ماں کو قتل کرنے والے کا عبرتناک انجام
ماں کو قتل کرنے والے کا عبرتناک انجام
حضرت سیدنا جعفر بن سلیمان علیہ رحمۃالمنّان فرماتے ہیں ، حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃاللہ الغفّار نے فرمایا: ”ایک مرتبہ حج کے موسم میں، مَیں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا ۔ حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کی اتنی کثرت تھی کہ انہیں دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ میرے دل میں یہ خواہش اُبھری کہ کاش !کسی طر ح مجھے معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں میں سے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کون مقبول ہے تاکہ میں اس کو مبارکباد دوں اور جس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ یہ مردود ہے او راللہ عزوجل کی بارگاہ میں اس کا حج قبول نہیں تو اس کو نیکی کی دعوت دو ں اور اس کے لئے دعا کروں۔”
جب رات کو میں سویا تو خواب میں کسی کہنے والے نے کہا:”اے مالک بن دینار! تُو حاجیوں او ر عمرہ کرنے والوں کے بارے میں فکر مند ہے ؟تو سن !اس مرتبہ اللہ عزوجل نے ہر چھوٹے بڑے ، مرد وعورت ، سفیدوسیاہ رنگت والے ، عربی وعجمی الغرض ہر حج اور عمرہ کرنے والے کو بخش دیا ہے لیکن ایک شخص کی مغفرت نہیں کی گئی، اللہ عزوجل کا اس شخص پر بہت زیادہ غضب ہے اور اللہ عزوجل اس سے ناراض ہے۔ اس کا حج قبول نہیں کیا گیابلکہ اس کے منہ پر مار دیا گیا ہے ۔”
حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”اس خواب کے بعد میری جو حالت ہوئی اسے اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے ۔” میں نے یہ گمان کرلیا کہ وہ مغضوب شخص شاید مَیں ہی ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے ناراض ہے۔ میں بہت پریشان رہا۔ سارا دن اسی غم اور فکر میں گزر گیا پھر دو سری رات تھوڑی دیر کے لئے میری آنکھ لگی تو پھر مجھے اسی طرح کا خواب نظر آیااور
ایسی ہی غیبی آواز سنائی دی، پھر کہا گیا : ”اے مالک بن دینار ! تُو وہ نہیں جس کا ذکر کیا جارہا ہے بلکہ وہ تو خراسان کا ایک شخص ہے جو بلخ شہر میں رہتا ہے، اس کا نام محمد بن ہرون بلخی ہے ۔اللہ عزوجل اس سے شدید ناراض ہے، اس کا حج مردو د ہے اور اس کے منہ پر مار دیا گیا ہے ۔”
حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”میں صبح خراسان سے ا ۤئے ہوئے حاجیوں کے قافلے میں گیا انہیں سلام کیا اوران سے پوچھا : ”کیا تم میں بلخ شہر کے حجاج موجود ہیں ؟ ”انہوں نے کہا :”ہاں !ہم میں بلخ کے کئی حاجی موجود ہیں ۔”میں نے پھرپوچھا: ”کیا تم میں کوئی محمد بن ہرون بلخی ہے؟” انہوں نے کہا: ”مرحبا! اس نیک شخص کو کون نہیں جانتا ، اس سے بڑھ کر عا بد وزاہد پور ے خراسان میں کوئی نہیں ۔ ”
(حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ)مجھے ان لوگو ں کی زبانی اس کی تعریف سن کر بڑا تعجب ہوا کیونکہ خواب میں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ بہرحال میں نے ان سے پوچھا :” اس وقت وہ کہا ں ہوگا؟”لوگو ں نے کہا:” وہ چالیس سال سے مسلسل روزے رکھ رہا ہے او رساری ساری رات عبادت میں گزار دیتا ہے، اگر تم اسے تلاش کرنا چاہتے ہو تو مکہ مکرمہ کے کسی ٹو ٹے پھوٹے مکان میں تلاش کر و وہ ایسی ہی جگہوں میں قیام کرتا ہے۔”
ان لوگوں سے یہ معلومات حاصل کرنے کے بعد میں مکہ شریف کے ویران علاقے کی طر ف گیا اور اس ابن ہرون کو ڈھونڈ نے لگا۔بالآخر ایک دیوار کے پیچھے میں نے ایک شخص کو دیکھا۔میں نے جان لیاکہ یہی ابن ہرون ہے ۔اس کی حالت یہ تھی کہ اس کا سیدھا ہاتھ کٹا ہو اتھا اور اس ہاتھ کی ہڈی میں سوراخ کر کے زنجیر ڈال دی گئی تھی۔
