ایک عالم ربانی کی للہیت
ایک عالم ربانی کی للہیت
حضرت سیدنا مقاتل بن صالح خراسانی قدّس سرہ الربّانی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے دولت خانہ پر حاضر ہوا۔ آپ کے گھر میں صرف ایک چٹائی تھی جس پر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تشریف فرما تھے اور آپ کے سامنے قرآن پاک رکھا ہو اتھااورآپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ تلاوت فرمارہے تھے۔ اس کے علاوہ گھر میں ایک تھیلا رکھا ہوا تھا جس میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں ۔ ایک برتن تھا جس سے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ وضو وغیرہ کیا کرتے تھے ، ان اشیاء کے
علاوہ گھر میں اور کوئی چیز نہ تھی ۔
میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھاکہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک بچے کو بھیجا: ”دیکھو!دروازے پر کون آیا ہے ؟” بچہ باہر گیا اور کچھ دیر بعدآپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ۔”آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا : ”کون ہے ؟”اس نے جواب دیا:” خلیفہ کا قاصد آنا چاہتا ہے۔” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” جاؤاور اس سے کہو کہ صرف تم اکیلے اندر آجا ؤ اور کسی کو ساتھ نہ لانا۔” بچے نے قاصد کو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا پیغام دیا۔چنانچہ قاصد آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے پاس آیا اور ایک خط آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں پیش کیا ۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے وہ خط لیا اور اسے کھولا تو اس میں یہ الفاظ لکھے تھے:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕ
محمد بن سلمان کی جانب سے حماد بن سلمہ کی طرف ،
امابعد!
اے حماد بن سلمہ! اللہ عزوجل آپ (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) کی صبح خیریت سے کرے جیسے وہ اپنے اولیاء اوراطاعت کرنے والوں کی صبح کرتا ہے۔ حضور!مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے جس کے متعلق آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے گفتگو کرنی ہے۔
والسّلام
یہ خط پڑھ کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے بیٹے سے فرمایا:” جاؤ قلم دوات لے کر آؤ۔”پھر مجھے فرمایا کہ اس خط کے پیچھے یہ عبارت لکھو ۔
امّابعد!
(اے خلیفہ محمد بن سلمان!) اللہ عزوجل تیری صبح خیر سے کرے جس طرح اپنے فرمانبرداروں اور نیک بندو ں کی صبح کر تا ہے ۔ بے شک میں نے علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی صحبت پائی ہے او ران کی یہ عا دت رہی ہے کہ وہ کسی دنیادار کے پاس مسئلہ بتانے کے لئے نہیں جاتے ۔لہٰذااگر تجھے کوئی مسئلہ درپیش ہے تو تُو میرے پاس آجا۔ پھر مجھ سے سوال کر مَیں تجھے جواب دو ں گا۔ جب تُومیرے پاس آئے تو اکیلے ہی آنا او رگھوڑے وغیرہ پر سوار ہو کر نہ آنا ،نہ ہی اپنے ساتھ سپاہی وغیرہ لانا۔ مَیں نہ تو تجھے نصیحت کرنے والا ہوں اور نہ ہی اپنے آپ کو۔ والسلام
خلیفہ وقت محمد بن سلمان کا قاصدخط لے کر وہاں سے چلا گیا۔ میں آپ کے پاس ہی بیٹھا رہا ۔ کچھ دیربعد پھر دروازے پرد ستک ہوئی۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” جاؤ دیکھو! دروازے پر کون ہے؟” بچہ فوراً گیا او ر واپس آکر جواب دیا :
” خلیفہ محمد بن سلمان آیا ہے۔” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اس سے جا کر کہو کہ اکیلا اندر آجائے۔ ”
چنانچہ خلیفہ محمد بن سلمان اکیلا ہی اندر داخل ہوا اور آکر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو سلام کیا۔ پھر آپ کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا اور کہنے لگا :”حضور! ایک بات بتائیں جیسے ہی میں نے آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا مجھ پر رعب ودبدبہ طاری ہوگیا اور میں خوف کی سی کیفیت محسوس کر رہا ہوں، اس میں کیا راز ہے ؟”
یہ سن کر حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”میں نے حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کوسنا ہے ،وہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کویہ ارشاد فرماتے سناکہ رسول کریم رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے :” بے شک جب عالم اپنے علم کے ذریعے اللہ عزوجل کی رضا چاہتا ہے تو ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو علم کے ذریعے دنیا کی دولت چاہتا ہے وہ (عالم)ہر چیز سے ڈرتا ہے ۔”
(فردوس الأخبار للدیلمی، باب العین، فضل العالم، الحدیث۴۰۴۰،ج۲،ص۸۳تا۸۴)
پھر محمد بن سلمان عرض کرنے لگا:” حضور! میں آپ (رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ) سے یہ مسئلہ دریافت کرنے آیا تھا کہ اگر کسی شخص کے دو بیٹے ہوں اور ایک اسے زیادہ محبوب ہو اور وہ ارادہ کر ے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے مال کا تیسرا حصہ اسے دے دے تو کیا اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے ؟ ”توحضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:” ہر گز ایسا نہ کرنا۔”میں نے حضرت سیدنا ثابت بنائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے یہ حدیثِ پاک سنی ہے، حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ ہدایت نشان ہے: ”اللہ عزوجل جب اپنے بندے کے ساتھ یہ ارادہ کرتا ہے کہ اس کے مال کی وجہ سے اسے عذاب نہ دے تو اس کی موت کے وقت اسے جائز وصیت کی تو فیق عطا فرمادیتا ہے ۔”
(کنز العمال، کتاب الوصیۃ/قسم الأفعال، محظورات الوصیۃ، الحدیث۴۶۱۲۳،ج۱۶،ص۲۶۶)
حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زبانی یہ حدیث مبارکہ سننے کے بعد محمد بن سلمان کہنے لگا : ”حضور! اگر آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کی کوئی حاجت ہو تو ارشاد فرمائیں ؟”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس میں دین کا کچھ نقصان نہیں تووہ لے آؤ ۔” محمد بن سلمان نے کہا : ”حضور !میں آپ کی بارگاہ میں چالیس ہزار درہم پیش کرتا ہو ں، آپ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) انہیں بطورِ نذرانہ قبول فرمالیں۔”تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اس دولت کو ان مظلوموں کی طرف لوٹا دے جن سے یہ ظلماً وصول کی گئی ہے۔” محمد بن سلمان نے کہا :” اللہ عزوجل کی قسم! جو رقم میں آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں یہ مجھے ورثے میں ملی ہے، میں نے اسے ظلماًحاصل نہیں کیا۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: ”مجھے اس دولت کی کوئی حاجت نہیں، اسے فوراًمجھ سے دور کر لے ،اللہ عزوجل بروزِ قیامت تجھ سے وزن کودور کرے۔” محمد بن سلمان نے پھر کہا : ”حضور! اور کوئی حاجت ہو تو ارشاد فرمائیں ؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” اگر کوئی ایسی چیز ہے جس میں دین کا نقصان نہیں تووہ لے آ ۔” محمد بن سلمان نے کہا:”اگرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ رقم اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تو اپنے دستِ مبارک سے فقراء میں تقسیم کردیں۔” حضرت سیدنا حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرمانے لگے: ”اگر مَیں یہ رقم لوگوں میں تقسیم کروں او رخوب عدل وانصاف سے کام لوں لیکن پھر بھی اگر کسی حق دار کو اس کاحق نہ ملا اور اس نے بد گمانی کرتے ہوئے یہ کہہ دیاکہ میں نے عدل وانصاف سے کام نہیں لیا تو ایسا شخص گناہ گار ہوگا ۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ تویہ مال ودولت مجھ سے دور لے جا،اللہ عزوجل بر وزِ قیامت تیرے وزن کو ہلکا فرمائے۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)