اسلام

درجۂ والدین از: محمداسماعیل ،تاجرہانگل شریف

درجۂ والدین      

از: محمداسماعیل ،تاجرہانگل شریف

اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’میرے احسانات کابھی شکراداکرواوراپنے والدین بھی‘‘ یہ ایک فرمان الٰہی والدین  کے احسانات کی عظمت واہمیت کاکافی ثبوت دے رہاہے کیونکہ اللہ جل شانہ‘ نے والدین کے احسانات اوران کا شکریہ اداکرنے کا ذکر اپنے ساتھ کیاہے۔یہ بالکل سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعداگر کسی احسانات قابل تشکرہیں تووہ والدین ہی کےہیں۔کیونکہ جب تک والدین زندہ رہتے ہیں تب تک مال کے ساتھ ساتھ جان دے کربھی اپنے اولاد کی حفاظت فرماتاہے۔ یہ تاریخی قصہ بہت مشہورہے کہ ہمایوں بیمارپڑگیا ،اطباجواب دے چکے،مایوسی حیرانی پریشانی چھاگئی۔شاہی درباری یقین کرچکے تھے کہ ہمایوں کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔پھراگرامیدتھی توصرف بابر میں تھی کہ ضرورہمایوں اس مہلک مرض موت سے نجات پاسکتاہے۔امید،ہمت واستقلال کے ساتھ ایک نسخہ خودشہنشاہ بابرتجویزکرتاہے۔ہمایوں کے پلنگ کے اطراف تین مرتبہ چکرلگاکربارگاہِ الٰہی میں دست بدعاہوتاہےکہ’’الٰہی ہمایوں کی بیماری مجھے دے اورہمایوں کوتندرست بنادے‘‘ ہمایوں تندرست ہوگیااوربابرہمایوں کی جگہ مرگیا۔ہرسمجھدارآدمی غورکرسکتاہے کہ کس درجہ کے احسانات والدین نے ہمارے اوپرکئے ہیں۔جن کی موزوں تعریف اللہ اوررسولﷺہی سے ہوسکتی ہے۔
اللہ جل شانہ‘ دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے’’ماں چونکہ جھٹکے پرجھٹکے اورتکلیف پرتکلیف اٹھاکر پیٹ میں رکھتی ہےاوروہ دوبرس تک اپنادودھ پلاتی ہے۔اس لئے انسان کو ہم نے حکم دیا ہے کہ تم میراشکریہ ادا کرواورساتھ ہی اپنے والدین کابھی شکریہ اداکرو‘‘۔ماں کے پیٹ سے بچہ کے باہرآنے کے بعد جتنی حفاظت اوردیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی ضرورت بچہ پیٹ میں رکھ کر بھی کرناپڑتاہے سب کچھ کھانے کے پینے کے چیزیں رہنے کے باوجود ماں کوپرہیزکرناپڑتاہے ۔یہ صرف بچہ کی بھلائی کے واسطے ہوتاہے۔ماں بچہ کے واسطے رات آنکھوں میں کاٹتی ہے۔نیندایک ایسی نعمت ہے جس کے نہ ہونے سے زندگی خطرہ میں پڑجاتی ہے،۔یوں سمجھئے انسان کوجتنے چیزیں اللہ نے عطا کیاہے ان میں سب سے بہترعطیہ نیندہے۔ بچہ بیمارپڑتاہے تودوائی ماں کھاتی ہے۔بچہ کے واسطے پرہیزماں کرتی ہے۔غریب والدین اپنےپیٹ کومارمارکربچوں کوکھلایاپلایا کرتے ہیں  بچہ جب والدین کے ساتھ کھانے بیٹھ جاتاہے توبچہ اکثروالدین کو مزیدار کھانوں سے محرو، رکھ کر خودہی ہضم کرنے کی کوشش کرتے رہتاہے۔ تب بھی والدین بہت خوش ہیں اوردست بدعاہیں کہ ان کا بچہ پھولے پھلے ۔جب بچہ دوسروں سے لڑائی جھگڑا کرآتاہے توجرمانہ دینے والے والدین ہی ہوتے ہیں وہ بیچارے بچے کے واسطے گالیاں بھی کھاتے ہیں تکلیف اٹھاتے ہیں ۔ماں باپ چاہتے ہیں کہ بچہ بہترسے بہتر زندگی کاٹے۔ اس لئے وہ ہر ممکن کوشش کرکے بچہ کوتربیت دیتے ہیں۔عمدہ کھانا کھلاتے ہیں۔بہترین لباس تیارکراتے ہیں ۔تعلیم دلاتے  ہیں۔خودبھی ان کے لئے معلم بن کروہ سکھاتے ہیں۔جن کاسیکھنا ضروری ہو۔اکثرایسے موقعوں پرقرضدارہوجاتے ہیں۔تکالیف اٹھاتے ہیں۔پریشانی وپشیمانی اٹھاتے ہیں۔پھربھی والدین کویہی خیال ہوتاہے کہ خودہزارتکلیف کیوں نہ اٹھائیں۔برباد کیوں نہ ہوجائیں ۔اولاد کوخوش رکھنااپنانصب العین سمجھتے ہیں۔
دوسری جگہ ا للہ تعا لی ولد ین کی شا ن مبا ر ک میں ارشا د فرماتا ہے ۔’’ ہم نے انسان کو ما ں با پ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے ۔ کیونکہ ماں کس مصیبت و مشکل سے اسے پیٹ میں رکھتی ہےاور کس مشکل و تکلیف سے اُسے جنتی ہے۔ڈھا ئی سال تک اپنا دودھ پلاتی ہے پھر جب اُس میں پوری قوت آ جاتی ہے اور بڑھتے بڑھتے چالیس برس کا ہو جاتا ہے تو وہ اللہ سے کہتا ہے۔خداوند مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسانات مجھ پر اور میرے والدین پر کئے ہیں میںان کا شکر یہ ادا کرتا ہوں۔اور ایسے نیک عمل کروںکہ تو راضی ہو۔میری اولاد کو بھی نیک بخت بنا۔میں تیری ہی طرف اس معاملہ کو رجوع کرتا ہوںاورمیںتیرےفرمانبربندوں میں بھی ماں کی قربانیاںظاہر کر کے، بار بار اللہ تعالے تاکید فرماتا ہے کہ اللہ کے شکریہ کے بعد والدین کا شکر بھی ضرور کرو۔ اور والدین کے حق میں ہر وقت نیکی کرتے رہو۔ والدین 
کے حق میں ہر وقت دعا کرتے رہو۔ ‘‘

