اسلام

علم و علماء کرام

علم و علماء کرام

(1)’’عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَغَیْرِ أَھْلِہِ کَمُقَلِّدِ الْخَنَازِیْرِ الْجَوْھَرَ وَاللُّؤْلُؤَ وَالذَّھَبَ‘‘۔ (1) (ابن ماجہ، مشکوۃ)
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ رسول کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و ( عورت) پر فرض ہے اور نااہل کو علم سکھانے والا ایسا ہے جیسے خنزیر یعنی سور کے گلے میں جواہرات ، موتی اور سونے کا ہار پہنادیا ہو۔
حضرت ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’قَالَ الشُّرَّاحُ اَلْمُرَادُ بِالعلْمِ مَا لَا مندوحۃ لِلْعَبدِ من تعلّمہِ کَمعْرِفۃِ الصَّانِع وَالْعِلمُ بِوحْدَانیَّتِہ ونبوَّۃِ رَسُولِہ وکَیْفِیَۃِ الصَّلاۃ، فَإِنَّ تعلَّمہ فَرضُ عینٍ، وَأَمَّا بلوغُ رتبۃِ الاجتھَادِ وَالْفُتیا فَفَرضُ کِفَایَۃٍ ‘‘ ۔ (2)
یعنی شارحینِ حدیث نے فرمایا کہ علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ کے لیے ضروری ہے جیسے خدائے تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی وحدانیت، اس کے رسول کی نبوت کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا۔
اس لیے کہ ان چیزوں کا علم فرضِ عین ہے اور فتویٰ و اجتہاد کے رتبہ کو پہنچنا فرضِ کفایہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ، جلد اول ، ص۲۳۳)
اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ:
’’مراد بعلم دریں جاعلمے ست کہ ضروری وقت مسلمان ست مثلاً چوں
یعنی علم سے مراد اس حدیث میں وہ علم ہے کہ جو مسلمانوں کو وقت پر ضروری ہے ۔ مثلاً جب اسلام میں

در اسلام در آمد واجب شد بروے معرفت صانع وصفات وے وعلم بہ نبوت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم وجز آں از انچہ صحیح نیست ایمان بے آں۔ وچوں وقت نماز در آمد واجب شد آموختن علم باحکام صلاۃ وچوں رمضان آمد واجب گردید تعلم احکام صوم۔ وہرگاہ مالک نصاب گردید واجب شد تعلیم احکام زکوۃ واگر پیش ازاں مرد وتعلم نہ کرد عاصی نہ باشد۔ وچوں زن خواست علم حیض و نفاس و جُز آں ازانچہ متعلق باحکام زن وشوے ست واجب گردد وعلی ہذا القیاس‘‘۔ (1)
داخل ہوا تو اس پر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کو پہچاننا اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کو جاننا واجب ہوگیا اور ہر اس چیز کا علم ضروری ہوگیا کہ جس کے بغیر ایمان صحیح نہیں ۔ اور جب نماز کا وقت آگیا تو اس پر نماز کے احکام کا جاننا واجب ہوگیا ۔ اور جب ماہ رمضان آگیا تو روزہ کے احکام کاسیکھنا ضروری ہو گیا۔ اور جب مالک ِنصاب ہوگیا تو زکوۃ کے مسائل کا جاننا واجب ہوگیا اور اگر مالک ِنصاب ہونے سے قبل مرگیا اور زکوۃ کے مسائل کو نہ سیکھا تو گنہگار نہ ہوا۔ اور جب عورت کو (عقد میں) لایا تو حیض و نفاس وغیرہ جتنے مسائل کا زن وشوہر سے تعلق ہے جاننا واجب ہوجاتا ہے ۔ وعلی ھذا القیاس ۔
(اشعۃ اللمعات، جلد اول ، ص ۱۶۱)
(2)’’عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ قَالَ إِنَّ ھَذَا الْعِلْمَ دِیْنٌ فَانْظُرُوْا عَمَّنْ تَأْخُذُوْنَ دِیْنَکُمْ‘‘۔ (2) (مسلم، مشکوۃ)
حضرت محمد بن سیرین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ یہ علم(یعنی قرآن وحدیث کو جاننا)دین ہے لہذا تم دیکھ لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کررہے ہو۔
(3)’’عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاھِلِیِّ قَالَ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِِ أَحَدُھُمَا عَابِدٌ وَّالْآخَرُعَالِمٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلَی
حضرت ابوا مامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کے سامنے د و آدمیوں کا ذکر کیا گیا۔ ایک ان میں سے عابد تھا دوسرا عالم۔ تو سر کارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے
أَدْنَاکُمْ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّہَ وَمَلَئِکَتَہُ وَأَھْلَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّی النَّمْلَۃَ فِیْ جُحْرِھَا وَحَتَّی الْحُوْتَ لَیُصَلُّوْنَ عَلَی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَیْرَ۔ (1) (ترمذی، مشکوۃ)
کہ میری فضیلت تمہارے ادنیٰ آدمی پر، پھر حضور نے فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر خدائے تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے ۔ اوراس کے فرشتے نیز زمین و آسمان کے رہنے والے یہاںتک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں( پانی میں)اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔
(۴)’’عَنْ کَثِیْرِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ کُنْتُ جَالِساً مَعْ أَبِی الدَّرْدَائِ فِیْ مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَائَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَبَا الدَّرْدَائِ إِنِّیْ جِئْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِحَدِیْثٍ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَّسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا جِئْتُ لِحَاجَۃٍ قَالَ فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقاً یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْماً سَلَکَ اللَّہُ بِہِ طَرِیْقاً مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ الْمَلَئِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَھَا رِضاً لِطَالِبِ الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ یَسْتَغْفِرُلَہُ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ وَالْحِیْتَانُ فِیْ جَوْفِ الْمَائِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِلَیْلَۃَ
حضرت کثیر بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں حضرت ابوالدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا تو ایک آدمی نے آکر کہا کہ اے ابوالدرداء بے شک میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر مدینہ طیبہ سے یہ سن کر آیا ہوں کہ آپ کے پاس کوئی حدیث ہے جسے آپ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں ا ور میں کسی دوسرے کام کے لیے نہیں آیا ہوں۔ حضرت ابوالدرداء نے کہا کہ میں نے رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علمِ ( دین) حاصل کرنے کے لیے سفر کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر چلاتا ہے اور طالبِ علم کی رضا حاصل کرنے کے لیے فرشتے اپنے پروں کوبچھا دیتے ہیں اور ہر وہ چیز جو آسمان

الْبَدْرِعَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاء وَرَثَۃُ الأَنْبِیَائِ وَإِنَّ الْأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَاراً وَلَا دِرْھَماً وَإِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ‘‘۔ (1) (ترمذی، أبو داود، مشکوۃ)
و زمین میں ہے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کے اندر عالم کے لیے دعائے استغفار کرتی ہیں۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر۔ اور علماء انبیائے کرام کے وارث و جانشین ہیں۔ انبیائے کرام کا ترکہ دینار
و درہم نہیںہیں۔ انہوں نے وراثت میں صرف علم چھوڑا ہے تو جس نے اسے حاصل کیا اس نے پورا حصہ پایا۔
(۵)’’عَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ یُّرِدِ اللَّہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّہُ یُعْطِیْ۔ (2) (بخاری، مسلم، مشکوۃ)
حضرت معاویہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے اور خدا دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔
(۶)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَۃً مِّنَ اللَّیْلِ خَیْرٌ مِّنْ إِحْیَائِھَا۔ (3) (دارمی، مشکوۃ)
حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما سے روایت ہے انہوں نے فر مایا کہ رات میں ایک گھڑی علمِ دین کا پڑھنا پڑھانارات بھر کی عبادت سے بہتر ہے ۔
(۷)’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقِیْہٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَی
حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ ایک فقیہ یعنی ایک

الشَّیْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ‘‘۔ (1) (ترمذی، مشکوۃ)
عالمِ دین شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔
(۸)’’عَنْ أَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّم مَا حَدُّ الْعِلْمِ الَّذِیْ إِذَا بَلَغَہُ الرَّجُلُ کَانَ فَقِیْھاً فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ حَفِظَ عَلَی أُمَّتِیْ أَرْبَعِیْنَ حَدِیْثاً فِیْ أَمْرِ دِیْنِھَا بَعَثَہُ اللَّہُ فَقِیْھاً وَکُنْتُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَافِعاً وَّشَھِیْداً۔ (2) (مشکوۃ)
حضرت ابوالدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم سے دریافت کیا گیا کہ اس علم کی حد کیا ہے کہ جسے آدمی حاصل کرلے تو فقیہ یعنی عالمِ دین ہوجائے تو سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جو شخص میری امت تک پہنچانے کے لیے دینی اُ مور کی چالیس حدیثیں یاد کرلے گا تو خدائے تعالیٰ اسے قیامت کے دن عالمِ دین کی حیثیت سے اٹھائے گا اور قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہ رہوں گا۔
(۹)’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ فِیْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَّسُوْلِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْعَثُ لِھَذِہِ الْأُمَّۃِ عَلَی رَأسِ کُلِّ مِئَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا۔ (3)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جو باتیں میںنے معلوم کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر صدی کے خاتمہ پر اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو نکھارتا رہے گا۔ (ابو داود، مشکوۃ)
نوٹ :
باتفاق علمائے عرب و عجم چودھویں صدی کے مجدد اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہیں۔

