اسلام

جنتی اور جہنمی فرقہ

جنتی اور جہنمی فرقہ

(1)’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ لَیَأتِیَنَّ عَلَی أُمَّتِیْ کَمَا أَتَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَائیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّی إِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ أَتَی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِیْ أُمَّتِیْ مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَ سَبْعِیْنَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً کُلُّھُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَّاحِدَۃً قَالُوْا مَنْ ھِیَ یَارَسُوْلَ اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی‘‘(1) (ترمذی، مشکوۃ)
حضرتِ ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا سے روایت ہے کہ رسول ِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ میری امت پر ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا۔ بالکل ہو بہو ایک دوسرے کے مطابق ۔ یہاں تک کہ بنی اسر ائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں سے علانیہ بدفعلی کی ہوگی تو میری امت میں ضرور کوئی ہوگا جو ایسا کرے گا۔ اور بنی اسرائیل بہتّر مذہبوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر مذہبوں میں بٹ جائے گی۔ ان میں ایک مذہب والوں کے سوا باقی تمام مذاہب والے ناری اور
جہنمی ہوں گے ۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے عرض کیا یارسول اللہ ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) وہ ایک مذہب والے کون ہیں؟ ( یعنی ان کی پہچان کیا ہے ؟) حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا وہ لوگ اسی مذہب و ملت پر قائم رہیں گے جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔
(2)’’عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ خَطَّ لَنَا رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خَطاً ثُمَّ قَالَ ھَذَا سَبِیْلُ اللَّہِ ثُمَّ خَطَّ خُطُوْطاً
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ سرکار ِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں سمجھانے کے لیے ایک(سیدھی)لکیر کھینچی پھر

عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ وَقَالَ ھٰذِہِ سُبُلٌ عَلَی کُلِّ سَبِیْلٍ مِنْھَا شَیْطَان یَدْعُوْ إِلَیْہِ وَقَرَأَ
(وَأَنَّ ھَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہُ) الآیۃ۔ (1) (احمد، نسائی، دارمی، مشکوۃ)
فرمایایہ اللہ کا راستہ ہے پھر اسی سیدھے خط کے دائیں بائیں اور چند لکیریں کھینچ کر فرمایا کہ یہ بھی راستے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک راستہ پر شیطان بیٹھا ہوا ہے جو اپنی طرف بلاتا ہے ۔ پھر حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی۔ ’’وَأَنَّ ھَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوْہ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ‘‘ یعنی یہ میرا سیدھا ر استہ ہے تو اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس سیدھی راہ سے جدا کردیں گی۔

شرح حدیث :

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس حدیث شریف کے تحت علمِ کلام کی مشہور کتاب ’’مواقف‘‘ کا یہ قول کہ ’’ فرقۂ ناجیہ اہلِ سنت و جماعت اند‘‘ نقل کرکے فرماتے ہیں کہ:
’’اگر گویند چگونہ معلوم شود کہ فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت اند وایں راہِ راست ست وراہ خدا ست و دیگر ہمہ راہ ہائے نارست، و ہر فرقہ دعویٰ مے کندکہ براہ راست ست ومذہب و ے حق۔ جوابش آنست کہ ایں چیزے نیست کہ بمجرد دعوی تمام شود برہان باید۔ و برہان حقانیت اہلسنت و جماعت آنست کہ ایں دین اسلام بنقل آمدہ است و
یعنی نجات پانے والا فرقہ اہلسنت وجماعت کا ہے ۔ اگر اعتراض کریں کہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ ناجیہ اہلِ سنت و جماعت ہے اور یہی سیدھی راہ اور خدائے تعالیٰ تک پہنچانے والی راہ ہے اور دوسرے سارے راستے جہنم کے راستے ہیں اور ہر فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ راہِ راست پر ہے اور اس کا مذہب حق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایسی بات نہیں ہے جو صرف دعویٰ سے ثابت ہوجائے ( اس کے لیے ) ٹھوس دلیل چاہیے ۔ اور اہلِ سنت وجماعت کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ یہ دینِ اسلام (سرکارِ

