ ہے کہ دعوت توخوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۵۷میں ہے : ’’ لَا یُبَاحُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَۃِ عِنْدَ ثَلاثَۃِ أَیَّامٍ کَذَا فِی التَّتَارْخَانِیَّۃ‘‘۔ (3)
اور ردالمحتار جلد اول ص: ۶۲۹اور فتح القدیر جلد دوم ص:۱۰۲میں ہے : ’’وَیُکْرَہُ اتِّخَاذُ الضِّیَافَۃِ مِنَ الطَّعَامِ مِنْ أَہْلِ الْمَیِّتِ لِأَنَّہُ شُرِعَ فِی السُّرُورِ لَا فِی الشُّرُورِ وَہِیَ بِدْعَۃٌ مُسْتَقْبَحَۃٌ‘‘۔ (4)
(۸) … تیجہ وغیرہ کا کھانا اکثر میت کے ترکہ سے کیا جاتا ہے اس میں یہ لحاظ ضروری ہے کہ ورثہ میں نابالغ نہ ہو ور نہ سخت حرام ہے لیکن بالغ اگر اپنے حصہ سے کرے تو حرج نہیں۔ (5) (بہار شریعت بحوالہ خانیہ)
٭…٭…٭…٭