اسلام

کتاب الایمان

کتاب الایمان

(1)’’ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ ، إِذْطَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بِیَاضِ الثِّیَابِ، شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ، لَایُرَی عَلَیْہِ أَثَرُالسَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّم، فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ وَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ: اَلْإِسْلَامُ أَنْ تَشْھَدَ أَنْ لَاإِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللَّہِ وَتُقِیْمَ الصَّلَوۃَ وَتُؤْتِیَ الزَّکوۃَ وَتَصُوْمَ رَمْضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلاً قَالَ: صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَہُ یَسْاَلُہُ وَیُصَدِّقُہُ قَالَ: فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ الإِیْمَانِ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِوَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِخَیْرِہِ وَشَرِّہِ‘‘ (1) (مسلم شریف)
حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ ایک روز ہم رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص حاضر ہوا جس کے کپڑے بہت سفید تھے ( اور) بال نہایت سیاہ نہ اس شخص پر سفر کا کوئی نشان تھا اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا یہاں تک کہ وہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے سامنے بیٹھ گیا اور دو زانو ہو کر اپنے گھٹنے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گھٹنے سے ملا دیئے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لیے اور عرض کیا اے محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) مجھ کو اسلام کی حقیقت کے بارے میں آگاہ فرمائیے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے اس امر کی کہ خدائے تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) خدائے تعالیٰ کے رسول ہیں اور تو نماز ادا کرے ۔ زکوۃ دے رمضان کے روزے رکھے اور خانۂ کعبہ کا حج کرے اگر توا س کی استطاعت
رکھتا ہو اس شخص نے ( یہ سن کر) عرض کیا آپ نے سچ فرمایا (راوی کہتے ہیں کہ) ہم لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ شخص دریافت بھی کرتا ہے اور ( خود ہی) تصدیق بھی کرتا ہے پھر اس نے پوچھا ایمان کی حقیقت بیان

فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا۔ ( ایمان یہ ہے ) کہ تو خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتوں نیز اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پریقین رکھے اور تقدیر کی بھلائی اور برائی کو دل سے مانے ۔

شرح حدیث :

حضرت شیخ محقق شاہ عبدالحق دہلوی بخار ی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’اَلْإِسْلَامُ أَنْ تَشْھَدَ أَنْ لَااِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:
کہ اسلام اسم ظاہر اعمال ست و ایمان نام باطن اعتقاد و دین عبارت از مجموع اسلام وایمان ست وآنکہ درعقائد مذکورست کہ اسلام وایمان یکے ست بآن معنی ست کہ ہر مومن مسلم است وہر مسلم مومن و نفی یکے مومن دواسم از مسلمان نہ توان کرد ، وبہ حقیقت اسلام ثمرۂ ایمان و فرع ست و علماء رادریں مسئلہ کلام بسیارست وتحقیق ایںاست کہ گفتہ شد۔ (1)
یعنی اسلام ظاہری اعمال(مثلاً نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے ، زکوۃ دینے وغیرہ) کا نام ہے اور ایمان نام ہے اعتقادِ باطن کا ( یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دل سے ماننے کا نام ایمان ہے )اور اسلام و ایمان کے مجموعہ کا نام دین ہے اور وہ جو عقائد (کی کتابوں) میں مذکور ہے کہ اسلام و ایمان دونوں ایک ہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مومن مسلمان ہے اور ہر مسلمان مومن ہے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کی نفی مسلمان سے نہیں کرسکتے ۔ اور حقیقت میں اسلام ایمان کا نتیجہ اور اس کی فرع ہے ۔ علمائے کرام کے کلام اس مسئلہ میں بہت ہیں لیکن تحقیق یہی ہے جو بیان کیا گیا ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول ص ۳۸)
پھر حضرت شیخ محقق نے ’’ أَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ‘‘ کے تحت فرمایا ہے کہ:
’’حقیقت ایمان اینست کہ بگردی بخدائے تعالٰی بذات و صفات ثبوتیہ
یعنی ایمان کی حقیقت یہ ہے کہ تو خدائے تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفاتِ ثبوتیہ و سلبیہ کو دل سے مانے

