اسلام
جامعہ نظامیہ کا علمی وادبی منظرنامہ
جامعہ نظامیہ کا
علمی وادبی منظرنامہ
بقلم : شاہ محمد فصیح الدین نظامی ،
مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد ،دکن
ادب کسی بھی قوم کی دینی فکری، ثقافتی اور سماجی زندگی کا پر تو ہوتا ہے۔ اعلیٰ ادب خواہ کسی بھی زبان کا ہو وہی ہے جو اپنی قوم کی زبان و ثقافت سے وابستہ رہ کر لسانی خوبیوں اور اسلوبی ندرتوں کے ساتھ قومی شعور کی واضح عکاسی کرتا ہو۔ برصغیر ہند پاک میں اسلامی تمدن کا سب سے بڑا مظہر اردو زبان رہی ہے۔ خصوصاً اس کے نثری اسلوب کی تشکیل میں علوم دینیہ کے حلقے سرگرم عمل رہے ہیں۔ اردو کے تشکیلی عہد کے ابواب کا مطالعہ بڑے تاریخی اور عمرانی پس منظر کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ موسس جامعہ نظامیہ مولانا الامام انوار اللہ فاروقی (1847تا 1917ء) اردو کے اسی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کو علم و ادب کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ متعدد موضوعات پر محیط آپ کی کتابوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا طرز بیان عالمانہ و صوفیانہ دائرہ میں رہتے ہوئے بھی ادبی رنگ اختیار کرگیا ہے۔ مجاہد اردو ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ (جن کی والدہ بشیر النساء بیگم فضیلت جنگ کی رشتہ دار تھیں) اپنی کتاب ’’داستانِ ادب حیدرآباد‘‘ میں لکھتے ہیں۔ پچاس سے زیادہ کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں اور چھپوائیں اردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ انورؔ تخلص کرتے تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ ’’شمیم الانوار‘‘ چھپ چکاہے اور دوسرے کا قلمی نسخہ ادارہ ادبیات اردو میں محفوظ ہے‘‘۔ سرسید خاں، شبلی نعمانی، حالیؔ، داغؔ دہلوی، امیرؔ مینائی، احمد رضا خاں رضاؔ، اقبال یار جنگ اقبالؔ، مظفر الدین معلیؔ، کشن پرشاد شادؔ، تمکینؔ کاظمی کے والد تجلیؔ آپ کے ہم عصر تھے۔ دور حاضر کے عظیم نقاد و معتبر ادیب ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ’’علامہ انوار اللہ انورؔ کے کلام میں کلاسیکی پختگی اور مشاقی قدم قدم پر نمایاں ہے، زبان نہایت ٹکسالی اور بامحاورہ ہے‘‘۔
ڈاکٹر عقیل ہاشمی صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی رقم طراز ہیں:
’’حضرت فضیلت جنگ رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتابیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ وہ اپنے لکھنے والے کے ارادے، عزم اور جذبہ اخلاص کی بھرپور غمازی کررہی ہیں۔ ان بیش بہا کتب کی تفصیلات کا جاننا مسلمانوں کی بہترین بیداری اور اتحاد کے لیے لازم ہے لیکن اس مرحلہ پر محض ان کتابوں کے نام ہی ان کی عظمت کو کافی ہے۔ جیسے رسالہ مقاصد الاسلام (گیارہ جلدیں)، انوار احمدی، حقیقۃ الفقہ دو جلدیں، الکلام المرفوع، رسالہ وحدت الوجود، کتاب العقل کے ساتھ افادۃ الافہام فی ازالتہ الاوہام (دو جلدیں) بطور خاص مسلمانوں کے حق میں نعمت غیر مترقبہ ہیں۔ ان کتابوں میں سے ہر ایک کتاب اپنے مسلک، معیار اور مضمون کی نوعیت سے حضرت انوار اللہ فاروقی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا شاہکار ہے۔ مقاصد الاسلام کی گیارہ جلدوں کے قطع نظر انوار احمدی میں میلاد، فضائل و آداب رسالت کو مدلل بیان کیا گیا ہے جب کہ حقیقتہ الفقہ، فقہاء کا منصب اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی عظیم شخصیت کا خاکہ اور افادۃ الافہام محض رد قادیانیت کے سلسلہ میں حرف آخر کی صورت ہے‘‘۔ (علامہ انوار اللہ فاروقی ایک عظیم شخصیت، مضمون تحریر کردہ 1995ء)
پروفیسر محمد اکبر الدین صدیقی تحریر کرتے ہیں:
’’فضیلت جنگ بہادر کی تمام زندگی علم و ادب اور مذہب کی خدمت و تبلیغ میں گزری۔ چوں کہ مولانا کا خاندانی تعلق ناندیڑ سے ہے اس لیے آپ کی ذات پر اہلیانِ ناندیڑ جس قدر بھی فخر کریں کم ہے۔
مولاناکی زندگی اور خدمات اور معلومات مذہبی وغیرہ ان معترضین کے لیے دندان شکن جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ناندیڑ بنجر و سنگلاخ زمین ہے اور اس سرزمین میں علم و ادب کا کوئی پودا پروان نہیں چڑھ سکتا‘‘۔ (تاریخ ناندیڑ دکن ص 85، مطبوعہ 1961ء ناشر ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد)
اس موضوع پر ڈاکٹر عبدالحمید اکبر (گلبرگہ) نے اپنے تحقیقی مقالہ ’’حضرت شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی، شخصیت علمی و ادبی کارنامے‘‘ جس پر پونہ یونیورسٹی نے 1995ء میں موصوف کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی ہے تفصیلی گفتگو کی ہے۔
اردو زبان و ادب کی خدمت اور فروغ و اشاعت کے لیے ’’مجلس اشاعت العلوم‘‘ کے نام سے ایک ادارہ 1911ء میں قائم کیا گیا۔ جامعہ نظامیہ کیمپس میں واقع اس مجلس سے اب تک 135 کتب منظر عام پر آکر مقبول عام اور متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں اکثر اردو زبان میں ہیں۔ تمکینؔ کاظمی کے بقول یہ ایک احسان عظیم علم و ادب پر مولانا انوار اللہ فاروقی کا ہے۔
’’کتب خانہ آصفیہ‘‘ کا شمار برصغیر کے مشہور کتب خانوں میں ہوتا ہے۔ کتب خانہ قائم کئے جانے کی تحریک بھی فضیلت جنگ مولانا انوار اللہ فاروقی نے فرمائی۔ ملا عبدالقیوم اور عمادالملک سید حسین بلگرامی کی تائید سے 1308ھ میں کتب خانہ آصفیہ قائم کیا گیا جس سے عوام علمی وادبی استفادہ کرتے ہیں۔1960ء سے اسٹیٹ سنٹرل لائبریری سے موسوم کیا گیا۔
’’دائرۃ المعارف‘‘ نے وہ کارنامے انجام دیئے ہیں کہ جس کی بناء پر ہندوستان کا نام دنیا کے جغرافیہ میں نمایاں ہوا ہے۔ مصر کے ممتاز اسکالر سید رشید رضا بھی اسے دیکھ کر متاثر ہوئے۔ 1891ء میں قائم کئے گئے اس تحقیقی ادارہ کے روز اول سے ہی آج تک فرزندانِ جامعہ نظامیہ خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔ یہ ادارہ بھی جامعہ نظامیہ کی ادبی و علمی خدمات کا مظہر و نشان بنا ہوا ہے۔ دائرہ کی پہلی مطبوعہ کتاب ’’کنزالعمال‘‘ ہے جس کو ہزاروں روپئے خرچ کرکے موسس جامعہ مدینہ منورہ سے 1307ھ میں نقل کرواکر اپنے ساتھ دکن لے آئے تھے، اس مخطوطہ کی آٹھ ضخیم جلدیں کتب خانہ جامعہ نظامیہ میں موجود ہیں۔
