واقعات

د ِین کے لئے بہترین سہارا

حکایت نمبر306: د ِین کے لئے بہترین سہارا

قاضی ابو عمر محمد بن یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے منقول ہے، ایک مرتبہ میرے والد ِ محترم لوگو ں کے فیصلے کر رہے تھے۔ اتنے میں خلیفہ مُعْتَضِدْ بِاللہ کا خاص غلام فیصلہ کروانے کے لئے فریقِ مخالف کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوا اس کاکسی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ جھگڑاہوگیاتھا وہ اپنے مخالف فریق کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے خاص لوگو ں کی نشست پر جا بیٹھا۔

حاجب(یعنی دربان) نے اس سے کہا :” عدالت کے اصولوں میں سے ہے کہ فریقین ایک ساتھ کھڑے ہوں لہٰذا آپ بھی اپنے مدِّمقابل کے پاس اسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ کھڑا ہے ۔”
حاجب کی بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا اور وہیں بیٹھا رہا ، خلیفہ کا خاص غلام ہو کرفیصلے کے لئے ایک عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا اس کے نفس نے گوارا نہ کیا۔ اس کی اس حرکت پر میرے والد کو بہت غصہ آیا ، انہوں نے پکار کر کہا:” تیری یہ جرأت کیسے ہوئی، تجھے تیرے فریقِ مخالف کے ساتھ کھڑے ہونے کو کہا جارہا ہے اور تو انکار کر رہا ہے؟ اے خادم! کا غذ لاؤ تا کہ میں اس شخص کو عمرو بن ابوعمر کے ہاتھوں بیچ دو ں اور اسے لکھ دو ں کہ اس کی قیمت خلیفہ کو بھجوا دو ۔پھرحاجب کوحکم دیاکہ اس کا ہاتھ پکڑکر اٹھاؤ اور دونوں فریقوں کو برابرکھڑاکردو۔”حاجب نے اسے زبردستی اٹھایااورفریقِ ثانی کے ساتھ کھڑا کر دیا۔جب مجلس قضاء برخاست ہوئی تو وہ غلام خلیفہ کے پاس جاکر رونے لگا ۔ خلیفہ نے وجہ پوچھی تو کہا: ”حضور! قاضی صاحب نے آج میری بہت بے عزتی کی اور مجھے ایک گھٹیا شخص کے ساتھ کھڑا کر دیاحا لانکہ میں آپ کا خاص خادم ہوں، میری ایک عام آدمی سے کیا برابری؟
خلیفہ نے غضب ناک ہو کر کہا :” اگر قاضی صاحب تجھے بیچ دیتے تو میں اس بیع کونافذ رکھتا اور کبھی بھی تجھے اپنے پاس نہ بلاتا۔ میرے ہاں تیرا خاص مقام ہونا عدل وانصاف کے لئے آڑنہیں بن سکتا ۔بے شک عدل وانصاف سلطانوں کے لئے مضبوط ستون اور دین کے لئے بہترین سہارا ہے، قاضی صاحب نے جو کیا دُرست کیا ۔”
اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو حق گوئی اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!