پھر ایک جگہ بڑے سے زور سے حکم ہوتا ہے۔‘‘پروردگارکاقطعی حکم ہے کہ اس کے سواے کسی اور کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کے ساتھ پیش آؤ اگر ان دونوں یا اِن میں سے کو ئی تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاےتو دیکھو کبھی اُن کے سامنے اُف بھی نہ کرنا اور نہ کبھی انہیں جھڑکنا،اور جب ان سے بات کرو تو ادب کے ساتھ کرنا،اورجب ان کے سامنے جانا تو محبت سے لبریزاور عجزوخاکسارہی کا پیکر بنکر جانا۔ اور دعا کرتے رہنا کہ خداوند اجس طرح کہ انہوں نے مجھے محبت سے پرورش کرکے پالا اور بڑا کیا اور مجھ پر کرم کرتے رہے اسی طرح تو بھی ر رحم و کرم اُن پر کر ‘‘۔اس سے زیادہ ادب و احترام سمجھ آسکتا ،صرف شکریہ ادا کرتے رہنا اور صرف حسن سلوک سے کام نہیں چلےگا ۔اللہ کا فرمان ہے کہ والدین کے سامنے ادب سے بات کی جائے اُن کےحکم کی تعمیل کی جائے۔ ان کو جھڑکنا یا رد حکم تو کیا ان کے سامنے اُف تک نہ کرناچاہیے ۔ان کے ساتھ محبت سے رہنا ان کو ہر وقت خوش کرنا ان کے حق میں دعا کرتے رہنا عین نیکی ہے جس کو خدا اور رسول ﷺبہت پسند کرتے ہیں ۔قرآن مجید میں دو چار جگہ نہیں بلکہ بہت سارے جگہ کھلے طور پروالدین کی شان بیان کی گئی ہے ۔اللہ تعالے خوب سمجھتا تھا ۔کہ بچپن میں تو سب ہی ماں باپ کا کہا مانتے ہیں ۔کیونکہ اس وقت وہ ماننے پر مجبور رہتے ہیں ۔ سر کشی تو اس وقت ممکن  ہےجبکہ آدمی با اختیار ہو ۔ اس لئے اللہ تعالے اپنے جوان بندہ کو اس کےبوڑھے والدین کی خدمت کی سخت تاکید فرماتا ہے ، اور در اصل والدین کی خدمت اولاد اسی وقت کرسکتےہیں جبکہ وہ جوان ہو جا ئیں کیونکہ صاحب ِعقل صاحبِ مال واختیار ہوتے ہیں ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد مبارک ہے ۔’’اگر والدین تمہارے مال واسباب پربھی قابو پالیںاوراس سے محروم کردیںتو بھی اُف نہ کرو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مبارک ارشاد ہے بالکل حق ہے ۔کیونکہ جب اولاد انکی ہے تو واقعی اولاد کی تمام چیزیں بھی انہی کی ہوئیں ۔ اولاد کو ہر ممکن کوشش کرکے بہتر حالت کوپہنچانایہ والدین ہی کا کام ہے ۔ گویا اولاد کی کمائی والدین کی کوشش کا پھل ہے ۔اور وہ پھل کے حقدار والدین ہی ہیں ۔ غور کیجئےعقل اور انسانیت قبول کرتی ہے کہ اولاد کسی حالت میں بھی والدین کو اپنی کمائی سے محروم نہیںکرسکتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں  ’’اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو ،اس کی ناک خاک آلود ہو جواپنے ماں باپ یا ان میں سے ایک کے بڑھاپے کا زمانہ پائے اورپھر بھی بہشت میںنہ جائے‘‘۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدمت ِ والدین جنّت کی کنجی ہے ۔ حضرت بایزید بسطا می ؄کی والدہ نےپانی مانگا ۔ رات کاوقت تھا یہ پانی لینے گئے، ماں کی آنکھ لگ گئی۔ ادب سے جگانا گوارا نہ کیا ۔ رات بھر اسی طرح پانی لئے کھڑرہے ۔ صبح ماں بہت خوش ہوئیں دعادی ۔ حضرت با یزید بسطامی؄ فرماتے تھے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے اپنی بوڑھی ماں کی خدمت واطا عت سے ملا ہے۔حضرت امام ا عظم ؄کی بزرگ والدہ صاحبہ بہت شکی مزاج تھیں اور نسوائی طریقوں کے مطابق عام واعظوں اور معمولی داستان گو  لوگوںسے عقیدہ رکھتی تھیں ۔چنانچہ کوفہ کے مشہور واعظ عمرو بن زر سے عقیدہ رکھتی تھیںکو ئی مسئلہ پیش آتا تو کہتیں عمرو بن ذر سے پوچھ آؤ خود بتاتے تو فرماتیں تو کیا جانے ؟چنانچہ تعمیل ارشاد فرماتے ۔عمروبن زر معذرت فرماتے کہ آپ کے سامنے میں کیا زبان کھول سکتا ہوں؟ نہیں میری ماں کا حُکم ہے ۔اکثر وہ (عمروبن ذر ) امام اعظم ؄سے ہی پوچھ کر بتاتے ۔سیری نہ ہوتی تو کہتیں میں خود جاکر پوچھونگی ۔ چنانچہ اُ نہیں خچّر پر سوار کراکے لے جاتے اور خود ادب سے پیدل چلتے ۔

