اسلاممقاصد الاسلام

وجود محسوس نہیں :

 

وجود محسوس نہیں :

البتہ اس عین ثابت کا ظہور عالم محسوسات میں ہو جا تا ہے اور لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ مثلاً لام عالم محسوسات میں پیدا ہوا گیا ، حالانکہ وہ وہیں ہے جہاں اس کا ثبوت تھا ، مگر ہوا یہ کہ آواز نے ان حروف کو عالم محسوسات میںظاہر کردیا ۔یہاں لطف خاص ہے کہ آواز اور حروف سنے جا تے ہیں اور اصل ہوا کوکوئی سنتا ہی نہیں بلکہ وہ غیر محسوس ہے حالانکہ آواز کا مدار اسی پر ہے ! کیونکہ آواز ہواے مکیفہ کا نام ہے ۔ یہی حال عالم کا ہے کہ کیفیات وجود محسوسی ہیں مگروجود محسوس نہیں ۔ ہوا کا استعمال کہ کس موقعہ پر کتنی نکالی جائے جس سے صرف خود آپ ہی یا نزدیک والا یادور والاسن سکے ایک عجیب کام ہے اس کا طریقہ کوئی حکیم بتا نہیں سکتا بلکہ الہامی ذریعہ سے خود بخود حاصل ہوجاتا ہے۔ پھر زبان کا اعجوبہ کا ریاں بھی قابل دید ہیں کہ اس سرعت کے ساتھ وہ حرف بنا تی ہے کہ اس کو دیکھ کر آدمی حیران ہوجاتاہے ،تیس چالیس مقامات پر فوراً گزر کر کے بات کا بنانا اسی کا کام ہے ۔ اگر چہ وہ ایک مضغہء گوشت ہے مگر نفس ناطقہ کی تحریک سے بہت آسانی سے اپنا کام انجام دیتی ہے ۔ اور نفس ناطقہ کی کاگزاری بھی اس وقت قابل دید ہے کہ ایک ایک حرف پر زبان کے

عضلات واوتار وغیرہ کو کبھی کھینچ کر اورکبھی چھوڑ کر اور کبھی زبان کوپھیلا کر اور کبھی دراز کرکے اس سرعت سے کام لیتا ہے کہ عقل حیران ہوجا تی ہے ۔پھر یہ بھی نہیں کہ صرف زبان ہی کی طرف اس کی توجہ ہوبلکہ اُدھر یہ کارخانہ جاری ہے اور اِدھر مضامین سوچتا رہتا ہے کہ کس مضمون پر کس عبارت کا لباس پہنا یا جائے ۔ یا یوں کہئے کہ اُدھر کلام کے اعضاء بنا تا جا تا ہے اور اِدھر اس میں
جان پھونکتا جا تاہے ،کیونکہ الفاظ میں معنیٰ بمنز لہ جان کے ہیں ۔بہر حال یہ دونوں کا ایک ہی وقت میںنفس ناطقہ کرتا ہے ،اور اس کے ساتھ حلق سے ہوا کو بھی نکالتاہے تاکہ جو حروف منہ میں بن رہے ہیں اس میں پسٹ کر منہ سے باہر آجائیں اور جو مقصود ہے پورا کریں ۔ یہاں بھی ایک عجیب تماشا ہے کہ ہوا حلق کے باریک سوراخ سے نکلتی ہے اس کے ساتھ کلام منہ کے باہر نکلتا ہے اور نکلتے ہی اتنی ہوا پر اپنا تسلط کرلیتا ہے جو ایک وسیع میدان میں بھری ہوتی ہے ،اگر دس ہزار آدمی بھی اس میدان میں ہوں تو بھی بحسب قوت آواز وہ کلام کا نوں میں چلاجا تا ہے ، ہر چند وہ ہوا جس میں کلام رہتا ہے سب کے جسم سے لگتی ہوئی ہے مگر جسم کے کسی حصہ کو خبر نہیں ہوتی کہ اس ہوا میں کلام ہے ،اگر خبر ہوتی ہے تو صرف کان کے آخری حصہ کو حالانکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو جسم کے کسی حصہ میں نہ ہو ،اگر عصب سے سماعت کا کام متعلق ہے تووہ بھی تمام جسم میں مفرد ش ہے ۔ مگر بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے تمام اعصاب میںسے اس عصب سے جوکان میں مفردش ہے سماعت کو متعلق فرما دیا ہے جس سے کلام کی پوری حالتوں پر اس کو اطلاع ہو جا تی ہے ، او ردوسرے کل اعضاء اس سے بے خبر ہیں کیونکہ ان کواس عالم سے تعلق ہی نہیں ۔
ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتاہے کہ یہ ایک عالَم ہی مستقل ہے ‘ ابتداء اً بات دل میں پیدا ہوتی ہے پھر منہ میں آکر ایک نئی شکل قبول کرتی ہے پھر ہوا کے ذریعہ سے باہر نکلتی ہے اور ایک حد معین تک سننے والوں کے کانوں میں پہنو نچتی ہے اور وہاں سے ان کے دل میں اتر تی ہے ۔ ابتداء سے انتہا ء تک اندرونی تعلقات اور منا سبتیں باہمی کچھ ایسی ہیں کہ کہ ان کے ادراک سے عقل قاصر ہے ۔ کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عصب یعنی پٹھا سنتا ہے یا سننے کا ذریعہ بن سکتا ہے !!بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ ان کوکان بھی ہیں اور کان پٹھے بھی ہیں مگر سماعت منقود ،اور زبان بھی ہے اور حرکت بھی کرتی ہے مگر بات کے بنا نے کی صلاحیت ندا رد ۔
عقلاء نے بات کومقیدکرنے کے کا آلہ تو بنا لیا ہے مگر اب تک کوئی ایسا آلہ تیار نہ ہو سکا کہ اپنے دل کی بات اس کے ذریعہ سے بیان کریں ، حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ حلق سے ہوا نکلتی ہے اور چند کھٹکوں سے حروف تیار ہوتے ہیںاور ہوا کے ذریعہ سے وہ کان تک پہنچتے ہیں ،ہوا موجود ہے اور ربڑ کی زبان بھی بنا سکتے ہیں اور ہوا کو تموج دینے کی تدا بیر بھی معلوم ہیں مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ منہ کی شکل بنا کر اس سے بات کرلیں،اگر ایسا آلہ نکالا جائے تو گونگوں کو بہت بڑا فائدہ ہو ،ایسے کام لینے کی تدا بیر امریکہ وغیرہ میں اقسام کی کی جا ر ہی ہیں مگر اتنا سہل کام اب تک نہ ہوسکا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرف وصوت وسماعت کاعالم ہی جداہے جس کے اسرار پر اب تک کسی کو اطلاع نہیں ۔
اس عالم میں آواز بھی ایک چیز ہے جو حلق سے نکالی جا تی ہے اس کیفیت یہ ہے کہ جب چاہتے ہیں سوائے شخص قریب کے کوئی نہ سنے تو اس سکو پست کر سکتے ہیں،اور اوروں کو بھی سنا نا منظور ہو تاہے تو بلند کر تے ہیں ۔پھر اس میں بھی مدراج ہیں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کو سنا سکتے ہیں ۔ اب آواز کو پست و بلند کر نے والوں سے پوچھا جائے کہ کس تدبیر سے آواز پست و بلند کی جاتی ہے ؟تو کوئی بتا نہ سکے گا ۔ حکما ء یہ کہہ تو دیں گے کہ عضلات وغیرہ کو خاص خاص قسم کی حرکت دی جاتی ہے ،مگر حرکت دینے کی تدبیر کوئی بتا نہ سکے گا ۔ حالانکہ جاہل جس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ حلق میں کوئی عضلہ بھی ہوتا ہے وہ بھی اپنی آواز کو پست و بلند کرتا ہے ۔ اب کہئے کہ اس کویہ تدبیر جو عمل میںلاتا ہے کس نے بتائی ؟ ! نفس نا طقہ تو کیا ، اس کے فرشتے کو بھی معلوم نہیں کہ کس تدبیر سے عضلات و اعصاب کو حرکت دیتے ہیں ، بلکہ یہ بھی خبر نہیں کہ عضلات کا وہاں وجود بھی ہے یا یو ں ہی کہا جا تا ہے ۔