(۱۰)’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّم مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماً مِمَّا یُبْتَغَی بِہِ وَجْہُ اللَّہِ لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصِیْبَ بِہِ عَرَضاً مِّنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْعَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَعْنِیْ رِیْحَھَا۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جس نے ایسے علم کو سیکھا جس کے ذریعے خدائے تعالیٰ کی خوشنودی طلب کی جاتی ہے ( مگر) اس نے صرف اس لیے سیکھا کہ اس علم سے متاعِ دنیا حاصل کرے تو قیامت کے دن اس کو جنت کی خوشبو تک میسر نہ ہوگی۔ (ابو داود ، مشکوۃ)
(۱۱)’’عَنْ سُفْیَانَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِکَعْبٍ مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ قَالَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ بِمَا یَعْلَمُوْنَ قَالَ فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوْبِ الْعُلَمَائِ قَالَ الطَّمَعُ۔ (2)
حضرت سفیان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے دریافت فرمایا کہ اہلِ علم کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جو ا پنے علم
کے موافق عمل کریں پھر آپ نے پوچھا کہ عالموں کے دلوں سے کون سی چیز علم ( کے انوار و برکات ) کو نکال لیتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ لالچ۔ (دارمی ، مشکوۃ)
(۱۲)’’عَنِ الْأَحْوَصِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلاَ إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَائِ وَإِنَّ خَیْرَ الْخَیْرِ خِیَارُ الْعُلَمَآء۔ (3)
حضرت احوص بن حکیم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ آگاہ ہوجائو کہ بُروں میں سب سے بدترین علمائے سُو ہیں۔ اور اچھو ں میں سب سے بہتر علمائے حق ہیں۔ (دارمی ، مشکوۃ)
(۱۳)’’عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ سرکارِ

صَلَّی اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أُفْتِیَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ اِثْمُہُ عَلَی مَنْ أَفْتَاہُ وَمَنْ أَشَارَ عَلَی أَخِیْہِ بِأَمْرٍ یَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِیْ غَیْرِہِ فَقَدْ خَانَہُ۔ (1)
اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ جسے بغیر علم کے کوئی فتویٰ دیا گیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔ اور جس نے جان بوجھ کر اپنے بھائی کو غلط مشورہ دیا تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی (ابوداود ، مشکوۃ)
ضروری انتباہ :
(۱)… حضور سید ِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اکثر رات بھر عبادت فرماتے ۔ یہاں تک پائے مبارک ورم کر جاتے اور صوم و صال یعنی پے درپے روزہ رکھتے ، رات میں افطار نہ فرماتے ، اور جو مال ملتا سب راہِ خدا عزوجل میں خرچ کر ڈالتے ۔ چٹائیوں پر آرام فرماتے ، جَو کی روٹی تناول فرماتے ، کبھی ایک دو مہینہ تک صرف کھجور اور پانی پر اکتفا فرماتے ، کبھی شکمِ اقدس پر پتھر باندھتے ، مگر ان باتوں کو اپنی کمزور و ناتوان امت پر کرم فرماتے ہوئے لازم نہیں فرمایا۔ یعنی حضور رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان باتوں کا کسی مسلمان سے مطالبہ نہیں فرمایا چاہے وہ جاہل ہو یا عالم۔ مگر آج کل بعض جاہل جنہیں مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں ان باتوں کا علماء سے مطالبہ کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والوں کو نافرمان سمجھتے ہیں اور شرم نہیں کرتے کہ جن باتوں کو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لازم نہیں فرمایا تو ان بے عمل جاہلوں کو مطالبہ کرنے کا حق کہاں سے پہنچ گیا۔ خدائے تعالیٰ انہیں سمجھ عطا فرمائے ۔
(۲)…چٹائیوں پر سونے اور پیٹ پر پتھر باندھنے کا مطالبہ کرنے والے اسلام اور مسلمان دونوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اسلام کو اس طرح کہ ایک ایسا غیر مسلم جو دائرہ اسلام میں آنا چاہتا ہے جب اس کو معلوم ہوگا کہ اسلام میں چٹائی پر سونا اور پیٹ پر پتھر باندھنا لازم ہے اور ایسا نہ کرنے والا گنہگار اور حضور پیغمبرِ اسلام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کانافرمان ٹھہرایا جاتا ہے تو وہ اسلام کی طرف ہر گز نہیں آسکتا۔ اور علماء کو نافرمان و گنہ گار ٹھہرانے والا یہ گروہ مسلمانوں کو اس طرح نقصان پہنچانا چاہتا ہے کہ جب مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوجائے گی کہ علماء خود نافرمان ہیں تو پھروہ عالموں کی نصیحت ہر گز نہیں قبول کریں گے ۔ نماز و روزہ وغیرہ فرائض الٰہیہ کے قریب نہ آویں گے اور برائیوں میں مبتلا ہو کر مستحق عذابِ نار ہوں گے ۔
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’سنن ابن ماجہ‘‘، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، الحدیث: ۲۲۴، ج۱، ص ۱۴۶، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب العلم، الفصل الثانی، الحدیث: ۲۱۸، ج۱، ص۶۳.
2 – ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ ، کتاب العلم ، الفصل الثانی، الحدیث: ۲۱۸، ج۱، ص۴۷۷.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!