کرامت کی حقیقت
کرامت کی حقیقت
(۱)’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ بَعَثَ جَیْشًا وَأَمَرَّ عَلَیْہِمْ رَجُلًا یُدْعَی سَارِیَۃُ فَبَیْنَمَا عُمَرُ یَخْطُبُ فَجَعَلَ یَصِیْحُ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ فَقَدِمَ رَسُوْلٌ مِنَ الْجَیْشِ فَقَالَ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَقِیَنَا عَدُوُّنَا فَہَزَمُوْنَا فَإِذَا بِصَائِحٍ یَصِیْحُ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ فَأَسْنَدَنَا ظَہُوْرَنَا إِلَی الْجَبَلِ فَہَزَمَہُمُ اللَّہُ تَعَالَی‘‘۔ (1)
حضرت ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک لشکر (نہاوند(2)کی طرف) بھیجا اور اس لشکر پر ایک مرد کو سپہ سالار مقرر فرمایا جن کو ساریہ کہا جاتاتھا تو (ایک روز) جب کہ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ( مدینہ شریف میں) خطبہ پڑھ رہے تھے یکایک آپ بلند آواز فرمانے لگے اے ساریہ ! پہاڑکی پناہ لو۔ (چند روز کے بعد) لشکر سے ایک قاصد آیا تو اس نے عرض کیا اے امیر المؤمنین! ہمارے دشمن نے ہم پر حملہ کیا تو ہم کو شکست دی پھر اچانک ہم نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی کہ اے ساریہ ! پہاڑ کی پناہ لو۔ تو ہم نے پہاڑ کی طرف اپنی پشت کرلی ( اور دشمن سے لڑے ) پھر خدائے تعالیٰ نے دشمنوں کو شکست دی۔ (بیہقی، مشکوۃ ص ۵۴۶)
(۲)’’عَنِ ابْنِ الْمُنْکَدِرْ أَنَّ سَفِیْنَۃَ مَوْلَی رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْطَأَ الْجَیْشَ بِأَرْضِ الرُّوْمِ أَوْ أُسِرَ فَانْطَلَقَ ہَارِبًا یَلْتَمِسُ الْجَیْشَ فَإِذَا ہُوَ بِالْأَسَدِ فَقَالَ یَا أَبَا الْحَارِثِ أَنَا مَوْلَی رَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ
حضرت ابن منکدر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضرت سفینہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جو رسولِ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے غلام تھے (ایک مرتبہ) سرزمین روم میں اسلامی لشکر(تک پہنچنے )کا راستہ بھول گئے ۔ یا قید کر دیئے گئے تھے تو اسلامی لشکر کی تلاش میں نکل
وَسَلَّمَ کَانَ مِنْ أَمْرِی کَیْتَ وَکَیْتَ فَأَقْبَلَ الْأَسَدُ لَہُ بَصْبَصَۃٌ حَتَّی قَامَ إِلَی جَنْبِہِ کُلَّمَا سَمِعَ صَوْتًا أَہْوَی إِلَیْہِ ثُمَّ أَقْبَلَ یَمْشِی إِلَی جَنْبِہِ حَتَّی بَلَغَ الْجَیْشَ ثُمَّ رَجَعَ الْأَسَدُ‘‘۔ (1)
بھاگے ۔ اچانک ایک شیر سے ان کا سامنا ہوگیا تو آپ نے شیر سے فرمایا اے ابو حارث! میں سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا غلام ہوں میرے ساتھ ایسا ایسا واقعہ پیش آیا ہے تو شیر (کتّے کی طرح) دُم ہلاتا ہوا قریب آکر حضرت سفینہ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا ( اور ساتھ ساتھ چلتا رہا) جب شیر کسی چیز کی آواز سنتا تو اس کی طرف دوڑ پڑتا پھر واپس آکر ان کے پہلو میں چلنے لگتا یہاں تک کہ حضرت سفینہ اسلامی لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس ہوگیا۔ (مشکوۃ ص ۵۴۵)