اگر کہا جائے کہ طبیعت یہ کام کر تی ہے تو ہم کہیں گے کہ طبیعت نفس ناطقہ کے ما تحت کام کرتی ہے ،جب نفس ناطقہ ہی کو معلوم نہیں تو بے شعور طبیعت کو کیونکر معلوم ہوا !! عقلاء کا دستور ہے کہ جس سر رشتہ کے انتظام کے لئے عملہ مقرکر تے ہیں تو پہلے ایسے افسر اعلیٰ کو تلاش کر تے ہیں کہ اس سر رشتہ

کے تمام کاموں کا ماہر ہو اور اس کے ما تحت افسران اس کم درجہ کے ہو تے ہیں ۔ جب حق تعالیٰ نے نفس نا طقہ کو اس سر رشتہ ، کا لبدِ انسانی کا فسر اعلیٰ مقرر فرمایا تو اس کا علم اس کے ما تحتوں کے علم سے زیادہ ہونا چاہئے ! حلانکہ ہم جانتے ہیں کہ نفس نا طقہ کو اس کا علم ہی نہیں ،کیونکہ ہماری جس قدر ادراکات ہیں وہ سب ہمارے نفس ناطقہ ہی کے ادراکات ہیں ،اگر ہمارا نفس ناطقہ جانتا ہے توہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں ، جب اس تدبیر کو ہم نہیں جانتے ہیں تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ ہمار ا نفس ناطقہ بھی نہیں جانتا ،اور جب نفس ناطقہ ہی نہیں جاناتا تو طبیعت بھی نہیں جانتی ۔ کیونکہ خود حکماء کو اعتراف ہے کہ طبعیت بے شعورمحض ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ عالم کلام کے کارخانے کو خداے تعالیٰ نے صرف اپنے ہی تصرف میں رکھا ہے جب چاہتا ہے بات کر ا دیتا ہے ،مگر چونکہ عادت ہوگئی ہے کہ ہم جب ارادہ کر تے ہیں توبات کر لیتے ہیں ، اس وجہ سے خیال تک نہیں آتاکہ خداے تعالیٰ کو بھی اس کارخانہ میں دخل ہے یا نہیں ۔ یہ ہر شخص جانتا ہے کہ آدمی جب
کسی ایسے کام کا ارادہ کر تا ہے جن میں آلات کے استعمال کی ضرورت ہوپہلے ان آلات کے استعمال کا طریقہ سیکھتا ہے ،اور جب وہ معلوم نہ ہوگا ہر گز نہیں کر سکتا ۔ بخلاف اس کے بات کر نے کا ارداہ جب تک کرتاہے توبغیر اس کے آلات یعنی عضلات وغیرہ کے استعمال کے نے کاطریقہ معلوم ہو بات کرلیتاہے۔ اب کہئے کہ کیا صرف ارداہ بات کرنے کے لئے کا فی ہو سکتاہے ؟! میر ی رائے میں عقل کی روسے تو ہر گز کافی نہیںہو سکتا ۔ کیونکہ جب معلوم ہو گیا کہ نفسِ ناطقہ اور طبیعت طریقہ ،استعمالِ آلات کو جانتے ہی نہیں ،تویہ کہنا پڑے کہ ارداہ تو ہم کرتے ہیں مگر اس کا کام وجود کسی اور کے ارداہ سے ہوتاہے یعنی خالق عالم اس فعل کو وجود میں لاتاہے ۔
اسی پر ہمارے تمام افعال کو قیاس کرلیجئے ، اسی وجہ سے اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ خالق افعال اللہ تعالیٰ ہے ، اور کلام الٰہی سے بھی اس کی تصدیق ہو تی ہے جیسا کہ ارشاد ہے :واللہ خلقکم و ما تعملون ۔
الحاصل جو بات کہ دل میں پوشیدہ تھی جس کو کوئی نہیں جانتا تھا ، جب اس کو عالم شہود میں لانا منظور ہوا تو ہوا کے ساتھ وہ مخلوط کی گئی ،کیونکہ عالم محسوسات بہ نسبت عالم معنی کے کثیف ہے ۔ اب اس نے اپنے مقام سے اس قدر تنزل کیا کہ ہزار بار آدمی اس کو مشاہدہ کر نے لگے اور محسوسات میں داخل ہو گئی ۔ مگر اب بھی اس کا مشاہد ہ ایک مخصوص طور پر ہے کہ صرف کانووں کو خبر ہے ،آنکھ وغیرہ اعضاء کو کچھ خبر ہی نہیں کہ اس کا وجود بھی عالم میں ہے یا نہیں ،کیونکہ کلام کلی تجلی کانوں کے ساتھ مختص ہے ، اور کان بھی سب نہیں بلکہ وہی جن کو ان کااحساس دیا گیا ہے ۔
