اعمال

آمین بِالسّر یعنی بلند آواز سے آمین کہنا

آمین بِالسّر یعنی بلند آواز سے آمین کہنا

(۱)’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِینُہُ تَأْمِینَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ إِذَا قَالَ الْإِمَامُ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ فَقُولُوا آمِینَ فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ ھَذَا لَفْظُ الْبُخَاري وَلِمُسْلمٍ نَحْوہ‘‘۔ (1)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لیے کہ جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہوگی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ۔ (بخاری، مسلم) اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب امام غَیْرِالْمَغضوبِ عَلَیھمِ ولا الضَّالِین کہے تو تم آمین کہو اس لیے کہ جس کا آمین کہنا فرشتوں کی آمین کہنے کے مطابق ہوگا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم میں بھی اسی کے مثل ہے ۔ ( مشکوۃ)
اس حدیث شریف سے دو باتیں واضح طور پر معلوم ہوئیں:
٭…اوّل یہ کہ مقتدی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس لیے کہ اگر مقتدی کو سورئہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ہوتا تو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں فرماتے کہ جب تم وَلَا الضَّآلِین کہو تو آمین کہو۔ معلوم ہوا کہ مقتدی صرف آمین کہے گا۔ وَلَا الضَّآلِین کہنا امام کا کام ہے ۔
٭…دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آمین آہستہ کہنا چاہیے کہ فرشتے بھی آہستہ آمین کہتے ہیں۔ اسی لیے ہم لوگ ان کے آمین کہنے کی آواز نہیں سُنتے ہیں۔ لہذا بلند آواز سے آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کی مخالفت

کرنا ہے ۔
کنزالدقائق اور بحرالرائق جلد اول، ص۳۱۳ میں ہے :
أَمَّنَ الْإِمَامُ وَالْمَأْمُومُ سِرًّا۔ (1)
یعنی امام اور مقتدی دونوں آہستہ آمین کہیں ۔
اور درمختار میں ہے :
أَمَّنَ الْإِمَامُ سِرًّا کَمَأْمُومٍ وَمُنْفَرِدٍ۔ (2)
یعنی امام آہستہ آمین کہے جیسے کہ مقتدی اور منفرد۔
٭…٭…٭…٭

________________________________
1 – ’’صحیح البخاری‘‘، کتاب الأذان، باب جھر الإمام بالتامین، الحدیث: ۷۸۲، ج۱، ص۲۷۵، ’’صحیح مسلم‘‘، کتاب الصلاۃ، باب التسمیع والتحمید والتامین، الحدیث: ۷۲۔ (۴۱۰)ص۲۱۷، ’’مشکاۃ المصابیح‘‘، کتاب الصلاۃ، باب القراء ۃ فی الصلاۃ، الفصل الأول، الحدیث: ۸۲۵، ج۱، ص۱۷۲.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!