اسلامواقعات

تاتاریوں کا فتنہ اور حادثۂ بغداد

تاتاریوں کا فتنہ اور حادثۂ بغداد

حضرت ابو بکر ہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (۲ ) سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میری امت کے لوگ ایک پست زمین میں جس کا نام بصر ہ ہوگا ایک دریاکے نزدیک اتریں گے جس کو دجلہ کہتے ہیں ۔ اس دریاپر ایک پل ہو گا۔بصرہ کے باشند ے بکثرت ہوں گے اور وہ شہر مسلمانوں کے بڑے شہروں میں سے ہوگا جب آخر زمانہ آئے گا تو قنطورا کے بیٹے آئیں گے جن کے چہرے فراخ اور آنکھیں چھوٹی ہوں گی یہاں تک کہ وہ اس دریا کے کنارے پر اتریں گے۔اس وقت بصر ہ کے باشندے تین گر وہ ہو جائیں گے۔ ایک گروہ بیلوں کی دموں ( ۳) اور بیابان میں پناہ لے گا اور ہلاک ہو جائے گا اور

ایک گروہ اپنی جانوں کے لئے طالب امان ہوگا اور ہلاک ہو جائے گا اور ایک گروہ اپنی اولاد کو پس پشت ڈال دے گا اور ان سے لڑے گا، وہی حقیقی شہید ہوں گے۔اس حدیث کو ابو داؤد ( ۱) نے روایت کیا ہے۔ ( ۲)
اس حدیث میں قنطوراء سے مراد تا تاری لوگ یعنی ترک ہیں کیونکہ قنطوراء حضرت ابراہیم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی ایک لو نڈی کا نام ہے جس کی نسل سے یہ لوگ ہیں ۔ ان کے چہروں کے کشادہ اور آنکھوں کے چھوٹا ہونے میں کسی کو کلام نہیں ۔ البتہ حدیث میں بصر ہ کا لفظ ہے مگر اس سے مراد شہر بغداد ہے کیونکہ دریائے دجلہ اور پل بغداد میں ہیں نہ کہ بصر ہ میں ۔ونیز ترک لڑائی کے لئے اس کیفیت سے جوحدیث میں مذکورہے بصر ہ میں نہیں آئے بلکہ بغداد میں آئے ہیں جیسا کہ مشہور ومعروف ہے۔ حدیث میں بصرہ کا ذکر اس لئے ہے کہ بغداد کی نسبت بصرہ قدیم شہر ہے جس کے مضافات میں سے وہ گاؤں اور مواضع تھے جن میں شہر بغداد بنا۔ علاوہ ازیں بغداد کے نزدیک ایک گاؤں کانام (۳ ) بھی بصرہ ہے۔ ( ۴)
یہ پیشین گوئی ماہ محرم ۶۵۶ ھ میں پو ری ہو ئی جب کہ چنگیز خاں تاتا ری کے پوتے ’’ ہلا کو ‘‘ نے شہر بغداد پر لشکر کشی کی۔اس کی مختصر کیفیت ( ۵) یہ ہے کہ اس وقت بغداد میں خاندان عباسیہ کا آخری خلیفہ معتصم باللّٰہ مسند خلافت پر متمکن تھا۔اس کا وز یر مؤید الدین محمد بن علی العلقمیفاضل وادیب مگر رافضی تھا اور اس کے دل میں اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے کینہ وبغض تھا۔وزیر مذکور شہزاد ہ ابو بکر اور امیر کبیر رکن الدین دُوَیدار کابھی دشمن تھاکیونکہ یہ دونوں اہل سنت تھے اور انہوں نے یہ سن کر کہ کرخ (۶ ) کے رافضیوں نے اہل سنت سے تعرض کیا ہے (۷ ) کرخ کو لوٹ لیا تھا اور روافض کو