مجرد عقل بآں وافی نیست۔ و بہ تواتر اخبار معلوم شدہ وتتبع وتفحص احادیث و آثار متیقن گشتہ کہ سلف صالح از صحابہ و تابعین باحسان ومن بعد ہم ہمہ بریں اعتقاد وبریں طریقہ بودہ اند وایں بدع وہوا در مذاہب واقوال بعد از صدر اول حادث شدہ واز صحابہ و سلف متقدمین ہیچ کس برآں نہ بودہ وایشاں مبتری بودہ اند وبعد از حدوث ایں رابطۂ صحبت و محبت کہ بآن قوم داشتند قطع کردہ ورد نمودہ ۔ و محدثین اصحاب کتب ستہ وغیرہا از کتب مشہورۂ معتمدہ کہ مبنی ومدار احکام اسلام برآنہا افتادہ و آئمہ فقہائے ارباب مذاہب ار بعہ وغیرہم از آنہا کہ درطبقۂ ایشاں بودہ اند ہمہ بریں مذہب بودہ اند واشاعرہ و ماترید یہ کہ آئمہ اصول کلام اند تائید مذہب سلف نمودہ و بدلائل عقلیہ آنرا اثبات کردہ و آنچہ سنتِ رسول صلّی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلّم و اجماع سلف برآں رفتہ
اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ) منقول ہو کر ( ہم لوگوں تک ) پہنچا ہے ۔ عقائد ِاسلام معلوم کرنے کے لیے صرف عقل کا ذریعہ کافی نہیں ہے ۔ اخبارِ متواترہ سے معلوم ہوا اور آثار صحابہ واحادیث کریمہ کی تلاش و تتبع سے یقین حاصل ہوا کہ سلف صالحین یعنی صحابہ و تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ان کے بعد کے تمام بزرگانِ دین اسی عقیدہ اور اسی طریقہ پر رہے ہیں۔ اقو ال و مذاہب میں بدعت و نفسانیت زمانہ اوّل کے بعد ( پیدا ) ہوئی ہے ۔ صحابۂ کر ام اور سلف متقدمین یعنی تابعین ، تبع تابعین ، مجتہدین میںکوئی اس مذہب پر نہیں تھا وہ لوگ اس نئے مذہب سے بیزار تھے بلکہ اس کے پیدا ہوجانے کے بعد محبت اور اٹھنے بیٹھنے کا جو لگائو اس قوم کے ساتھ تھا توڑ دیا اور ( زبان وقلم سے ) رد فرمایا ۔ صحاح ستہ اور ان کے علاوہ ( احادیث کریمہ کی) دوسری مشہور و معتمد کتابیں کہ جن پر احکامِ اسلام کا مدار و مبنی ہوا ان کے محدثین اور حنفی، شافعی ، مالکی اور حنبلی کے فقہاء و آئمہ اور ان کے علاوہ دو سرے علماء جو ان کے طبقہ میں تھے سب اسی مذہبِ اہلسنت و جماعت پر تھے ۔ اور اشاعرہ وماتریدیہ جو اصول ِکلام کے آئمہ ہیں انہوں نے سلف کے مذہب اہلسنت و جماعت کی تائید و حمایت فرمائی اور دلائل عقلیہ سے اس کا

بودہ موکد ساختہ اند ولہذا نام ایشاں اہلسنت و جماعت افتادہ۔ اگرچہ ایں نام حادث ست اما مذہب واعتقاد ایشان قدیم است وطریقہ ایشان اتباع احادیث نبوی صلّی اللہ تعالی علیہ واٰلہٖ وسلّم واقتدا بآثار سلف و مشائخ صوفیہ از متقدمین و محققین ایشاں کہ استادانِ طریقت وزہاد وعباد و مرتاض و متورع و متقی و متوجہ بجناب حق و متبری از حول وقوت نفس بودہ اند۔ ہمہ بریں مذہب بودہ اند چنا نکہ از کتب معتمدۂ ایشاں معلوم گردد ودر تعرّف کہ معتمد ترین کتابہائے ایں قوم ست وشیخ الشیوخ شہاب الدین سہروری درشانِ اوگفتہ است ’’لو لا التعرف ما عرفنا التصوف‘‘ عقائد صوفیہ کہ اجماع دارند برآں آوردہ کہ ہمہ عقائد اہلسنت و جماعت ست بے زیادت ونقصان۔ و مصداق ایں سخن کہ گفتیم آنست کہ کتابہائے حدیث و تفسیر وکلام و فقہ و تصوف و سیر
اثبات فرمایا۔ اور جن باتوں پر سنتِ رسول ِکریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم اور اجماع سلف صالحین جاری رہا ان کو ٹھوس قرار دیا ہے اسی لیے اشاعرہ اور ما ترید یہ کا نام اہلسنت و جماعت پڑا۔ اگرچہ یہ نام نیا ہے لیکن مذہب و اعتقاد ان کا پرانا ہے ۔ ان کا طریقہ احادیثِ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع اور سلف صالحین کے اقوال و اعمال کی اقتداء کرنا ہے اور گروہ صوفیہ کے مشائخ متقدمین اور (زمانہ موجود کے ) شیوخ محققین جو طریقت کے استاد، عابد و زاہد، ریاضت کرنے والے ، پرہیز گار ، خدا ترس، حق تعالیٰ کی جانب متوجہ ر ہنے والے اور نفس کی حکومت سے الگ رہنے والے سب اسی مذہب ِاہلسنت و جماعت پر تھے جیسا کہ ان مشائخ کی معتمد کتابوں سے واضح ہے ۔ اور صوفیائے کرام کی نہایت ہی قابلِ اعتماد کتاب’’ تعرف‘‘ ہے جس کے بارے میں سیدنا شیخ شہاب الدین سہروردی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے کہ اگر’’ تعرف‘‘ کتاب نہ ہوتی تو ہم لوگ مسائل تصوف سے ناواقف رہ جاتے ۔ اس کتاب میں صوفیاء کرام کے جو اجماعی عقائد بیان کیے گئے ہیں وہ سب کے سب بلا کم و کاست اہلسنت ہی کے عقائدہیں۔ ہمارے اس بیان کی سچائی یہ ہے کہ حدیث ، تفسیر، کلام ، فقہ، تصوف، سِیَر