جامعہ نظامیہ کی ادبی خدمات کے دائرہ کو وسیع کرنے میں یہاں کے فرزندوں کے علاوہ مختلف اداروں انجمنوں کے قیام نے بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔
جامعہ نظامیہ کے علمی و ادبی ذوق کی پہچان کا ایک نام ’’مجلس احیاء المعارف النعمانیہ‘‘ ہے۔ علامہ ابوالوفاء افغانی اس ادارے کے روح رواں تھے۔ اس مجلس کے ذریعہ امام ابو یوسف کی ’’کتاب الاثار‘‘ کا پہلی مرتبہ دنیائے علم کو علم ہوا۔ مصر کے مشہور محقق علامہ زاہد الکوثری 1350 تا 1370ھ اس کے معاون اور رہنما اور شیخ رضوان محمد رضوان وکیل رہے۔ مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا یوسف بنوری اس کے رکن تھے۔ علمی دنیا کے تحقیقی سرمایہ میں اس ادارے نے کئی عمدہ کتابوں کا اضافہ کیا ہے۔ مولانا ابوبکر محمد الہاشمی (صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ 2007ء)کی سربراہی میں یہ ادارہ اپنے مقصد قیام کی تکمیل کررہا ہے۔
علمی دنیا کا وہ کونسا شخص ہے جو ڈاکٹر حمیداللہ سے واقف نہیں اردو، فارسی، عربی، انگریزی، فرانسیسی زبانوں میں آپ کی تحقیقات دانشوروں سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ حکومت سعودی عرب نے آپ کے فرانسیسی ترجمہ قرآن کو نہایت اہتمام سے لاکھوں کی تعداد میں شائع کیا ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ جامعہ نظامیہ کے سند یافتہ مولوی کامل ہیں۔
علم و ادب کا فروغ ابناء جامعہ نظامیہ کا محبوب مشن رہا ہے۔ ’’لجنۃ انوار المعارف‘‘ اس کی ایک بہترین مثال کہی جاسکتی ہے، اس ادارہ سے مختلف علوم و فنون کی 12کتب شائع ہوچکی ہیں۔ بعض کتب کو پہلی مرتبہ شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ جامعہ نظامیہ کے ممتاز فرزند مولانا حافظ عزیز بیگ نظامی مرحوم اس کے بانی مبانی ہیں۔
علوم کی توسیع و اشاعت میں ذریعہ تعلیم کی بنیادی اہمیت کے پیش نظر 1405ھ میں ایک علمی ادارہ ’’المعہد الدینی العربی‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس ادارہ کے بانی، جامعہ نظامیہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدخواجہ شریف قادری مدظلہ‘ ہیں جو علم حدیث میں دسترس رکھنے کے علاوہ عربی و اردو زبان کے بلند پایہ شاعر و ادیب بھی ہیں۔
جامعہ نظامیہ کے ابتدائی دور کی ادبی شخصیتوں میں حضرت مولانا مفتی محمد رکن الدینؒ ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔ آپ موسس جامعہ کے تلمیذ رشید اور بہترین ادبی صلاحیتوں کے حامل تھے۔ ہزاروں صفحات پر مشتمل آپ کے فتاویٰ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی مسائل کے بیان کرنے میں بھی آپ نے اردو زبان و ادب کی سلاست، فصاحت و بلاغت کو برقرار رکھا ہے۔ اس کے علاوہ موسس جامعہ کے حالات و کارناموں پر مشتمل کتاب ’’مطلع الانوار‘‘ بھی آپ کی عمدہ تحریر کا نمونہ ہے۔
