د وعظیم مُحَدِّث
حکایت نمبر308: د وعظیم مُحَدِّث
حضرت سیِّدُنا محمد بن مُنْذِر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مشہور محدث حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پڑوس میں رہا کر تے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ” ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ رحمۃ اللہ المجید اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کو ساتھ لے کر حج کے لئے روانہ ہوئے، جب”کوفہ ”پہنچے توحضرتِ سیِّدُنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا :” کوفہ کے تمام مُحَدِّثِیْن (مُحَدْ۔دِ۔ثِیْن) کو پیغام بھجوائیں کہ وہ ہمارے پا س آکر حدیث سنائیں۔خلیفہ کاپیغام سن کر سوائے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس اور حضرت سیِّدُنا ابن یونُس کے تمام محدثین خلیفہ کے پاس پہنچ گئے اور حدیثیں بیان کیں۔ امین اور مامون کو جب معلوم ہوا کہ دو محدث خلیفہ کے پاس نہیں آئے تو انہوں نے خود ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا۔ پہلے حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس پہنچ کر حدیث ِ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سننے کی خواہش ظاہر کی ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انہیں 100 حدیثیں سنائیں۔ حدیث سننے کے بعد مامون نے کہا:” چچا جان! اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو یہ سو حدیثیں آپ کو سنائیں۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اجازت دی تو مامون نے جیسے سنی تھیں حرف بحرف اسی طر ح سنادیں ۔ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن اِدْرِیس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو خود بہت زیادہ مضبوط حافظہ کے مالک تھے۔ مامون الرشید کی ذہانت و فطانت دیکھ کر بہت متعجب ہوئے۔ مامون نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کہا : ”چچا جان! آپ کی مسجد کے برابر میں دو گھر ہیں اگر آپ اجازت عطا فرمائیں تو انہیں خرید کر آپ کی مسجد کو وسیع کردیا جائے ۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” جس نے مجھ سے پہلے والوں کی کفایت کی وہ میری بھی کفایت کریگا ، مجھے ان گھر وں کی خریداری کی رغبت نہیں ۔” مامون الرشید نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے جسم پرپھنسی نکلی ہوئی ہے تو کہا:” چچاجان! ہمارے ساتھ ماہر طبیب اور بہترین دوائیں ہیں، اگرآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اجازت دیں تو ہم کسی ماہر طبیب کو بلا لائیں جو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا علاج کرے ؟” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکارکرتے ہوئے فرمایا :” پہلے بھی اس کی مثل زخم ہواتھا ،جو خود بخود ٹھیک ہوگیا، اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ یہ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔”مامون نے بہت سا مال آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دینا چاہا لیکن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لینے سے انکارکردیا اور ایک درہم بھی قبول نہ کیا ۔
پھر امین ومامون حضرت سیِّدُنا ابنِ یونُس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور احادیث سنیں۔ جب واپس ہونے لگے تو خدام کو حکم دیا کہ” حضرت سیِّدُناا بن یونُس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دس ہزار درہم پیش کئے جائیں۔” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انکار کر دیا، مامون نے سمجھا کہ شاید دس ہزار درہم کم ہیں اس لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ انکار فرمارہے ہیں ۔چنانچہ، اس نے بیس ہزار درہم پیش کئے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لینے سے انکارکردیااور کہا :”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! مَیں حدیثِ نبوی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلَّم سنانے کے عوض پانی کے چند گھونٹ اور روٹی کا ٹکڑابھی قبول نہیں کر و ں گا، خدا عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! اگر تم اس مسجد کو چھت تک سونے سے بھر دو تب بھی میں حدیث کے عوض یہ دولت قبول نہیں کرو ں گا ۔” یہ سن کر امین ومامون اس عظیم مُحَدِّث کے پاس سے واپس چلے آئے ،اس مردِ قلند ر نے ان سے ایک درہم بھی نہیں لیا۔”
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!ہمارے بزرگانِ دین کیسے خودد ارا ورمُتَوَکِّل ہوا کرتے تھے۔ ان کی نظروں میں دنیوی دولت وشہرت کی کچھ بھی اہمیت نہ تھی ۔وہ کسی بھی دنیادار کی دنیوی آسائشوں او رنعمتوں کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوتے بلکہ بڑے بڑے امراء ووزراء پر ان بزرگ ہستیوں کا رُعب ودبدبہ ہوتا۔ سچ ہے کہ جواللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہے ہر چیزاس سے ڈرتی ہے ، جواللہ عَزَّوَجَلَّ پر توکل کرتا ہے اسے کسی کی محتاجی نہیں ہوتی ۔ہمارے اسلاف اپنے دینی منصب کو کبھی بھی ا پنے دنیوی فائدے کے لئے استعمال نہ کرتے۔انہیں اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ پر یقینِ کا مل تھا۔)