ابن ہرون نے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ کو زنجیر کی مدد سے گر دن سے لٹکایا ہوا تھا۔اسی طر ح اس نے اپنے قدموں میں بھی بیڑیاں ڈال رکھی تھیں او روہ مشغولِ عبادت تھا۔جب اس نے میرے قدموں کی آہٹ سنی تو وہ میری طرف متوجہ ہو ا اور کہنے لگا: ”اے اللہ عزوجل کے بندے! تُو کو ن ہے او رکہا ں سے آیا ہے ؟” میں نے کہا: ”میرا نام مالک بن دینار(علیہ رحمۃ اللہ الغفار) ہے اور مَیں بصرہ کا رہنے والا ہوں ۔ ”وہ کہنے لگا:” اچھا! تم و ہی مالک بن دینار(علیہ رحمۃ اللہ الغفار ) ہو جن کی علمیت اور زُہد و تقوی کے ڈنکے پورے عراق میں بج رہے ہیں۔” میں نے کہا :” عالم تو اللہ عزوجل کی ذات ہے اور زاہد وعا بد حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز علیہ رحمۃاللہ المجید ہیں ،وہ اگر چاہیں توخوب عیش وعشرت سے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن با دشاہت کے باوجود انہوں نے زُہد و تقوی اختیار کیا او ردنیا سے بے رغبتی ان کے اندر بد رجہ اَتم پائی جاتی ہے ، ہمیں تو دنیاوی نعمتیں میسر ہی نہیں اس لئے ان سے دور ہیں۔”
اُس نے مجھ سے کہا: ”اے مالک بن دینار (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! تم میرے پاس کس لئے آئے ہو ؟ اگر تم نے میرے
بارے میں کوئی خواب دیکھا ہے تو بیان کر و۔ ”میں نے کہا: ”مجھے تمہارے سامنے وہ خواب بیان کرتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے ۔” تو وہ کہنے لگا:” اے مالک بن دینار(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! تم نے جوخواب دیکھاہے وہ بیان کرو اور مجھ سے شر م نہ کرو ۔”
(حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ) بالآخر مَیں نے اسے اپنا خواب سنایا ۔خواب سن کر وہ کافی دیر تک روتا رہا ، پھر کہنے لگا :” اے مالک بن دینار(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )! مسلسل چالیس سال سے میرے بارے میں حج کے موقع پر اسی طرح کا خواب کسی نیک وزاہد بندے کو دکھا یا جاتا ہے اور اسے بتا یا جاتا ہے کہ میں جہنمی ہوں ۔ ”حضرت سیدنا مالک بن دینارعلیہ رحمۃ اللہ الغفار فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میں نے اس سے پوچھا :” کیا تیرے اور اللہ عزوجل کے درمیان کوئی بہت بڑا گناہ حائل ہے ؟” اس نے کہا :”ہاں !میرا گناہ زمین و آسماں اور عرش وکرسی سے بھی بڑا ہے ۔”میں نے کہا: ”مجھے تم اپنا وہ گناہ بتاؤ تاکہ میں لوگوں کو اس کے اِرتکاب سے بچا ؤں اور انہیں اس گناہ سے ڈراؤں جس کی سزا تم بھگت رہے ہو۔ ”
تووہ کہنے لگا:” اے مالک بن دیناررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ! مَیں شراب کا عادی تھا اور ہر وقت شراب کے نشے میں مدہوش رہتا۔ ایک مرتبہ میں اپنے ایک شرابی دوست کے پاس گیا۔میں نے وہاں خوب شراب پی پھر جب مجھ پر نشہ طاری ہونے لگا اور میری عقل پرپردہ پڑگیا تومیں نشے کی حالت میں گرتا پڑتا اپنے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹا یا۔ میری زوجہ نے دروازہ کھولا ۔میں گھر میں داخل ہو ا تو میری والدہ تنور میں آگ جلا کر لکڑیاں ڈال رہی تھی او راس میں خوب آگ بھڑک رہی تھی ۔”
جب میری والدہ نے مجھے نشے کی حالت میں دیکھاتو میری طر ف ا ۤئی۔ مَیں لڑکھڑاکر گرنے لگا تواس نے مجھے تھام لیا اور کہنے لگی:” آج شعبان المعظم کی آخری تاریخ ہے اوررمضان المبارک کی پہلی رات شروع ہونے والی ہے، لوگ صبح روزہ رکھیں گے اور تیری صبح اس حالت میں ہوگی کہ تُو شراب کے نشے میں ہوگا ،کیا تجھے اللہ عزوجل سے حیا نہیں آتی؟ ” یہ سن کر مجھے غصہ آگیا اور میں نے ایک گھونسااپنی والدہ کے سینے پر مارا اور اسے اُٹھا کر جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا، مَیں اس وقت نشے میں تھا اور میرے ہوش وحواس بحال نہ تھے،جب میری زوجہ نے یہ درد نا ک منظر دیکھا تو اس نے مجھے دھکیل کر ایک کوٹھڑی میں بندکردیااورباہر سے کنڈی لگادی تا کہ پڑوسی میر ی آواز نہ سن سکیں اور انہیں معاملے کی خبر نہ ہو۔”