الحمداللہ !ماں ہزار بُری ہو پھر بھی ماں ہے ہزار اچھوں سے بھی ایک بری 
وہ عظمت و شان رکھنے والے امام الدین حضرت ابوحنیفہ ؄ جن کی گردن خلیفہ منصور کے سامنے جھک نہ سکی ۔ جلاد ابن ہبیرہ گورنر عراق کے سامنےجھک نہ سکی، وہ گردن اپنی لاچار بو ڑھی ماں کے سامنے ایک دم جھک گئی ۔اسی کا نام اطاعت ہے اسی کا نام فرمانبرداری ہے ۔یوں تو انسان کی ساخت میں شیرکاجزموجودہے۔اورچوں کہ شر ہمارے اندر نسبتاََ زیادا موجود ہے اسلئے ہم لوگ وحدہ‘ لاشریک کے نافرمان ہیں۔  رسول عربی ﷺکے نافرمان اور مہربانی والدین کی بھی نافرمانی کرتے ہیں۔
یااللہ !ہم لوگوں پہ رحم کھا،ہم کوتیرے فرمسانبرداربندے بنا،تیرے رسول آخرالزماں حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے فرمانبردارامتی بنا،اورہمارے مہربان والدین کی فرمانبرداراولاد بنا، آمین 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!