(۳)’’ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أُسَیْدَ بْنَ حُضَیْرٍ وَعَبَّادَ بْنَ بِشْرٍ تَحَدَّثَا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حَاجَۃٍ لَہُمَا حَتَّی ذَہَبَ مِنَ اللَّیْلِ سَاعَۃٌ فِی لَیْلَۃٍ شَدِیدَۃِ الظُّلْمَۃِ ثُمَّ خَرَجَا مِنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْقَلِبَانِ وَبِیَدِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عُصَیَّۃٌ فَأَضَاءتْ عَصَا أَحَدِہِمَا لَہُمَا حَتَّی مَشَیَا فِی ضَوْئِ ہَا حَتَّی إِذَا افْتَرَقَتْ بِہِمَا الطَّرِیقُ أَضَائَ تْ لِلْآخَرِ عَصَاہُ فَمَشَی کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا فِی ضَوْءعَصَاہُ حَتَّی بَلَغَ أَہْلَہُ ‘‘۔ (2)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے اپنے کسی معاملہ میں ایک پہر رات گزرنے تک گفتگو کرتے رہے وہ رات بہت تاریک تھی۔ پھر وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس ہونے کے لیے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ سے نکلے اور دونوں حضر ات کے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی لاٹھیاں تھیں پھر ان میں سے ایک صاحب کی لاٹھی دونوں کے لیے روشن ہوگئی بعدہ وہ دونوں حضرات لاٹھیوں کی روشنی میں چلتے رہے یہاں تک کہ جب دونوں کا راستہ علیحدہ علیحدہ ہوا تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہوگئی پھر ہر ایک اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں اپنے گھر والوں تک پہنچ گیا۔ (بخاری، مشکوۃ ص ۵۴۴)
انتباہ :
(۱)… ولی سے جوبات خلافِ عادت ظاہر ہو اسے کرامت کہتے ہیں اور عام مؤمنین سے ایسی بات
صادر ہو تو اسے معونت کہتے ہیں ۔ اور بیباک فاسق و فاجر یا کافرسے جو اُن کے موافق ظاہر ہو تو اس کو استدراج کہتے ہیں اور ان کے خلاف ظاہر ہو تو اہانت کہتے ہیں۔ (1) (بہار شریعت، حصہ اول)
(۲)…کرامت حق ہے اس کا انکار کرنے والا گمراہ بدمذہب ہے ۔ شرح فقہ اکبر ص ۹۵ میں ہے : اَلْکَرَامَاتُ لِلأَوْلِیَائِ حَقٌّ أَيْ ثَابِتٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ ا ولیائے کرام سے کرامتوں کا صادر ہونا حق ہے ۔ یعنی قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ (2)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’ اہلِ حق اتفاق دارند برجواز وقوع کرامت از اولیاء ودلیل بر وقوع کرامت کتاب وسنت وتواتر اخبار ست از صحابہ ومن بعد ہم تواتر معنی‘‘ ۔ (3)
یعنی اہلِ حق اس بات پر متفق ہیں کہ اولیائے کرام سے کرامت کا ظہور ہوسکتا ہے ۔ اور اللہ والوں سے کرامتوں کا صادر ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ، اورصحابہ و تابعین کی مسلسل خبروں سے بھی واضح ہے ۔ (اشعۃ اللمعات، جلد چہارم ص ۵۹۵)
(۳)…ولی وہ مسلمان ہے جو بقدرِ طاقت بشری ذات و صفات باری تعالیٰ کا عارف ہو، احکام شرع کا پابند ہو اور لذات و شہوات میں انہماک نہ رکھتا ہو۔ جیسا کہ شرع عقائد نسفی میں ہے :’’ اَلْوَلِیُّ ھُوَالْعَارِفُ بِاللَّہِ تَعَالَی وَصِفَاتِہِ حَسْب مَا یُمْکِنُ الْمُوَاظب عَلَی الطَّاعَاتِ، الْمُجْتَنِبُ عَنِ الْمَعَاصِی، الْمُعْرِضُ عَنِ الْاِنْھِمَاکِ فِی اللَّذاتِ وَالشَّھَوَاتِ۔ ‘‘(4)
اور اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص :۵۹۵میںہے : ’’ولی کسے ست کہ عارف باشد بذات وصفات حق بر قدر طاقت بشری ومواظب باشد بر اتیاں طاعت وترک منہیات در لذات وشہوات وکامل باشد در تقویٰ واتباع بر حسب تفاوت ومراتب آن‘‘۔ (5)
(۴)…ولی وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا عقیدہ مذہب اہلِ سنت و جماعت کے مطابق ہو کوئی مرتد یا بدمذہب مثلاً دیوبندی ، وہابی ، قادیانی ، رافضی اور نیچری وغیرہ ہر گز ولی نہیں ہوسکتا۔
(۵)…اولیائے کرام وصالحین عظام کا فیض بعد وصال جار ی رہتا ہے ۔ تفسیر عزیزی پارہ عم ص ۵۰ میں ہے : ’’از اولیائے مدفونین ودیگر صلحائے مؤمنین انتفاع واستفادہ جاری ست و آنہارا افادہ و اعانت نیز متصور‘‘۔
اولیاء راہست قدرت ازالہ
تیر جستہ باز گرد انندز راہ
٭…٭…٭…٭