وتوا ریخ معتبرہ کہ د ر د یا ر مشرق ومغرب مشہور ومذکور اند جمع کنند وتفحص نمایند ومخالفان نیز کتا بہا را بیارند تا ظاہر شود کہ حقیقت حال چیست وبا لجملۃ سواد اعظم د ر د ین اسلام مذ ہب اہلسنت وجما عت ست ۔ (1)
اور تواریخ معتبرہ کی کتابیں جو کہ مشرق و مغرب کے علاقہ میں مشہور و معروف ہیں جمع کی جائیں اور ان کی چھان بین کی جائے اور مخالفین بھی کتابوں کو لاویں تاکہ آشکارا ہوجائے کہ حقیقت ِحال کیا ہے خلاصہ یہ کہ دین ِ اسلام میں سواد ِاعظم مذہب ِاہل سنت و جماعت ہے ۔ (اشعۃ اللمعات ، باب الاعتصام ، ج ۱، ص۱۴۰)
(3)’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یَکُوْنُ فِیْ آخِرِالزَّمَانِ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ یَأْ تُوْنَکُمْ مِنَ الْأَحَادِیْث بِمَا لَمْ تَسْمَعُوْا أَنْتُمْ وَلَا آبَائُ کُمْ فَإِیَّاکُمْ وَإِیَّاھُمْ لَایُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ۔ (2) (مسلم، مشکوۃ)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ( ایک گروہ) فریب دینے والوں اور جھوٹ بولنے والوں کا ہوگا وہ تمہارے سامنے ایسی باتیں لائیں گے جن کو نہ تم نے کبھی سنا ہوگا نہ تمہارے باپ دادا نے ۔ تو ایسے لوگوں سے بچو اور انہیں اپنے قریب نہ آنے دو تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کریں اور نہ فتنہ میں ڈالیں۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اس حدیث کے ترجمہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’یعنی جماعہ باشند کہ خود را بہ مکر وتلبیس درصورت علماء و مشایخ و صلحا از اہل نصیحت و صلاح نمایند تادر وغہائے خود را ترویج دہند مردم را بہ مذہب یا ظلم و آرائے فاسدہ بخوانند۔ (3)
یعنی ایک ایسی جماعت پیدا ہوگی جو مکاری و فریب سے علماء مشائخ اور صلحا بن کر اپنے کو مسلمانوں کا خیر خواہ اور مُصلح ظاہر کرے گی تاکہ اپنی جھوٹی باتیں پھیلائے اور لوگوں کو اپنے باطل عقیدوں، فاسد خیالوں کی طرف راغب کرے ۔ (اشعۃ اللمعات ، جلد اول، ص ۱۳۳)

انتباہ :