سخت سزائیں دی تھیں ۔ ( ۱) ابن علقمی چو نکہ بظاہر ان کے خلاف کچھ نہ کر سکتا تھا اس لئے اس نے پو شید ہ طور پر بذریعہ کتابت تا تا ریوں کو عراق پر حملہ کر نے کی تر غیب دی۔ ہلاکو کے دربار میں حکیم نصیر الدین طوسی رافضی تھا جس نے ابن علقمی کی ترغیب کو اور سہار اد یا اور آخر کارہلاکو کو بغداد پر چڑھائی کے لئے آمادہ کر دیاچنانچہ ہلا کو بڑی تیاری کے ساتھ بغداد پر چڑھ آیا۔لشکر بغداد بسر کر دگی رکن الدین دُوَید ار مقابلہ کے لئے بڑھا اور بغداد سے دو منزل کے فاصلہ پر ہلا کو کے مقدمہ لشکر سے جس کا سر دار تایجو تھا مٹھ بھیڑ ہوئی۔ (۲ ) بغدادیوں کو شکست ہو ئی کچھ تہ تیغ (۳ ) ہو ئے ، کچھ پا نی میں ڈوب گئے اور باقی بھاگ گئے۔ تا یجو آگے بڑھا اور دریائے دجلہ کے مغر بی کنارہ پرا ترا۔ہلاکو نے مشرق سے حملہ کیا اور بغداد کو گھیر لیا۔اس وقت ابن علقمی نے خلیفہ کو صلح کا مشور ہ دیا اور کہا کہ میں صلح کی شرائط ٹھہرا نے جاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ گیا اور واپس آکر خلیفہ معتصم سے کہنے لگا: اے امیر المومنین! ہلا کو کی دلی خواہش ہے کہ اپنی بیٹی کا نکاح آپ کے بیٹے امیر ابو بکر سے کر دے اور آپ کو منصب خلافت پرقائم رکھے مگر وہ صرف آپ سے اتنا چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت تسلیم کر لیں پھر وہ اپنا لشکر لے کر واپس چلا جائے گا۔لہٰذا آپ اس پر عمل کریں کیونکہ اس طرح مسلمان خونریز ی سے بچ جائیں گے۔یہ سن کر خلیفہ مع ار کان و اَعیانِ سلطنت (۴ ) طالب امن وامان ہو کر نکلا۔وہاں پہنچا تو وہ ایک خیمہ میں اتارا گیا۔ پھر وزیر مذکور شہر میں آیا اور علماء وفقہاء سے کہا کہ آپ شہزاد ہ کے عقدمیں شامل ہوں ۔ چنانچہ وہ بغداد سے نکلے اور قتل کیے گئے۔اسی طرح عقد کے بہانہ سے ایک کے بعد دوسرا گر وہ بلایا گیا اور قتل کیا گیا۔پھر خلیفہ کے حاشیہ نشین ( ۵) طلب ہوئے اور قتل کیے گئے۔ پھر خلیفہ کی سب اولا د قتل ہوئی۔
خلیفہ کی نسبت کہا گیا ہے کہ کا فر ہلا کو نے اسے رات کے وقت بلا یا اور کئی باتیں دریافت کیں ۔پھر اس کے قتل کا حکم دیا۔ ہلاکو ظالم سے کہا گیا کہ اگر خلیفہ کا خون گرایا جائے گا تو دنیا تا ریک ہو جائے گی اور تیرا ملک تباہ ہو جائے گا کیونکہ وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا کی اولا دمیں سے ہے اور دنیا میں خلیفۃ اللّٰہ ہے۔اس پر وہ سنگدل حکیم نصیر الدین طوسی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ وہ مار ڈالا جائے مگر اس کا خون نہ گرایا جائے۔ چنانچہ بتا ریخ ۲۸ محرم ۶۵۶ ھ اس

بیچارے کو ایک بوری میں بند کر کے ہتھوڑ وں سے مار ڈالا گیا۔ بعضے کہتے ہیں کہ ا سے لاتوں سے مارڈالا گیا اور اس کے امیر وں سے ایک کو بھی زند ہ نہ چھوڑ ا گیا۔پھر شہر بغداد میں خونر یز ی شروع ہوئی۔اکثر باشند ے شہید ہوئے۔ تیس دن سے کچھ اوپر قتل جاری رہا۔کہا گیا ہے کہ مقتولین کی کل تعداد اٹھا رہ لاکھ تھی۔
اس کے بعد امان دی گئی جو لوگ چھپے ہو ئے تھے ا ن میں سے اکثر تو زمین کے نیچے ہی طرح طرح کی مصیبتوں سے مر گئے۔جو زند ہ نکل آئے انہوں نے بڑی دقتیں اٹھائیں پھر گھروں کو کھود کر بے شمار دفینے نکالے گئے۔پھر نصاریٰ بلا ئے گئے تاکہ علانیہ شراب خوری کریں اور سور کا گو شت کھا ئیں اور مسلمان بھی ان کے ساتھ شریک ہوں ۔ ستم گار ہلاکو سوار ہو کر قصر خلافت تک آیا اور حرم کی بے آبر وئی کی۔ وہ محل ایک عیسا ئی کو دیا گیامسجد وں میں شراب بہادی گئی اور مسلمانوں کو علانیہ اذان دینے سے منع کیا گیا۔ (۱ ) لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم ۔
یہ سب کچھ صرف بغداد میں ہوا۔ بغداد کے علاوہ اور جگہ بھی تاتاریوں نے بہت کچھ کیا۔ اسی واسطے کہاگیا ہے کہ تاتاریوں کے فتنہ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی فتنہ وقوع میں نہیں آیا ہے۔ خلیفہ معتصم باللّٰہ کے ساتھ خاندان عباسیہ کا خاتمہ ہو گیابلکہ یوں سمجھو کہ عرب کی سلطنت روئے زمین سے اٹھ گئی جو قرب قیامت کے آثار میں سے ہے۔
شیخ سعد ی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الہَادِی ( متوفی ۶۹۱ھ) نے جوحادثۂ بغداد کے وقت زندہ تھے معتصم باللّٰہ کا ایک نہایت درد ناک مر ثیہ لکھا ہے جس میں سے چند اشعا ر ذیل میں درج کیے جاتے ہیں ۔
{1}
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمین بر زوالِ ملک معتصم امیرالمومنین
آسمان پر واجب ہے کہ امیر المومنین معتصم کی سلطنت کی تباہی پر زمین پر خون بر سائے۔
{2}
اے محمد گر قیامت را برآری سر ز خاک سر برآرد ایں قیامت درمیانِ خلق بیں
اے محمد ! (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) اگرآپ قیامت کو تربت شریف سے نکلیں گے تو ابھی نکل کرخلقت میں یہ

