اسلامواقعات

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور یہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ۔ یہ فارس کے شہر ”رامہرمز”کے باشندہ تھے ۔ مجوسی مذہب کے پابند
تھے اور ان کے باپ مجوسیوں کی عبادت گاہ آتش خانہ کے منتظم تھے ۔ یہ بہت سے راہبوں اورعیسائی سادھوؤں کی صحبت اٹھاکر مجوسی مذہب سے بیزار ہوگئے اور اپنے وطن سے مجوسی دین چھوڑ کر دین حق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے اور عیسائیوں کی صحبت میں رہ کر عیسائی ہوگئے ۔ پھر ڈاکوؤں نے گرفتار کر لیااوراپنا غلام بناکر بیچ ڈالا اور یکے بعد دیگرے یہ دس آدمیوں سے زیادہ اشخاص کے غلام رہے ۔ جب رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت یہ ایک یہودی کے غلام تھے جب انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو جناب رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کو خریدکرآزادفرمادیا۔
جنگ خندق میں مدینہ منورہ شہر کے گرد خندق کھودنے کامشورہ انہوں نے ہی دیا تھا۔ یہ بہت ہی طاقتور تھے اورانصار ومہاجرین دونوں ہی ان سے محبت کرتے تھے ۔ چنانچہ انصاریوں نے کہنا شروع کیا کہ سَلْمَانُ مِنَّا یعنی سلمان ہم میں سے ہیں اور مہاجرین نے بھی یہی کہا کہ سَلْمَانُ مِنَّا یعنی سلمان ہم میں سے ہيں ۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ان پر بہت بڑا کرم عظیم تھا جب انصار ومہاجرین کا نعرہ سنا تو ارشاد فرمایا: سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلُ الْبَیْتِ(یعنی سلمان ہم میں سے ہیں )یہ فرماکران کو اپنے اہل بیت میں شامل فرمالیا۔ عقد مواخات میں حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کو ابوالدرداء صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھائی بنا دیا تھا، اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ان کا شمار ہے۔ بہت عابد وزاہد اورمتقی وپرہیزگار تھے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بیان ہے کہ یہ رات میں بالکل ہی اکیلے صحبت نبوی سے سرفراز ہوا کرتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے
کہ سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اول بھی سیکھا اورعلم آخر بھی سیکھا اوروہ ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔ احادیث میں ان کے فضائل ومناقب بہت مذکورہیں۔ ابو نعیم نے فرمایا کہ ان کی عمر بہت زیادہ ہوئی ۔ بعض کا قول ہے تین سو پچاس برس کی عمرہوئی اوردوسو پچاس برس کی عمر پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے ۔ ۳۵ھ؁ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی۔
یہ مرض الموت میں تھے تو حضرت سعد اورحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان کی بیمار پرسی کے لیے گئے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ۔ ان حضرات نے رونے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ہم لوگوں کو وصیت کی تھی کہ تم لوگ دنیا میں اتنا ہی سامان رکھنا جتنا کہ ایک سوار مسافر اپنے ساتھ رکھتا ہے لیکن افسوس کہ میں اس مقدس وصیت پر عمل نہیں کرسکا کیونکہ میرے پاس اس سے کچھ زائد سامان ہے ۔
بعض مؤرخین نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا سال ۱۰ رجب ۳۳ھ؁ یا ۳۶ھ؁ تحریر کیا ہے ۔ مزار مبارک مدائن میں ہے جو زیارت گاہ خلائق ہے ۔ (1)
(ترمذی مناقب سلمان فارسی واکمال،ص۵۹۷وحاشیہ کنزالعمال،ج۱۶، ص۳۶ واسدالغابہ، ج۲، ص۳۲۸)