اب دیکھئے کہ کلام ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ،ظاہر سماعت پر اور باطن اوروں
پر ۔ مگر یہاں پر قیاس نہ کیا جائے کہ حق تعالیٰ کا ظہور و بطون بھی ایسا ہی ہے ! کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات ایسی نہیں کہ کوئی ان کے مشابہ ہو سکے ، حق تعالیٰ فرما تا ہے
لیس کمثلہ شیئکلام ‘باطن سے تھوڑی دیر کے لئے ظہور کرکے کانوں کی راہ سے پھر باطن میں چلا جاتاہے ، اور جس طرح ابتداء میں کلام نفسی تھا اب بھی سامع کا کلام نفسی بن جاتاہے ،اور حروف و صوت سب باہر رہ جا تے ہیں ! بلکہ فنا ہوجا تے ہیں ، جس سے ثابت ہو تا ہے کہ حروف و صوت کی تدبیر صرف اسی غرض سے کی گئی تھی کہ دل کی بات دل میں پہونچ جائے ۔
ہم نے اوپر جو کہا تھا کہ کلام نفسی حروف و صوت سے منزہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مثلاً جب کسی کو کہا جاتا ہے ’’پانی پلائو ‘‘ تو اس وقت صرف یہ ہوتا ہے کہ پانی کی صورت ذہن میں آتی ہے اور ’’پلائو ‘‘ کی ،اگر چہ یہ بات بظاہر سمجھ میں نہ آئے گی کہ ’’پلائو ‘‘امر کا صیغہ ہے اس کی کیا صورت ہو گی ؟ مگر جس وقت یہ کلام کیا جا تاہے اس وقت نفس ناطقہ میں یہ بات ضروری ہوتی ہے کہ پلانے کی طلب و خواہش سامع سے ہوتی ہے جس کو عبارت میں لایا جائے تو لفظ ’’پلائو ‘‘ یا ’’بنو شان ‘‘ یا ’’اسقنی ‘‘ وغیرہ بنا یا جائے گا ۔ جس طرح اشیا ئے خارجیہ کی صورتیں ذہن میں ہو تی ہیں ایسے ہی افعال وغیرہ کی صورتیں

بھی ہوتی ہیں ، دیکھئے’’پلائو ‘‘ اور ’’پلایا ‘‘ کے معنیٰ ہر شخص سمجھتا ہے کہ جداجداہیں اگراس میں ہر ایک معنی علحدہ نہ ہو ںتو ان کے لئے علحدہ علحدہ الفاظ کیوں قرار دیے جا تا ہیں ۔ بہر حال ان الفاظ کے معنیٰ کا تصور ہر شخص کو ضرور حاصل ہو تا ہے،اور جب ان کی کوئی صورت ہی نہ ہو تو تصور کیونکر ہو سکے ۔ غرض کہ پانی کی اور پلائو کی صورت پہلے دہن میں آتی ہے اس طور پر کہ جملہ انشائیہ بنتاہے ، اگر مخاطب اس خطاب کو سمجھ سکتا تو حرف و صوت سے کلام بنانے کی ضرورت نہ ہوتی اور مقصود پورا ہوجا تا ۔
اگر فرض کیا جائے کہ دو صاحب کشف قلوب کسی مقام میں ہوں تو ان کو کلام لفظی بنانے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی ، اندر ہی اندر دونوں کی باتیں اور مخاطبہ ہو تا جائے گا جیسا کہ اکسی بزرگ نے فرمایا :
دو کس را کہ باشد بہم جان و ہوش
حکایت کنانند و ایں ہا خموش
غرضکہ جو صورت کلام دل میں ہوتی ہے اس کو دوسرے کے ذہن میں منتقل کرنے کی غرض سے الفاظ بنائے جا تے ہیں ،گو وہ صورت کلام نفسی صورت الفاظ میں جلوہ گر ہو تی ہے و بسوا ریِ ہوا کانوں کے ذریعہ سے دوسروں کے ذہن میں جاتی ہے ۔
