اسلام

برے نام لينے کی ممانعت

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
 وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقَابِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوۡقُ بَعْدَ الْاِیۡمَانِ ۚ وَمَنۡ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾
ترجمہ کنزالایمان:     اور ايک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو(۱) کيا  ہی بُرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا(۲) اور جو توبہ نہ کريں تو وہی ظالم ہيں۔(۳)(پ۲۶، الحجرٰت:۱۱)
تفسير:
    (۱) اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ايک تو يہ کہ مسلمان کو گدھا، کتا، سور وغيرہ نہ کہو۔ دوسرا يہ کہ جس گنہگار نے اپنے گناہ سے توبہ کر لی ہوپھر اسے اس گناہ کا طعنہ نہ دو ۔تيسرايہ کہ مسلمان کو ايسے لقب سے نہ پکارو جو اسے ناگوار ہو اگرچہ وہ عيب اس ميں موجود ہو۔ او کانے، او ٹينی، او لنگڑے، اندھے کہہ کر نہ پکارو اگرچہ يہ بيماريا ں اس ميں ہوں۔ چوتھا يہ کہ جو لقب نام کی طرح بن گئے ہوں کہ اب اسے تکليف نہ ہوتی ہو تو ان القاب سے پکارنا منع نہيں۔جيسے اعمش اعرج وغيرہ(تفسیرنور العرفان)
    (۲) يعنی ايسی حرکتيں فسق ہيں تم مسلمان ہو کر فاسق کيوں بنتے ہو ان سب حرکتوں سے علیٰحدہ رہو۔
    (۳) اس سے وہ فرقہ عبرت پکڑے جو صحابہ کرام کو گالیاں دینابہترین
عبادت سمجھتا ہے جس کا عقیدہ یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ایک گالی دینا اسی 80 بر س کی خالص عبادت سے افضل ہے ۔ یہ لوگ اس آیت کے حکم سے ظالم ہیں ۔
(تفسير نورالعرفان)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!