(۱)…مخبر صادق حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جن دجّالوں اور کذّابوں کے آخری زمانہ میں پیدا ہونے کی خبر دی تھی زمانۂ موجودہ میں ان کے مختلف گروہ پائے جاتے ہیں جو مسلمانوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد نے کبھی نہیں سنا ہے ۔
ان میں کا ایک گروہ وہ ہے جو اپنے آپ کو اہلِ قرآن کہتا ہے ۔ وہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو صرف ایلچی سمجھتا ہے اور بس کھلم کھلا سب حدیثوں کا انکار کرتا ہے بلکہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا بھی منکر ہے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کو ہمارے باپ دادا نے کبھی نہیں سنا تھا بلکہ انہیںتو خدائے تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے :
{ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ } (پارہ ۵، رکوع ۵)
یعنی اے ایمان والو ! خدائے تعالیٰ کی اطاعت کرو اور (اسکے )رسول( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی اطاعت کرو۔
ان میں کا ایک گروہ مرزا غلام احمد قادیانی کا ہے ۔ یہ گروہ مرزا کو مہدی، مجدد، نبی اور رسول مانتا ہے ۔ حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد دوسرے نبی کا پیدا ہونا جائز ٹھہراتا ہے ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کو ہمارے آبا ء و اجداد نے کبھی نہیں سنا تھا۔ بلکہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے انہیں بتایا تھا کہ أَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی(1)۔ (مشکوۃ ص۴۶۵) یعنی میں آخر الانبیاء ہوں میرے بعد کوئی (نیا) نبی نہیں ہوگا۔ اور قرآنِ کریم نے انہیں بتایا تھا کہ:
{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-} ( پارہ ۲۲، رکوع ۲)
یعنی محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں اور لیکن خدائے تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔
یعنی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات پر نبیوں کی پیدائش کا سلسلہ ختم ہے ۔ آپ نے بابِ نبوت پر مہر لگادی اب آپ کے بعد کوئی نبی ہر گز نہیں پیدا ہوگا۔
اوران میں کا ایک گروہ وہ ہے جسے وہابی دیوبندی کہا جاتا ہے ۔ اس گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جیسا علم حضور صَلَّی

اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو حاصل ہے ایسا علم تو بچوں، پاگلوں اور جانوروں کو بھی حاصل ہے ۔ جیسا کہ دیوبندیوں کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب’’ حفظ الایمان ، ص ۸‘‘ پر حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے لیے کل علمِ غیب کا انکار کرتے ہوئے صرف بعض علم غیب کو ثابت کیا بھر بعض علم غیب کے بارے میں یوں لکھا کہ ’’ اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے ایسا علم تو زید و عمر و بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے ‘‘۔ (معاذ اللہ رب العالمین)
اس گروہ کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخر الانبیاء نہیں ہیں۔ آپ کے بعد دوسرا نبی ہوسکتا ہے ۔ جیسا کہ مولوی قاسم نانوتوی بانی دار العلوم دیوبند نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس، ص: ۳‘‘ پر لکھا ہے کہ ’’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ ‘‘ اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ خاتم النبیین کا یہ مطلب سمجھنا کہ آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ یہ ناسمجھ اور گنواروں کا خیال ہے ۔ پھر اسی کتاب کے صفحہ ۲۸ پر لکھا ہے کہ ’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ ‘‘ اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد دوسرا نبی پیدا ہوسکتا ہے ۔ (العیاذ باللہ تعالیٰ)
اس گروہ کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ شیطان و ملک الموت کے علم سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا علم کم ہے ۔ جو شخص شیطان و ملک الموت کے لیے وسیع علم مانے وہ مومن مسلمان ہے لیکن حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے علم کو وسیع اور زائد ماننے والا مشرک بے ایمان ہے ۔ جیسا کہ اس گروہ کے پیشؤا مولوی خلیل احمد انبیٹھی نے اپنی کتاب ’’براہین قاطعہ، ص: ۵۱‘‘ پر لکھا کہ’’ شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخرِ عالم کی وسعتِ علم کی کون سی نصِ قطعی ہے جس سے تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے ۔ ‘‘( معاذ اللہ رب العالمین)
اس گروہ کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ ’’خدائے تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے ۔ ‘‘(1) (رسالہ یکروزی ص۱۴۵ مصنف مولوی اسمعیل دہلوی)
ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ ’’رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مر کر مٹی میں مل گئے ۔ ‘‘(2) (تقویۃ الایمان ص۷۹)