مولانا مفتی سید مخدوم حسینیؒ کا نام جامعہ کی ادبی تاریخ میں ہمیشہ تابندہ رہے گا۔ آپ کی تصانیف اردوئے معلی کا بہترین نمونہ قرار دی جاسکتی ہیں۔ معروف مورخ و ادیب مولانا سید سلیمان ندوی بھی آپ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ آپ کی اکثر تصانیف اردو میں ہیں جن میں
مخدوم الاعجاز شرح مثنوی گلشن راز
برہان الدین
خادم مخدوم
مخدوم الانساب
خیر الارشاد
ضرورت المسلمین
مخدوم الکمال فی شان الجلال والجمال
کرامات محبوب سبحانی شامل ہیں۔
آپ اردو کے علاوہ عربی کے شاعر بھی تھے۔
’’انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘‘ کے مصنف پروفیسر مارگولیتھ نے 1912ء میں جب حیدرآباد کا دورہ کیا اور ایک مقام پر عربی زبان میں عمدہ تقریر کی، جامعہ نظامیہ کے استاد علامہ ابراہیم ادیبؔ رضویؒ نے نظم کی شکل میں جوابی تقریر فرمائی۔ مارگولیتھ آپ کی حاضر جوابی فی البدیہ شعر گوئی اور طلاقت لسانی و ادبی صلاحیت پر حیران رہ گیا۔ آپ نے ’’لامیۃ العرب‘‘ جیسی ادق کی کتاب کے مقابلہ میں ’’لامیۃ الدکن‘‘ لکھی۔ مشہور مصری محقق المی لطیفی نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’اگر میں حیدرآباد آکر مولانا سے نہ ملتا تو یہ سمجھتا کہ ہندوستان میں کوئی عربی زبان کا ادیب ہی نہیں ہے‘‘ آپ کی اردو اور عربی بیس تصانیف میں اکثر شائع ہوچکی ہیں آپ کے فرزند گرامی علامہ مولانا سید طاہر رضویؒ شیخ الشیوخ بھی بلند پایہ ادیب و شاعر تھے۔ آپ کی تصنیف ’’قصیدہ ہمزیہ‘‘ (عربی)عثمانیہ یونیورسٹی و جامعہ نظامیہ کے نصاب میں شامل ہے۔ 1995ء میں حج کے موقع پر آپ نے فی البدیہہ (عربی) اشعار تحریر کرکے دنیا بھر کے منتخب علماء کو حیرت میں ڈال دیا، آپ کے اردو مضامین کو ’’مقالات طاہر‘‘ کے نام سے راقم الحروف نے مرتب کیا جو بشمول حالات 250 صفحات پر مشتمل ہے۔ 1996ء میں ادبی خدمات پر آپ کو صدر جمہوریہ ایوارڈ دیا گیا۔
حضرت مفتی شیخ سالم بن صالح باحطابؒ کی کتابیں الدر الثمین و کتاب الوصیہ علمی و ادبی تاریخ کا بہترین ورثہ ہیں۔ مصر سے شائع ہونے کے بعد ہندوستان میں محب علم و ادب جناب عزان بن عود جابری کے زیر اہتمام جدید انداز میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہیں۔
جامعہ نظامیہ کے ادبی سفر کو آگے بڑھانے میں مولانا سید محمد شطاری ؒکا نام سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ انقلابی فکر و نظر کے حامل عالم تھے۔ اردو ادب میں آپ کو ملکہ حاصل تھا۔ تفسیر معجزات القرآن، مقسمات القرآن کے نام سے جدید انداز کی دو تفسیریں اردو میں تحریر کیں، فن تصوف میں ’’ہدایات الشیوخ‘‘ نامی کتاب لکھی جو علامہ فضیلت جنگ کے حسب الحکم شائع بھی ہوئی، حروف مقطعات اور خطبات جمعہ بھی آپ کی بہترین تصانیف شمار کی جاتی ہیں۔
مولانا ابوالخیر کنج نشین مرحوم کو جامعہ کے ادبی میدان کا شہسوار کہا جاسکتا ہے۔ کئی سال تک ماہنامہ ’’مجلہ نظامیہ‘‘ ان کی زیر ادارت شائع ہوتا رہا دیگر تصانیف میں
انسانی معاشرہ کے اسلامی اصول
آزاد ہندوستان
سراپائے مبارک
تاریخ دستور آصفی
سالنامہ نظامیہ
روح کی حقیقت
سیرت محمدی و دیگر کتب شامل ہیں۔
ان کے علاوہ جامعہ کے ادبی سرمایہ میں جن ابناء جامعہ نے بیش قیمت اضافہ کیا ان میں مولانا حکیم محمود صمدانی مرحوم کی مختلف موضوعات پر40کتب ہیں۔