وسلبیۂ وے و تنزیہ وتقدیس وے تعالی کنی از جمیع نقائص وامارات حدوث‘‘(1)
اور تمام عیبوں اور حدوث کی علامتوںسے اسکوپاک ومنزہ یقین کرے ۔ (اشعۃ اللمعات ، ج ۱ ، ص ۴۰)
اور وَرُسُلِہ کے تحت فرمایا کہ:
’’واجب ست ایمان آوردن بہمہ انبیابے فَرْق دراصل نبوت و واجب ست احترام وتنزیہہ ساحتِ عزت ایشاں از وصمت نقص وعصمت ایشاں از جمیع گنا ہاں خرد وبزرگ پیش از نبوت وپس ازوے ہمیں ست قول مختار وآنچہ در قرآن مجید بآدم (علیہ السلام) نسبت عصیاںکردہ وعتاب نمودہ مبنی برعلوشان قرب اوست و مالک رامی رسد کہ برترک اولٰی وافضل اگر چہ بحد معصیت نہ رسد بہ بندۂ خود ہر چہ خواہد بگوید وعتاب نماید دیگرے رامجال نہ کہ تواندگفت۔ واینجا ادبیست کہ لازم است رعایت آں وآں انیست کہ اگر از جانب حضرت بہ بعض انبیاء کہ مقربانِ درگاہ اندعتابے وخطابے رودیا
یعنی تمام انبیائے کرام علیہم السلام پرایمان لانا واجب ہے ( اس طرح پر کہ کسی کے درمیان ) اصل نبوت میں تفریق نہ کرے اور تعظیم و توقیر کرنا نیز نقص کے عیب سے ان حضر ات کی بارگاہِ عزت کو پاک سمجھنا اور قبلِ نبوت و بعدِ نبوت چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے انہیں معصوم جاننا واجب ہے ۔ یہی قول مختار ہے ۔ اور جو قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کی طرف عصیان کی نسبت کی گئی اور عتاب فرمایا گیا تو وہ ان کی شانِ قرب کی بلندی پر مبنی ہے اور مالک کو حق پہنچتا ہے کہ اولیٰ اور افضل کے ترک پر اگرچہ وہ گناہ کی حد تک نہ پہنچے ہوں ان پر اپنے بندہ کو جو چاہے کہے اور عتاب فرمائے دوسرے کی مجال نہیں کہ کچھ کہہ سکے اور اس مقام پر ایک معیار ِادب ہے جس کی رعایت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کی طرف سے بعض انبیاء علیہم السلام پر جو کہ بارگاہِ الہٰی کے مقرب ہیں کوئی عتاب یا خطاب نازل ہو یا ان حضرات کی جانب

از جانب ایشاں کہ بندگانِ خاص ادیند تواضعے وذلتے وانکسارے صادرگرددکہ موہم نقص بود مارا نباید کہ دراں دخل کنیم وبدان تکلم نمائیم ، ومجمل اعتقاد درحق سید انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آنست کہ ہر چہ جز مرتبۂ الوہیت وصفات اوست حضرت اوراثابت ست ووے ہمہ فضائل وکمالات بشری راشامل و درہمہ راسخ وکامل‘‘(1)۔
سے جو کہ خدائے تعالیٰ کے مخصوص بندے ہیں کوئی تواضع، عاجزی اور انکساری کا اظہار ہو جس سے نقص کا وہم ہوتا ہو تو ہم کو جائز نہیں کہ اس میں دخل دیں اور ان ( کلمات ِعتاب یا تواضع) کو ( ان کے حق میں) بولیں اور سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں اجمالی اعتقاد یہ ہے کہ مرتبہ الوہیت اور خدا کی صفات کے علاوہ جو کچھ ہے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے ثابت ہے اور آنحضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام فضائل و کمالاتِ بشری کے جامع اور سب میںراسخ وکامل ہیں۔ (اشعۃ اللمعات ، ج ۱ ، ص ۴۰)
(2)’’ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ شَھِدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النّارَ‘‘(2) (مسلم شریف)
حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ خدائے تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمحمد ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ) خدائے تعالیٰ کے رسول ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اس پر
دوزخ کی آگ حر ام فرمادیتا ہے ۔
واضح ہو کہ توحید و رسالت کی گواہی کے باوجود اگر آدمی سے کوئی ایسا قول یا فعل پایا گیا جو کفر کی نشانی ہو تو بحکم شریعتِ مطہرہ وہ کافر ہوجائے گا۔ اشعۃ اللمعات جلد اول کتاب الایمان کے شروع میں ہے :
’’باوجود تصدیق واقرار چیزے کنند
یعنی ( توحید و رسالت کی ) تصدیق و اقرار کے

