اسلام نے اللہ اورسول کے بعد ماں باپ
الحمد للّٰہ وحدہ والصلٰوۃ والسلام علی من لانبی بعدہ وعلی آلہ وأصحابہ وعلی من عندہ۔
امّا بعد!
اسلام نے اللہ اورسول کے بعد ماں باپ (معنوی ہویا ظاہری ) کی تعظیم وتکریم اوربِرّواحسان کاحکم فرمایا ہے ۔متعدد مقامات پرقرآن ِمجید میں اِس کا ذکر آیا ہے ۔ اَحادیث کاتو شمار نہیں ۔اللہ ل نے فرمایا:
۱) وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَاَحَدُہُمَآ اَوْکِلٰہُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًاکَرِیْمًا ْ وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ْ’’ اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اُس کے سوا کسی کو نہ پُوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے اُن میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور اُن سے تعظیم کی بات کہنا ۔اور اُن کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو اُن دونوں پر رحم کر جیسا کہ اُن دنوں نے مجھے چھٹپن(بچپن) میں پالا۔‘‘(پارہ۱۵،سورۂ بنی اسرائیل،اٰیت۲۴،۲۳)
فائدہ:اِس آیت میںپروردگار عالمل اِنسان کو تاکید فرمارہاہے کہ سب سے بڑھ کر آدمی پر اللہ تعالیٰ کاحق یہ ہے کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرے یعنی اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اِس کو پیدا کیا ہے۔پھرماں باپ کاحق ہے جب ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کی ہرطرح کی پرورش اورتربیت دنیا میں ماں باپ کرتے ہیں۔اِس لیے اُن کی فرمانبرداری اورشکر گذاری کی تاکید فرمائی ہے ۔
۲) وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ ْ (پارہ۲۱،سورۂ لقمان،اٰیت۱۴)
’’اور ہم نے آدمی کو اِس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اِس کی ماں نے اِسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اِس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔‘‘
فائدہ:اِس آیت میں ماں کاحق باپ سے زیادہ فرمایا اِس لیے کہ وہ کئی مہینے تک پیٹ میں لیے پھرتی تھی اورتھک تھک جاتی تھی اوربڑی تکلیف کے ساتھ اُس کو جنا اورپھر دو سال تک اپنی چھاتی سے دودھ پلایا اورکیسی کیسی سختیاں اورتکلیفیں جھیل کر بچے کی تربیت فرمائی اوراپنے آرام پر اُس کے آرام کوترجیح دی ۔اِس لیے ماں کا احسان اوراُس کی شکرگزاری باپ سے زیادہ ہوئی۔
۳)وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلَاثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ْ (پارہ۲۶،سورۃالاحقاف،اٰیت۱۵)
’’اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ا ُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اُس کو تکلیف سے اور اُسے اُٹھائے پھرنا اور اُس کا دودھ چھڑانا تیس (۳۰) مہینہ میں ہے یہاں تک کہ جب اپنے زور کو پہنچا اور چالیس(۴۰) برس کا ہوا عرض کی اے میرے رب میرے دل میں ڈال کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی اور میں وہ کام کروں جو تجھے پسند آئے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح رکھ میں تیری طرف رجوع لایا اور میں مسلمان ہوں۔‘‘
فائدہ:ماں باپ سے احسان اوراِن کی تعظیم وتکریم کی ایک علّت تربیت کو بتایاگیا ہے۔تربیت ماں باپ دونوں کرتے ہیں۔