قیامت دیکھ لیجئے۔
{3}
نازنینانِ حرم را خونِ حلق نازنین زاستاں بگذشت مارا خونِ دل از آستیں
محل کے نازپروردوں کا خون ڈیوڑ ھی سے بہ گیا اور ہمارے دل کا خون آستین سے ٹپک نکلا۔
{4}
زینہار از دورِ گیتی و انقلاب روزگار در خیالِ کس نہ گشتی کانچناں گردد چنیں
زمانے کی گر دش اور دنیا کے انقلاب سے پنا ہ مانگنی چاہیے۔یہ بات کسی کے خیال میں نہ آتی تھی کہ یوں سے یوں ہو جائے گا۔
{5}
دید ہ بردار اے کہ دیدی شوکتِ بیت الحرام قیصرانِ روم سر بر خاک و خاقاں بر زمیں
اے مخاطب! تو نے بیت الحرام کی سی شان وشوکت دیکھی ہے۔جہاں روم کے قیصر خاک پر سرر گڑتے تھے اور چین کے خاقان زمین پر بیٹھتے تھے۔
{6}
خونِ فرزندانِ عمّ مصطفیٰ شد ریختہ ہم بر آں خا کے کہ سلطانا ں نہاد ند ے جبیں
ذر اآنکھ اٹھا کر دیکھ کہ حضرت مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بنی عم ( ) کا خون اس خاک پر بہایا گیا ہے جہاں بڑے بڑے بادشاہ ماتھا ر گڑتے تھے۔
{7}
دجلہ خوں ناب است زیں پس گر نہد سر در نشیب خاکِ نخلستانِ بطحا را کند باخوں عجیں
دریائے دجلہ کا پانی خون ہو گیا ہے۔اگر پستی کی طرف بہے گا تو نخلستانِ بطحا کی خاک کو خون سے رنگیں کر
دے گا۔

________________________________

2 – سیرتِ رسولِ عربی کے نسخوں میں اس حدیث کے راوی کانام حضرت ’’ابو بکر صدیق ‘‘لکھا ہے یقینایہ کتابت کی غلطی ہے کیونکہ ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ (جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے )’’ابوداود‘‘اوردیگر کتب میں یہ حدیث حضرت ’’ابو بکرہ ‘‘ سے مروی ہے لہٰذاہم نے یہاں حضرت ’’ابو بکر صدیق ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ )کے بجائے حضرت ’’ابو بکرہ ‘‘ (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ )لکھا ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔ علمیہ
3 – یعنی اہل و عیال اور مال و اسباب کو بیلوں پر لادکر جنگل کو چلے جائیں گے۔۱۲منہ

________________________________
1 – ابو داؤد کی ولادت ۲۰۲ھ میں اور وفات ۲۷۵ھ میں ہوئی۔۱۲منہ
2 – مشکوٰۃ، کتاب الفتن،باب الملاحم، فصل ثانی۔۱۲منہ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفتن،باب الملاحم،الحدیث:۵۴۳۲، ج۲،ص۲۸۹۔علمیہ)
3 – اشعۃ اللمعات ترجمہ مشکوٰۃ، کتاب الفتن، باب الملاحم۔
4 – اشعۃ اللمعات،کتاب الفتن،باب الملاحم،ج۴، ص۳۲۸۔علمیہ
5 – مفصل حالات کے لئے دیکھو طبقات الشافعیۃ الکبریٰ للتاج السبکی المتوفی ۷۷۱ھ، جزء خامس، ص۱۱۰تا ۱۱۶۔۱۲ منہ
6 – کرخ بفتح اول وثانی و خائے معجمہ دہے است قریب بغداد وقیل محلّہ ازبغدا د۔ غیاث اللغات۔۱۲منہ
7 – مزاحمت کی ہے۔

________________________________
1 – غیاث اللغات،باب کاف عربی، فصل کاف مع راء مھملۃ،ص۵۶۲۔علمیہ
2 – لڑائی ہوئی۔
3 – قتل۔
4 – مصاحبین و وزرائ۔
5 – مصاحبین و معززین۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!