میں اسی طر ح نشے کی حالت میں پڑا رہا جب رات کافی گزر گئی تو مجھے ہوش آیا اب میرا نشہ دور ہوچکا تھا۔ میں دروازے کی طر ف بڑھا تو دروازہ بند تھا۔میں نے اپنی زوجہ کو آواز دی کہ دروازہ کھولو۔ اس نے بڑے سخت لہجے میں جواب دیا: ”میں دروازہ نہیں کھولوں گی ۔”میں نے کہا :”آخر تم مجھ سے اِتنی ناراض کیوں ہو؟ آخر مَیں نے ایسی کون سی خطا کی ہے ؟”اس نے کہا : ” تُو نے اتنی بڑی خطا کی ہے کہ تُو اس لائق ہی نہیں کہ تجھ پر رحم کیا جائے ۔”میں نے کہا :”آخربات کیا ہے؟ مجھے بھی تو
معلوم ہو کہ میں نے کیا بُری حرکت کی ہے؟”میری زوجہ نے کہا :” تُو نے اپنی ماں کو قتل کر دیا ہے اور اسے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا ہے اور اب وہ جل کر کوئلہ بن چکی ہے۔”
جب میں نے یہ بات سنی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے دروازہ اُکھاڑ پھینکا او رتنور کی طرف لپکا ، جب تنور میں دیکھا تو میری والدہ جل کر کو ئلہ ہوچکی تھی ۔ میں یہ حالت دیکھ کر بہت افسردہ ہوااور اُلٹے قدموں ٹوٹے ہوئے دروازے کی طر ف بڑھا اپنا ہاتھ چوکھٹ پر رکھا اور اس ہاتھ کو کاٹ ڈالا جس سے میں نے اپنی ماں کو گھونسا مارا تھا ،پھر میں نے لوہا گر م کر کے اس ہاتھ کی ہڈی میں سوراخ کیا اور اس میں زنجیر ڈال کر گلے میں لٹکا لیا پھر اپنے دونوں پاؤں میں بھی بیڑی ڈال لی ۔ اس وقت میری ملکیت میں آٹھ ہزار دینار تھے وہ سب کے سب میں نے غروبِ آفتاب سے قبل صدقہ کردیئے۔26 لونڈیاں اور23غلام آزاد کئے اور اپنی تمام جائیداد اللہ عزوجل کے نام پر وقف کردی ۔
اب مسلسل چالیس سال سے میری یہ حالت ہے کہ دن میں روزہ رکھتا ہوں اور ساری ساری رات اپنے پر ور دگار عزوجل کی عبادت کرتا ہوں اور چالیس دن کے بعد کھانا کھا تاہو ں۔ صرف اِفطاری کے وقت تھوڑا سا پانی اور کوئی معمولی سی چیز کھالیتا ہوں ۔ میں ہر سال حج کرنے آتا ہوں او رہر سال کسی عالم وزاہد کو میرے متعلق ایسا ہی خواب دکھایا جاتا ہے جیسا آپ کودکھایا گیا ہے ، یہ ہے میری ساری داستانِ عبرت نشان۔”
حضرت سیدنا مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفَّار فرماتے ہیں : ”یہ سن کر میں نے اس کے چہرے کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا :” اے منحوس انسان! قریب ہے کہ جو آگ تجھ پر نازل ہونے والی ہے وہ ساری زمین کو جلا ڈالے۔ پھر میں وہاں سے ایک طرف ہوگیا اور ایک جگہ چھپ گیا تا کہ وہ مجھے نہ دیکھ سکے۔جب اس نے محسوس کیا کہ میں جاچکاہو ں تو اس نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھایا اور اللہ عزوجل سے اس طر ح مناجات کرنے لگا:
” اے غموں اور مصیبتو ں کو دور کرنے والے! اے مجبور اور پریشان حال لوگو ں کی دعائیں قبول کرنے والے !اے میری اُمیدوں کی لاج رکھنے والے !اے گہرے سمندروں کو پیدا کرنے والے! اے میرے پا ک پروردگار عزوجل ! اے وہ ذات جس کے دستِ قدرت میں تمام بھلائیاں ہیں ! میں تیری رضا چاہتا ہوں اور تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں ، تُو اپنے عفو وکرم کے صدقے مجھے عذاب سے محفو ظ رکھ اور مجھے اپنی ناراضگی سے بچا ۔اے میرے پاک پرورد گار عزوجل !مَیں کما حقہ تیری تعریف نہیں کرسکتا،تُوایسا ہی ہے جیسا تُونے اپنی تعریف خود بیان فرمائی ،اے میر ے رحیم وکریم پر وردگار عزوجل !تُو میری اُمیدوں کی لاج رکھ لے، بے شک میں تجھ سے تیری رحمت کا طالب ہوں۔ (مجھے یقین ہے) کہ تُومیری دعا کو رد نہیں کریگا۔ میں صرف تجھ ہی سے دعا
کرتا ہوں ۔ اے اللہ عزوجل !موت سے پہلے مجھے اپنی رضا کا مژدہ سنادے او رمجھے اپنے عفو وکرم کی ایک جھلک دکھادے۔”