ُٓؑٓٓاگرکسی میں یہ قوت ہو کہ اپنے کلام نفسی کو دوسرے کا کلام بنا سکے تو اس کو حرف و صوت کی کوئی ضرورت نہیں، چناچہ کسی بزرگ کے حال میں لکھا ہے کہ وہ خود وعظ نہیں کہتے تھے مگر جب ان سے اصرار کیا گیا تو انہوں نے ایک جاہل کو منبر پر بٹھا دیا اور آپ اس کی طرف متوجہ ہو گئے اس نے ایسا فصیح و بلیغ پر اثر وعظ کہا کہ لوگ حیران ہوگئے،بعد وعظ جب اس سے پوچھا گیا تو وہ ان مضامین سے بالکل نہ آشنا تھا۔
انبیاء علیہ السلام پر جو وحی آتی تھی اس کا بھی یہی حال تھا کہ بدریعہ فرشتہ ان پر کلام نفسی الٰہی کا اِلقاء ہو تا تھا ، جس کا ظہور کلام لفظی کے صورت میں عمل میں آتا، یہی وجہ ہے کہ کلام اللہ شریف کو جنابت کی حالت میں پڑھنا جائز نہیں ۔ اور اس کے بعد
صورت مکتوبی میں اس کا تنزل ہوا ، اسی وجہ سے بغیر طہارت کے اس کو ہاتھ لگانا درست نہیں ۔ اسی طرح جس صورت میں اس کا تنزل ہو واجب التعظیم ہے ۔ اسی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ فو ٹو گراف کی تختیوں او رٹیپ ریکارڈ کے فیتے وغیرہ میں جو خطوط یا نشان ہوں جن سے قرآن کی آوا ز نکلتی ہے تو ان کو بھی بغیر طہارت کے ساتھ لگانا درست نہ ہوگا ۔کیونکہ ان ہی خطوط پر آلہ سے آواز نکلنے کا مدار ہے ، جس سے ظاہر ہے کہ ان خطوط میں وہ موجود ہے ۔
کلام اس میں تھا کہ عالمِ عبارت جلوہ گا ِ عالم معنیٰ ہے ، سو اس کا حال کسی قدر معلوم ہو گیا ۔ اب یہ معلوم کرنا چاہئے کہ عبارت میں ’’جار ‘‘ کی ضرورت کیو ںہوتی ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی اسم ، فعل یا شبہ فعل سے مربوط نہ ہو تو جا ر آکر اس کو مربوط اور متعلق کر دیتا ہے ۔ مثلاً صلیٰ زید فی الدار میں اگر ’’فی ‘‘ نہ لا یا جائے اور صلیٰ زید الدار کہیں تو بالکل غیر مربوط ہو تا ہے ، اس لئے ’’فی ‘‘ لا یا گیا تاکہ دار کو کھینچ کر ’’صلیٰ کی طرف لے جائے اور جو اس کو اس فعل سے بالکل اجنبیت ہے اور دور کرکے خاص طورپر اس سے متعلق کردے ۔ اس عبارت کو دکھئے صلیٰ زید یوم الجمعۃ وقت الظہر سنۃ فلان قائماً مع رفقائہ بخضو ع و خشوع فی الدار باوجود یکہ ’’دار ‘‘ ’’صلیٰ‘‘ سے کتنی دور ہے اور ممکن ہے کہ مزید قیود وعبارت بڑھا کر اس سے بھی زیادہ دور کریں ،مگر جا ر اس کو اس قدر نزدیک کر دیتا ہے کہ جتنے موانع او ر حواجب ہیں ان میں سے کوئی اس کے تعلق کو قطع نہیں کر سکتا ۔
اسی طرح مرشد کامل جو جارالی اللہ ہے یعنی خداے تعالیٰ کی طرف مرید کو کشاں کشاں لے جا تاہے اور مرید اُس طرف کھنچ جا تا ہے جس پر لفظ ’’مجرور‘‘ پور ے طور پر صادق آتا ہے اور مرید کو ایسی قربت حاصل ہو تی ہے کہ درمیانی اسباب و وسائط اس کی نظروں سے ساقط ہو جا تے ہیں ،اور با وجود بعد کے تعلق قلبی اس کا ایسا ہو تا ہے کہ معنی نزدیک ہو جا تا ہے ۔ضروری او ر پہلا کام مرشد کا یہ ہوتاہے کہ افعال الٰہیہ و صفات الٰہیہ سے اس کو متعلق اور مربوط کر دے تاکہ جملہ افعال و حرکات و سکنات عالم کو افعال الٰہی سمجھے ۔ارشاد ہے ان اللہ یمسک السموات والارض ان تزولاولئن زالتا ان امسکہما من احد من بعدہ ‘‘ خدا ے تعالیٰ ہی نے زمین او رآسمان کو گرنے سے روک رکھا ہے ،اور اگر وہ گر پڑیں تو خداکے سوا ان کو کون روک سکتا