کہ شار ع آں را امارت و علامت کفر ساختہ مثل سجدہ صنم و شد زنّار و امثال آں پس مرتکب ایں امور نیز بحکم شر ع کافراست اگرچہ فرضاً تصدیق واقرار داشتہ باشد‘‘(1)
باوجود اگر کوئی ایسا کام کرے جس کو شار ع علیہ السلام نے کفر کی نشانی اور علامت ٹھہرائی ہو جیسے بت کو سجدہ کر نا اور زنار ( یعنی جینو) باندھنا وغیرہ ۔ تو ایسے کاموں کا کرنے والا بھی بحکم شرع کافر ہے اگرچہ بظاہر (توحید و رسالت کی) تصدیق و اقرا رکرتا ہو۔
c’’ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ‘‘(2) (بخاری ومسلم)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سر کار اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے ماں باپ بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔

شرح حدیث :

حضر تِ شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’نشان ایمان مومن کامل آنست کہ پیغمبر خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبوب تر و معظم از ہمہ چیز وہمہ کس باشد نزد مومن‘‘
یعنی مومنِ کامل کے ایمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن کے نزدیک رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و معظم ہوں۔
پھر چند سطور کے بعد فرماتے ہیں کہ:
’’مراد بامحبت ایں جا ترجیح جانب آنحضرت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ درادائے حق بالتزامِ دین و اتباعِ سنت دررعائت ادب و ایثار رضائے وے
اس حدیث میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیادہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اونچا مانے اس طرح کہ حضور کے لائے ہوئے دین کو تسلیم کرے حضور

صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ برہرکہ و ہر چہ غیر اوست از نفس وولد و والد اہل و مال و منال چنانکہ راضی شود بہلا کہ نفس خود وفقدان ہر محبوب نہ فوات حق وے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم‘‘(1)
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں کی پیروی کرے حضور کی تعظیم و ادب بجالائے اور ہر شخص اور ہر چیز یعنی اپنی ذات ، اپنی اولاد ، اپنے ماں باپ، اپنے عزیز و اقارب اور اپنے مال و اسباب پر حضور کی رضا و خوشی کو مقدم رکھے جس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی ہر پیاری چیز یہاں تک کہ اپنی جان کے چلے جانے پر بھی راضی
رہے لیکن حضور کے حق کو دبتا ہوا گوارا نہ کرے ۔ (اشعۃ اللمعات ، جلد اول، ص ۴۷)
اور حضرت مُلا علی قاری علیہ رحمۃ الباری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
’’ لَیْسَ الْمُرَادُ الْحُبُّ الطَّبِیْعِیُّ لأنّہ لا یَدْخُلُ تَحْتَ الاخْتِیَارِ وَلَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسَاً اِلَّا وُسْعَھَا بَلِ الْمُرَادُ الْحُبُّ الْعَقْلِیُّ الَّذِی یُوجِبُ إیْثَارَ مَا یَقْتَضِی العَقْلُ رُجْحَانَہٗ وَیَسْتَدْعِیْ اِخْتِیَارَہٗ وَإِنْ کَانَ عَلٰی خِلافِ الھَوَی کَحُبِّ الْمَرِیْضِ الدَّوَائَ فإنّہ یَمِیْلُ إلَیہ بِاخْتِیَارِہٖ ویَتَنَاوَلُ بِمُقْتَضَی عَقْلِہٖ لِمَا عَلِمَ وَظَنَّ أنَّ صَلاحَہٗ فِیہ وإن نَفَرَعَنْہُ طَبعُہٗ مثلاً لوأَمَرَہُ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ أَبَوَیْہِ وَأَوْلادِہٖ الکافِرینَ أوْ بِأَنْ یُّقَاتِلَ الکفارَ حَتَّی یکونَ شھیدًا، لأَحَبَّ أن یختارَ ذلک لِعِلْمِہٖ أنَّ السّلامۃَ فِی امْتِثَال أمْرہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أوالمراد الحُبُّ
یعنی اس حدیث میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جو محبت رکھنے کا حکم ہے اس سے مراد محبت طبعی نہیں اس لیے کہ وہ اختیار سے باہر ہے (اور انسان ایسی چیز کا مکلف نہیں بنایاجاتا جو اس کے اختیار سے باہر ہو) (کَمَا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی) {لایُکَلِّفُ اﷲ نَفْساً الا وُسْعَھَا}بلکہ اس سے مراد محبتِ عقلی ہے جو اس امر کی تقدیم کو ضروری قرار دیتی ہے جس کی ترجیح کا عقل تقاضا کرے اور جس کے اختیار کرلینے کا عقل مطالبہ کرے اگرچہ وہ امر خواہشِ نفس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو مثلاً بیمار آدمی کا (کڑوی) دواسے محبت رکھنا(یہ محبت عقلی ہے )چنانچہ وہ دواکو پسند کرکے اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کو بربنائے تقاضائے عقل پیتا ہے ؛اس لیے کہ وہ یقین رکھتا ہے یا اندازہ