مذکورہ بالا عقیدوں کے علاوہ اور بھی اس گروہ کے بہت سے کفری عقیدے ہیں اس لیے مکہ معظمہ، مدینہ طیبہ ، ہند، سندھ ، بنگال ، پنجاب ، برما ، مدراس ، گجرات ، کاٹھیاواڑ ، بلوچستان، سر حد اور دکن وکوکن کے سینکڑوں علمائے کرام و مفتیانِ عظام نے ان لوگوں کے کافر و مرتد ہونے کا فتویٰ دیا ہے ۔ تفصیل کے لیے فتاویٰ’’ حسام الحرمین‘‘ اور’’ الصوارم الھندیہ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
(۲)… مسلمان کو مسلمان اور کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین میں سے ہے ۔ اگرچہ کسی خاص شخص کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا یا معاذ اللہ تعالیٰ کفر پر۔ تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو۔ مگر اس سے یہ نہیں ہوسکتا کہ جس نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کفر میں شک کیا جائے کہ قطعی کافر کے کفر میں شک کرنا بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے ۔ (1 ) (بہار شریعت)
(۳)… بعض ناواقف کہتے ہیں کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہیں کرنا چاہیے خواہ وہ کیسا ہی عقیدہ رکھے اور کچھ بھی کرے ۔ یہ خیال غلط ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ جب اہلِ قبلہ میں کفر کی کوئی علامت و نشانی پائے جائے یا اس سے کوئی بات موجب ِکفر صادر ہو تو اسے کافر کہا جائے گا۔
حضرت مُلّا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں:
’’ أَنَّ المرادَ بِعَدَمِ تکفیْرِ أَحدٍ مِّنْ أھْلِ الْقِبْلَۃِ عند أھْلِ السنَّۃِ أَنَّہ لا یُکفَّر مَا لم یُوْجَدْ شیئٌ من أَمارَاتِ الْکفرِ وَعَلامَاتِہِ وَلَمْ یَصْدَرْ عَنْہُ شَیْئٌ مِن مُوجِبَاتِہِ‘‘(2)
یعنی اہلِ سنت کے نزدیک اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہنے سے مراد یہ ہے کہ اسے کافر نہ کہیں گے جب تک کہ اس میں کفر کی کوئی علامت و نشانی نہ پائی جائے اور کوئی بات موجبِ کفر اس سے صادر نہ ہو ۔ (شرح فقہ اکبر ص۱۸۹)
اور حضرت علامہ ابن عابد ین شامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
’’ لا خِلافَ فی کُفرِ الْمُخالِف فی ضَرورِیاتِ الْإِسلاَمِ وإِنْ کانَ منْ أَھلِ الْقبلَۃِ المُوَاظِبُ طُوْلَ عُمْرِہٖ عَلَی الطَّاعَاتِ کمَا فِی
یعنی ضروریات ِ اسلام میں سے کسی چیز کا انکار کرنے والا بالاجماع کافر ہے ۔ اگرچہ اہلِ قبلہ سے ہو اور عمر بھر طاعت میں بسر کرے ۔ جیسا کہ شرح تحریر

شرح التحریر‘‘(1)
امام ابن ہمام میں ہے ۔ (شامی جلد اول ص ۳۹۳)
اور حضرت امام ابویوسف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے کتاب الخراج میں فرمایا کہ :
’’أیّمَا رَجل سَبَّ رَسولَ اللَّہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ أََوْکَذبہ أَوْ عَابَہ أَوْ تنقصَہ فَقَدْ کَفَرَ بِاللَّہ تَعَالَی وَبَانَتْ مِنہ اِمْرَأتہ‘‘۔ (2)
یعنی جو شخص مسلمان ( اہلِ قبلہ) ہو کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو دشنام دے یا حضور کی طرف جھوٹ نسبت کرے یا حضور کو کسی طرح کا عیب لگائے
یا کسی وجہ سے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی شان گھٹائے وہ یقینا کافر، خدا کا منکر ہوگیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی۔ (شامی، جلد سوم ، ص۳۰۰)
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – المعجم الأوسط‘‘ للطبرانی، من اسمہ بکر، ج۲، ص۲۷۶.
’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الرقاق، الفصل الثانی، الحدیث: ۵۴۰۶، ج۲، ص۲۸۳.

________________________________
1 – ’’سنن الترمذی‘‘، کتاب الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ھذہ الأمۃ، ج۴، ص۲۹۱.
’’ مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الحدیث:۱۷۱، ج۱، ص۵۴.

________________________________
1 – ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، الحدیث: ۱۶۶، ج۱، ص۵۳. ’’ سنن الدارمی‘‘، باب فی کراھیۃ أخذ الرأی، الحدیث: ۲۰۲، ج۱، ص۷۸، ’’ المسند‘‘ للإمام أحمد‘‘، مسند عبد اللہ، الحدیث: ۴۱۴۲، ج۲، ص۱۳۲.

________________________________
1 – ’’اشعۃ اللمعات‘‘ ، کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج۱، ص۱۵۱۔ ۱۵۲.
2 – ’’صحیح مسلم ‘‘، باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء، الحدیث: ۷۔ (۷)، ص۹، ’’ مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول، الحدیث: ۱۵۴، ج۱، ص۵۱.
3 – اشعۃ اللمعات‘‘، کتاب الإیمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج۱، ص۱۴۳.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!