کرامات
ملک الموت نے سلام کیا

جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیاتو آپ نے اپنی بیوی صا حبہ سے فرمایا کہ تم نے جو تھوڑا سا مشک رکھا ہے اس کو پانی میں گھول کر میرے سر میں لگادو کیونکہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسی ہستیاں تشریف لانے والی ہیں جو نہ انسان ہیں اورنہ جن۔ ان کی بیوی صا حبہ کا بیان ہے کہ میں نے مشک کو پانی میں گھول کر ان کے سر میں لگا دیا اورمیں جیسے ہی مکان سے باہر نکلی گھر کے اندر سے آواز آئی : اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا وَلِیَّ اللہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا صَاحِبَ رَسُوْلِ اللہِ میں یہ آواز سن کر مکان کے اندر گئی تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح مطہرہ پروازکرچکی تھی اور وہ اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ گویا گہری نیند سورہے ہیں۔ (1) (شواہد النبوۃ،ص۲۲۱)

خواب میں اپنے انجام کی خبردینا

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ مجھ سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آئيے ہم اورآپ یہ عہد کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وصال کرے وہ خواب میں آکر اپنا حال دوسرے کو بتادے ۔ میں نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتاہے ؟تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں مؤمن کی روح آزاد رہتی ہے ۔ روئے زمین میں جہاں چاہے جاسکتی ہے ۔ اس کے بعد حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وصال ہوگیا۔
پھر میں ایک دن قیلولہ کر رہا تھاتو بالکل ہی اچانک حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ

عنہ میرے سامنے آگئے اوربلند آوازسے انہوں نے کہا: اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ، میں نے جواب میں:وَعَلَیْکُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ،کہااور ان سے دریافت کیا کہ کہے وصال کے بعد آپ پر کیا گزری ؟اورآپ کس مرتبہ پر ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں بہت ہی اچھے حال میں ہوں اورمیں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ خدا پر توکل کرتے رہیں کیونکہ توکل بہترین چیز ہے، تو کل بہترین چیز ہے،توکل بہترین چیز ہے۔ اس جملہ کو انہوں نے تین مرتبہ ارشادفرمایا۔(1)
(شواہدالنبوۃ،ص۲۲۱)

تبصرہ

اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خدا کے نیک بندوں کی روحیں اپنے گھر والوں یا احباب کے مکانوں پر جایا کرتی ہیں اوراپنے متعلقین کو ضروری ہدایات بھی دیتی رہتی ہیں اور یہ روحیں کبھی خواب میں اورکبھی عالم امثال میں اپنے مثالی جسموں کے ساتھ بیداری میں بھی اپنے متعلقین سے ملاقات کرکے ان کو ہدایات دیتی اور نصیحت فرماتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بہت سے بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے وفات کے بعد اپنے جسموں کے ساتھ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے متعلقین سے ملاقات کی نیز اپنے اور دوسروں کے حالات کے بارے میں بات کی ۔
چنانچہ مشہور روایت ہے کہ حضر ت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ روزانہ حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت خوا جہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قبر منور سے باہر تشریف لائے اور

حضرت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنی نسبت طریقت سے سرفراز فرما کر خلافت عطافرمائی ۔
چنانچہ شجرہ نقشبندیہ پڑھنے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت خوا جہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت خوا جہ بایزیدبسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ ہیں حالانکہ تاریخوں سے ثابت ہے کہ حضرت خوا جہ بایزیدبسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وفات کے تقریباً انتالیس برس بعد حضرت خوا جہ ابوالحسن خرقانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ خرقان میں پیدا ہوئے ۔

چرندو پرندتابع فرمان

ان کی مشہور کرامت یہ ہے کہ جنگل میں دوڑتے ہوئے ہرن کو بلایا تو وہ آپ کے پاس فوراً ہی حاضر ہوگیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ اڑتی ہوئی چڑیا کو آپ نے آواز دی تو وہ آپ کی آواز سن کر زمین پر اترپڑی۔ (تذکرۂ محمود)

فرشتہ سے گفتگو

سلم بن عطیہ اسدی کابیان ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسلمان کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے وہ جاں کنی کے عالم میں تھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے فرشتہ !تو اس کے ساتھ نرمی کر!راوی کہتے ہیں کہ اس مسلمان نے کہا کہ اے سلمان فارسی!(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہ فرشتہ آپ کے جواب میں کہتا ہے کہ میں تو ہر مؤمن کے ساتھ نرمی ہی اختیار کرتاہوں ۔(1)
(حلیۃ الاولیاء،ج۱،ص۲۰۴)

 

 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!