ہے ‘‘ ۔یہ تو سکنات سے متعلق فعل الٰہی ہے ،اور حرکات کا تعلق اس سے ظاہر ہے کہ لا تتحرک ذرۃ الا باذن اللہ مقصود یہ ہے کہ مرید جملہ حرکات و سکنات کو خدا ے تعالیٰ کے افعال یا آثار افعال سمجھے ۔ جب یہ امر مرید کے نصب العین ہو او ر اس کا مشاہدہ ہوے لگے تو دل جمعی ہو جائے گی اور وہ پریشانی جو ہم لوگوں کو ہوتی ہے کہ فلاں شخص ہمارادشمن ہے مباد اکہیں ضرور نہ پہنچا دے ! جس سے بجنے کی تدابیر میں وقت ضائع ہو تا ہے او ر اس میں خداے تعالیٰ سے جو بے تعلقی ہو تی ہے اور اقسام کی مصیبتیں اور پریشان فکریں لاحق ہوتی ہیں وہ سب دور ہو جا ئیں گی اور با طمینان خاطر یا دالٰہی میں مشغول ہو گا ۔ اسی طرح دوستوں کو راضی کرنے اور ان کی آئو بھگت میں باقتصا ئے بشریت جووقت صرف ہوتا ہے او ر تعلق قلبی ان سے منافع حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے حق تعالیٰ سے بے تعلقی ہو جا تی ہے و ہ دفع ہو جا تی ہے ، اس وقت نافع وضار وہ حق تعالیٰ ہی کو سمجھنا ہے اگر خوف ہے تو اسی سے ہے اور امید ہے تو اسی سے ۔ اسی طرح جتنے کام دنیامیں ہو تے ہیں سب کا دارمدار اسی پر اور سب کا خالق اسی کو سمجھتا ہے ، جس سے ’’یک در گیر محکم گیر ‘‘ کا مضمون اس پر صادق آجاتاہے ، اسی کو ’’توحید افعالی ‘‘ کہتے ہیں ۔
غرضکہ پیر مرید کو کھینچ کر توحید کی طرف لے جاتاہے ،مگر اس کو اوائل میں بڑی بڑی سختیاں جھیلتی پڑتی ہیں ، کیونکہ لڑکپن سے مشاہدہ ہو رہا ہے کہ دوست نفع پہونچا تا ہے اور دشمن ضرر ،اور نافع وضار چیزیں ممتاز ہیں جن کا ہر وقت یکساں اثر ہوتا ہے ۔مثلاً زہر کو جو کئی کھائے اس کو ضرر ہو گا خواہ کچھ بھی اعتقا د رکھے ، اسی طرح پانی سے ضرر تشنگی رفع ہو تی ہے ۔طبیعت اس دوامی مشاہدہ کی عادی ہو گئی ہے کہ ہر اثر کو اس چیز کی طرف منسوب کرے جس کا بحسب تجربہ و مشاہدہ اثر ثابت ہوتاہے ۔
اب اس طبعی امر کو چھوڑکر ہر بات اللہ تعالیٰ کو موثر سمجھنا کوئی معمولی بات نہیں،یوں تو ہر عامی شخص بھی یہی کہہ دیتا ہے کہ خداہی سب کچھ کرتا ہے اور یہ خدا کے کام ہیں ،مگر کہنے کہنے میں فرق ہے، ایک کہنا وہ ہے کہ اس کا تعلق صرف زبان سے ہو تاہے جہاں دل لگی میں اور باتیں ہوتی ہیں ان میں ایسی باتیں بھی کہہ دی جا تی ہیں ،اور ایک کہنا یہ ہے کہ اس کے آثار نمایاں ہو تے ہیں اور یہ اس وقت ہو تا ہے کہ ہر فعل میں بے تکلف مشاہد ہ ٔ توحید افعالی رہے یہاں تک کہ اس پر آثار مرتب ہو نے لگیں ، اور یہ کوئی محال بات نہیں ، کیونکہ خداے تعالیٰ کسی کی محنت کورائیگاں نہیں فرماتا اور ارشاد ہے والذین جاھدو فینا لنھدینہم سبلنا یعنی ’’جولوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کر تے ہیں او ر مشقت اٹھاتے ہیں ان کو ہم اپنے راستے دکھا دیتے ہیں ۔ ہر چندآخر میں یہ بات پیدا ہو تی ہے ،مگر وہ طفیل پیر ہی کا ہے جو اس درجہ تک پہونچا دیتا ہے ۔الحاصل پیر ’’جار‘‘ہوا اور مرید ’’مجرور ‘‘ اور ان دونوں کا تعلق فعل الٰہی سے ہے ۔

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!