حضرت سیدنامالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی یہ رِقّت انگیز مناجات سن کر مَیں اپنی منزل کی طرف لوٹ آیا۔ پھر جب رات کو نیند آئی تو دل کی آنکھیں کھل گئیں ۔مجھے خواب میں پیارے آقا، مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت ہوئی ۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے مالک بن دینار! تُو لوگوں کو اللہ کی رحمت اور اس کے عفووکرم سے مایوس مت کر۔” بے شک اللہ عزوجل محمد بن ہرون کے افعال سے باخبر ہے اور اللہ عزوجل نے اس کی دعا قبول فرما کر اس کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف فرمادیا ہے تُو صبح اس کے پاس جانا اور اس سے کہنا :”بے شک اللہ عزوجل بر وز قیامت میدانِ محشر میں تمام اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا ۔اگر کسی سینگ والے جانور نے بغیرسینگ والے جانور کو مارا ہوگا تو اس کو بدلہ دلوائے گا او ر ذرے ذرے کا حساب لے گا۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! مَیں ذرے ذرے کا حساب لوں گا اور اگر کسی نے ذرہ بھر بھی ظلم کیا ہوگا تو مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواؤں گا ۔ اے ابن ہرو ن! کل بر وزِ قیامت اللہ عزوجل تجھے اور تیری ماں کو اکٹھا کریگا اور تیرے بارے میں فیصلہ ہوگا ۔فرشتے تجھے مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف دھکیل دیں گے پھر تُو دنیوی تین دن اور تین رات کے برابر جہنم کی آگ کا مزہ چکھے گا کیونکہ اللہ عزوجل فرما تا ہے:” میں نے اپنے اُوپر یہ بات لازم کرلی ہے کہ میرا جو بندہ بھی ناحق کسی جان کو قتل کریگا یا شراب پئے گا تو میں اسے جہنم کی آگ کا مزہ ضرورچکھاؤں گا اگر چہ وہ کیسا ہی بر گزیدہ کیوں نہ ہو۔” اے ابن ہرون !پھر اللہ عزوجل تیری ماں کے دل میں تیرے لئے رحم ڈالے گا او راس کے دل میں یہ بات ڈال دے گا کہ وہ اللہ عزوجل سے سوال کرے کہ:” اے اللہ عزوجل ! تُو میرے بیٹے کو بخش دے ۔” پھر اللہ عزوجل تجھے، تیری والدہ کے حوالے کردے گا، تیری والدہ تیرا ہاتھ پکڑ کر تجھے جنت میں لے جائے گی ۔”
حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” جب صبح ہوئی تو میں فوراًا بن ہرون کے پاس گیا اور اسے بشارت دی کہ آج رات خواب میں مجھے پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت نصیب ہوئی ۔ آپصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے تیرے بارے میں اس طر ح بتا یا ہے پھر میں نے اسے اپنا پورا خواب سنایا ۔ خدا عزوجل کی قسم! میراخواب سن کر وہ جھوم اُٹھا اور اس کی روح اس طر ح آسانی سے اس کے تن سے جدا ہوئی جیسا کہ پتھر کو جب پانی میں ڈالاجائے تو وہ آسانی سے نیچے کی جانب چلا جاتا ہے۔پھر اس کی تجہیز و تکفین کاانتظام کیا گیا اور میں نے اس کے جنازہ میں شرکت کی ۔ ”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ تعالی عليہ وسلم)
(میٹھے میٹھے اسلامی بھا ئیو!اللہ عزوجل اس پر رحم فرمائے او رہم سب کو اپنی رحمت کا ملہ کا سایہ عطا فرمائے، ہمیں لمحہ بھر کے لئے بھی جہنم کی آگ میں نہ ڈالے، ہمارے کمزور جسم جہنم کی آگ کو برداشت نہیں کر سکتے،ہم سے تو دنیاوی آگ کی چنگاری بھی بر داشت نہیں ہوتی جہنم کی وہ سخت آگ کس طر ح برادشت ہوگی، اللہ عزوجل ہمیں حضور نبی ئ کریم ، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صدقے نارِ جہنم سے محفوظ رکھے اور ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے،ہمیں دین ودنیا کی بھلائیاں عطا فرمائے او راپنی دائمی رضا سے مالا مال فرمائے، سر کا رصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ساری اُمت کی مغفرت فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم )