دفن میت کے احکام و مسائل
دفن میت کے احکام و مسائل
(۱)’’عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ رَجُلَانِ أَحَدُہُمَا یَلْحَدُ وَالْآخَرُ لَا یَلْحَدُ فَقَالُوا أَیُّہُمَا جَائَ أَوَّلًا عَمِلَ عَملَہُ فَجَائَ الَّذِی یَلْحَدُ فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘‘۔ (1)
حضرت عروہ بن زبیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایاکہ مدینہ شریف میں دو آدمی قبر کھودا کرتے تھے ۔ ایک ان میں سے (حضرت ابوطلحہ انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے جو) لحد یعنی بغلی کھودتے تھے ۔ اور دوسرے (حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے جو)
بغلی نہیں کھودتے تھے ۔ ( بلکہ شق یعنی صندوقی قبر بناتے تھے ) حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے وصال پر ) صحابہ نے آپس میں طے کیا کہ جو ان دونوں میں سے پہلے آئے گا وہ اپنا کام کرے گا۔ تو پہلے وہ صحابی آئے جو لحد کھودا کرتے تھے تو انہوں نے حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کے لیے بغلی قبر تیار کی۔ (شرح السنۃ، مشکوۃ)
(۲)’’عَنْ عَلِیٍّ أَنَّہُ قَالَ شَہِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جِنَازَۃَ رَجُلٍ فَقَالَ یَا عَلِیُّ اسْتَقْبِلْ بِہِ اسْتِقْبَالًا وَقُولُوا جَمِیعًا بِاسْمِ اللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ وَضَعُوہُ لِجَنْبِہِ وَلَا تَکُبُّوہُ لِوَجْہِہِ وَلَا تُلْقُوہُ لِظَہْرِہِ‘‘۔ (2)
حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے ایک آدمی کے جنازہ میں شرکت کی تو فرمایا اے علی مردہ کو قبلہ کی جانب متوجہ کرو اور سب لوگ بِاسْمِ اللَّہِ وَعَلَی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللَّہ(3)پڑھو۔ اور اس کو کروٹ پر رکھو۔ منہ کے بل اوندھا نہ کرو اور نہ پیٹھ کے بل چت لٹائو۔ (بدائع الصنائع)
اس حدیث شریف سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ میت کو داہنی کروٹ پر لِٹایا جائے ۔ اور یہی صحیح ہے جیسا کہ بہارِ شریعت جلد چہارم ص:۵۴۵ میں ہے :’’ میت کو داہنی کروٹ پر لِٹائیں۔ ‘‘(1)
اور فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص:۱۵۵میں ہے : ’’وَیُوضَعُ فِی الْقَبْرِ عَلَی جَنْبِہِ الْأَیْمَنِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ کَذَا فِی الْخُلَاصَۃِ ‘‘۔ (2)
اور درمختار مع ردالمحتار جلد اول ، ص:۶۲۶میں ہے : ’’ وَیَنْبَغِی کَوْنُہُ عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ‘‘۔ (3)
اور بحرالرائق جلد ثانی ص :۱۹۴ میںہے : ’’ یَکُونُ عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ‘‘۔ (4)
اور بدائع الصنائع جلد اول ، ص:۳۱۹ میں ہے : ’’وَیُوضَعُ عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ مُتَوَجِّہًا إِلَی الْقِبْلَۃِ‘‘۔ (5)
اور مراقی الفلاح میں ہے : ’ ’ یُوَجَّہُ اِلَی الْقِبْلَۃِ‘ ‘۔ (6)
ان عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ میت کو قبر میں داہنے پہلو پر لِٹانا بہتر ہے ۔
فتح القدیر جلد ثالث ص:۹۵پر ہے :
’’ إِنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی الْقَبْرِ الشَّرِیفِ الْمُکَرَّمِ عَلَی شِقِّہِ الْأَیْمَنِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ ‘‘۔ (7)
یعنی حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم عظمت والی قبر شریف میں قبلہ رُو اپنے داہنے پہلو پر (رونق افروز) ہیں۔
اور طحطاوی ص: ۲۶۹میں ہے :
’’ وَیُسْنَدُ الْمَیِّتُ مِنْ وَرَائِہِ بِنَحْوِ تُرَابٍ لِئَلاَّ یَنْقَلِبَ‘‘۔ (8)
یعنی میت کو کروٹ پر لِٹانے میں اس کی پیٹھ کی جانب مٹی وغیرہ کی ٹیک لگادی جائے تاکہ وہ پلٹ نہ جائے ۔
(۳)’’عَنْ سُفْیَانَ التَّمَّار أَنَّہُ رَأَی قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُسَنَّمًا‘‘۔ (1)
حضرت سفیان تمّار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی قبر شریف کو دیکھا جو اُونٹ کے کوہان کی طرح (اُٹھی ہوئی) تھی۔ (بخاری)
’’ عَنْ جَابِرٍ قَالَ رُشَّ قَبْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ الَّذِیْ رَشَّ الْمَائَ عَلَی قَبْرِہِ بِلالُ بْنُ ربَاحٍ بِقِرْبَۃٍ بَدَأَ مِنْ قِبَلِ رَأَسِہِ حَتَّی اِنْتَھَی إِلَی رِجْلَیْہِ‘‘۔ (2)
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کی قبر شریف پرپانی چھڑکا گیا۔ اور پانی چھڑکنے والے حضرت بلال بن رُباح تھے ۔ انہوں نے مشک سے پانی چھڑکا اور سرہانے سے چھڑکنا شروع کیا اور قدموں تک چھڑکا۔ (بیہقی، مشکوۃ)
انتباہ :
(۱) …مستحب یہ ہے کہ سرہانے کی طرف دونوں ہاتھ سے تین بار مٹی ڈالیں۔ پہلی بار مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ دوسری بار وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ اور تیسری بار وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَی پڑھیں۔ (3)(طحطاوی، بہارشریعت)
(۲) … شجرہ یا عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھیں۔ (4) (بہارشریعت)
(۳) …میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ لکھنا بہتر ہے ۔ درمختار مع ردالمحتار جلد اول ص:۶۳۳میں ہے ۔ ’’کُتِبَ عَلَی جَبْہَۃِ الْمَیِّتِ أَوْ عِمَامَتِہِ أَوْ کَفَنِہِ عَہْدُ نَامَہْ یُرْجَی أَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لِلْمَیِّتِ ‘‘۔ (5)
(۴) …پیشانی پر بِسْمِ اللَّہ شریف یا سینہ پر کلمہ طیبہ لکھنا بھی جائز ہے ۔ مگر نہلانے کے بعد کفن پہنانے
سے پہلے کلمہ کی انگلی سے لکھیں روشنائی سے نہ لکھیں۔ (1) (رد المحتار، جلد اول، ۶۳۴)
(۵) … دفن کے بعد قبر کے سرہانے اذان پڑھنا جائز بلکہ مستحسن ہے ۔
(۶) …علماء سادات اور مشائخ کرام کی قبروں پر قبہ یا عمارت بنانا جائز ہے ۔ ردالمحتار جلداول ص:۶۲۷ میں ہے : ’’قِیلَ لَا یکْرَہُ الْبِنَائُ إذَا کَانَ الْمَیِّتُ مِنَ الْمَشَایِخِ وَالْعُلَمَائِ وَالسَّادَاتِ‘‘۔ (2)
نیز درمختار ، باب الدفن اور طحطاوی ص: ۳۷۰ میں ہے : ’’ لَا یُرْفَعُ عَلَیْہِ بِنَائٌ وَقِیلَ لَا بَأْسَ بِہِ وَہُوَ الْمُخْتَارُ‘‘۔ (3)
(۷) …اولیائے کرام کی اظہارِ عظمت کے لیے ان کے مزارات پر چادر ڈالنا ، پھول رکھنا اور ان کے مزارات کے قریب چراغ روشن کرناجائز ہے ۔ (4) (رد المحتار، عالمگیری، حدیقہ ندیہ)
٭…٭…٭…٭