الإیْمَانِی النَّاشِیْ عن الإجلالِ والتوقیرِ والاحْسَانِ وَالرَّحمۃِ وَھُوَ إیثارُ جَمِیْعِ أَغْرَاض الْمَحْبُوْبِ عَلٰی جَمِیْعِ أَغْرَاضِ غَیْرِہٖ حَتَّی القَرِیَب وَالنَّفْس وَلَمَّا کَانَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَامِعاً لِمُوْجِبَاتِ الْمَحَبَّۃِ مِنْ حُسْنِ الصُّوْرَۃِ وَالسِّیْرَۃِ وَکَمَالِ الْفَضْلِ وَالاحْسَانِ مَا لَمْ یَبْلُغْہٗ غَیْرُہٗ اسْتَحَقَّ أن یَّکُوْنَ أحبَّ إلَیَّ المؤمن مِنْ نَّفْسِہٖ فَضْلاً عَنْ غَیْرِہٖ سِیْمَا وَھُوَ الرَّسُوْلَ مِنْ عِنْدَ الْمَحْبُوْبِ الْحَقِیْقِیِّ الْھَادِیْ إِلَیْہِ وَالدَّالُّ عَلَیْہِ وَالْمُکَرَّم لَدَیْہِ ‘‘(1)
کرتا ہے کہ میری تندرستی اس(دوا کے پینے ) میں ہے اگرچہ اس دوا سے اس کی طبیعت متنفررہتی ہو۔ مثلاً اگر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کسی کو حکم دیں کہ اپنے کافر والدین اور اولاد کو قتل کردے ۔ یا یہ حکم دے دیں کہ کفار سے لڑائی کرے اور لڑتے ہوئے شہید ہوجائے تو وہ اس کے کر گزرنے کا ضرور شیدائی رہے کیونکہ ازروئے عقل وہ اتنا بہرحال جانتا ہے کہ آپ کی اطاعت ہی میں عافیت ہے ۔ یا اس حدیث میں محبت سے مراد محبت ایمانی ہے جو آپ کی بزرگی قدرو عظمت اور آپ کے احسان و مہربانی کے سبب (قلبِ مومن میں) پیدا ہوتی ہے ، محبت ِایمانی
کا تقاضا یہ ہے کہ محب اپنے محبوب کی تمام خواہشوں کو دوسرے لوگوں یہاں تک کہ اپنے عزیز اور خود اپنی ذات کی اغراض پر ترجیح دے ، اور چونکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبت کیے جانے کے تمام اسباب یعنی خوب صورتی، خوش خلقی، کمال ِبزرگی اور کمالِ احسان کے جامع ہیں اور ایسے جامع ہیں کہ آپ کے سوا کوئی دوسرا اس جامعیت کو نہیں پہنچ سکتا ؛لہذا آپ ہر مومن کے نزدیک اس کے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہونے کے مستحق ہیں تو مومن کے تئیں اس کے غیر سے بدر جہ اولیٰ آپ محبوب ہوں گے خاص کر اس صورت میں کہ آپ اس محبوبِ حقیقی یعنی خدائے تعالیٰ کی طرف سے رسول ہیں اور خدا تک پہنچانے والے اور اس تک رسائی کا راستہ بنانے والے اور ان کی بارگاہِ جبروت میں عزت و عظمت والے ہیں۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ، جلد اول، ص۶۴)

انتباہ :

(۱)… خدائے تعالیٰ زمان و مکان سے پاک ہے اس کے لیے زمان و مکان ثابت کرنا کفر ہے ۔
(۲)… خدائے تعالیٰ کو اللہ پاک یا اللہ تعالیٰ کہنا چاہیے ۔ اللہ میاں کہنا ممنوع و ناجائز ہے ۔

(۳)… اگر کسی نے خدائے تعالیٰ کے بارے میں بڑھئو ( بڈھے ) کا لفظ استعمال کیا تو وہ کافر ہوجائے گا۔
(۴)… کوئی شخص بیمار نہیں ہوتا یا بہت بڈھا ہے مرتا نہیں اس کے لیے یہ نہ کہا جائے کہ اللہ اسے بھول گئے ہیں۔
(۵)… جو بطورِ تمسخر اور ٹھٹھے کے کفر کرے گا وہ بھی کافر و مرتد ہوجائے گا۔ اگرچہ کہتا ہو کہ میں ایسا اعتقاد نہیں رکھتا جیسا کہ در مختار ، باب المرتد میں ہے : ’’مَن ھَزَلَ بِلَفْظِ کُفْرٍ اِرْتَدَّ وَ إِنْ لَمْ یَعْْتَقِدْہُ لِلْاِسْتِخْفَافِ‘‘(1)
اور شامی جلد سوم ص:۲۹۳پر بحرالرائق سے ہے :’’والحَاصلُ أَنّ من تَکلّم بکلمۃِ الکُفرِ ھَازلاً أَوْلاعِباً کَفَرَعِنْد الکُلّ ولَا اعتبارَ بِاعْتقادِہ کما صرّح بہ فی الخانیۃ‘‘(2)
(۶)… کسی نبی کی شان میں گستاخی و بے ادبی کرنا یا ان کے لیے کوئی عیب ثابت کرنا کفر ہے ۔
(۷)… قرآنِ مجید کی کسی آیت کو عیب لگانا یا اس کی توہین کرنا یا اس کے ساتھ تمسخر کرنا کفر ہے ۔ مثلاً اکثر داڑھی منڈے کہتے ہیں۔ ’’ کَلاَّ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ جس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں : کَلاَّصاف کرو ۔ یہ قرآنِ مجید کی کھلی ہوئی تحریف ہے اور اس کے ساتھ مذاق دل لگی بھی۔ اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔ (3)(بہار شریعت، جلد نہم)
(۸)… کسی سے نماز پڑھنے کو کہا اس نے جواب دیا تم نے نماز پڑھی کیا فائدہ ہوا، یا کہا بہت پڑھ لی اب دل گھبرا گیا ، یا کہا پڑھنا نہ پڑھنا دونوں برابر ہے ، غرض اس قسم کی بات کرنا کہ جس سے فرضیت کا انکار سمجھا جا تا ہو یا نماز کی تحقیر ہوتی ہو ۔ یہ سب کفر ہے ۔ (4) (بہار شریعت)
(۹)… کسی سے روزہ رکھنے کو کہا اس نے جواب دیا کہ روزہ وہ رکھے جسے کھانا نہ ملے ، یا یہ کہا کہ جب خدا نے

کھانے کو دیا ہے تو بھوکے کیوں مریں ، یا اسی قسم کی اور باتیں جن سے روزہ کی ہتک و تحقیر ہو کہنا کفر ہے ۔ (1) (بہار شریعت)
(۱۰)… ماہ رمضان میں علانیہ دن میں کھانے سے منع کرنے پر یہ لفظ بولنا کہ ’’ جب اللہ کا ڈر نہیں ہے تو لوگوں کا کیا ڈر‘‘ کفر ہے ۔
(۱۱)… علمِ دین اور علماء کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ وہ عالمِ علمِ دین ہے کفر ہے ۔ (2) (بہار شریعت)
(۱۲)… ہولی اور دیوالی پوجنا کفر ہے کہ یہ عباداتِ غیر اللہ سے ہے ، کفار کے میلوں، تہواروں میں شریک ہو کر ان کے میلے اور مذہبی جلوس کی شان و شوکت بڑھانا کفر ہے ۔ جیسے رام لیلااور جنم اشٹمی اور رام نومی وغیرہ کے میلوں میں شریک ہونا، یونہی ان کے تہواروں کے دن محض اس وجہ سے چیزیں خریدنا کہ کفار کا تہوار ہے یہ بھی کفر ہے جیسے دیوالی میں کھلونے اور مٹھائیاں خریدی جاتی ہیں کہ آج خریدنا دیوالی منانے کے سوا کچھ نہیں۔ یونہی کوئی چیز خرید کر اس روز مشرکین کے پاس ہدیہ کرنا جب کہ مقصود اس دن کی تعظیم ہو تو کفر ہے ۔ (3) (بہار شریعت جلد نہم ص ۱۷۱، بحوالہ بحرالرائق)
(۱۳)…’’ اَلْکُفرُفی الشّرعِ إِنکارُ مَا عُلِمَ بِالضّرورۃِ مَجیئُ الرَّسولِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بہ وإنّما عُدَّ لبس الغیارِ وشدّ الزنارِ وَنحوھما کفراً لأنَّھَا تَدُلُّ علی التکذیبِ، فَإِنَّ مَن صَدَّقَ رَسُولَ اللَّہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَا یَجْتَریء علیھا ظاھراً‘‘(4)
یعنی جن باتوں کا پیش کرنا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو، ان میں سے کسی ایک بات کا انکار کرنا اصطلاح شرع میں کفر ہے ۔ غیار (5) اور زنار یعنی جینو وغیرہ کے استعمال کو اس لیے کفر کہا گیا ہے کہ یہ امر(حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی) تکذیب کا نشان ہے کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مانے
گا ، وہ ایسی چیزوں کے استعمال کی جرأت نہیں کرسکتا۔ (بیضاوی ، ص۲۳)

(۱۴)… ’’ اَلْإِشرَاکُ ھُوَ إِثْباتُ الشَّریکِ فی الألوھیَّۃِ بمعنی وُجوبِ الوجودِ کمَا للمجُوسِ أو بمعنی استحقَاق العِبَادۃِکَمَا لِعَبَدَۃِ الْأَصْنَامِ‘‘(1)
یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو واجب الوجود ماننا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا کسی غیر خدا کو لائق ِ عبادت سمجھنا جیسا کہ بت پرستوں کا اعتقاد ہے یہ شرک ہے ۔ (شرح عقائد نسفی ص۶۱)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’شر ک سہ قسم ست در وجود ودر خالقیت ودر عبادت‘‘ اھ(2)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک تین طرح پر ہوتا ہے ایک تویہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی واجب
الوجود ٹھہرائے ، دوسرے یہ کہ خدائے تعالیٰ کے سوا کسی اور کو خالق جانے تیسرے یہ کہ خدائے تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کرے یا اسے مستحق عبادت سمجھے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول ص ۷۲)
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’اشعۃ اللمعات‘‘ ، کتاب الإیمان ، الفصل الأول، ج۱، ص۴۲.

________________________________
1 – ’’اشعۃ اللمعات ‘‘، کتاب الإیمان ، الفصل الأول، ج۱، ص۴۳.

________________________________
1 – ’’اشعۃ اللمعات‘‘، کتاب الإیمان ، الفصل الأول، ج۱، ص۴۳.
2 – ’’صحیح مسلم ‘‘، کتاب الإیمان ، باب الدلیل علی أن من مات إلخ، الحدیث: ۴۷۔ (۲۹) ص۳۶.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!