مولانا مفتی محمد رحیم الدین ؒ مفتی صدارت العالیہ سرکار عالی کی
صفۃ الحج
دعوۃ الاخوان لاحیاء المعارف النعمان
فتاویٰ صدارت العالیہ(دو جلد)
مسئلہ فاتحہ
اور حضرت مولانا مفتی عبدالحمید ؒسابق شیخ الجامعہ کی تصانیف
مسلم پرسنل لا
اسلام میں زکوٰۃ کا نظام
امارت ملت اسلامیہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
معارفِ انوار(سوانح امام انوار اللہ فاروقیؒ)
خطبات حمیدیہ
ترجمہ کتاب الصیام (مذاہب اربعہ)
حضرت مولانا سید پاشاہ حسینی ؒکی ہزارہا صفحات پر مشتمل
تفسیر قادری فصاحت و بلاغت کا شاہکار کہی جاسکتی ہے۔
مولانا قاری عبدالباریؒ ،استاذ عربی جامعہ نظامیہ کا اردو ترجمہ و تفسیر قرآن اور ’’قرآنی اخلاق‘‘ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
مولانا سید نور اللہ قادری مرحوم کی تصانیف نے ایک تاریخ بنائی ہے۔ اسرار کلمہ، شاہ میر اولیاء کے بشمول آپ کے تقریباً 200 تراجم و تالیفات شائع ہوئیں۔
مولاناقاری عبدالکریم تسکینؔ ؒکی تعلیم التجوید(دوحصے) المقدمۃ الجزریۃ کا اردو ترجمہ بھی قابل دیدہے۔ آپ جامعہ کے فارغ التحصیل، منتظم و بہترین شاعر بھی تھے۔
پروفیسر مولانا سید عطاء اللہ حسینی ملتانی (پاکستان) جامعہ کے ایک بہترین ادیب و شاعر ہیں۔ آپ کی کئی تصانیف مقبول عام ہیں جن میں
نورالحقیقت
اسلام کی بنیادی تعلیمات
اسلامی نظام
صحن وحدت
معجم القرآن
شاہد الوجود
فتوح الغیب
تشریح تنزلات ستہ
موج خیال (مجموعہ کلام)شامل ہیں۔ صدر شعبہ معارف اسلامیہ گورنمنٹ کالج جامعہ ملیہ ملیر کراچی کے عہدہ پر فائز رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اکیڈیمک ایوارڈ دیا ہے۔
شیخ الحدیث مولانا حاجی محمد منیرالدین ؒجن کی شاندار خطابت سے ایک عرصہ تک تاریخی مکہ مسجد حیدرآباد کے محراب و منبر گونجتے رہے ، بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ مشہور مفکر بوعلی سینا کی حیات و خدمات پر ضخیم تحقیقی مقالہ، زجاجتہ المصابیح (مصنفہ حضرت محدث دکنؒ) کا ترجمہ، ابن نباتہ کے عربی خطبات حرمین المعظمین کا مکمل اردو ترجمہ آپ کے بہترین ادبی ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔
مولاناقاری محمد انصار علی قریشی جاویدؔؒ ایک بہترین ادیب و شاعر کی حیثیت سے جامعہ کی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔
جامعہ کے فرزند مولانا الطاف حسین فاروقی الطافؔ ؒ نے دائرۃ المعارف میں ایڈیٹر کی حیثیت سے یادگار خدمات انجام دیں۔ آپ بہترین خطیب، ادیب و شاعر تھے۔ آپ کا اردو و عربی کلام جامعہ کی ادبی تاریخ کا حصہ ہے۔ فنِ تجوید پر آپ کا ایک منظوم رسالہ ’’شمع تجوید‘‘ 1378ھ میں شائع ہوچکاہے۔
مولانا پروفیسر محمد سلطان محی الدین صاحب کی علمی شخصیت پر جامعہ کو ناز ہے، آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں، زبان و بیان پر آپ کو کمال حاصل ہے۔ عہد آصف جاہی میں عربی زبان و ادب کی خدمات پر ضخیم مقالہ آپ کی تحقیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا شاہ کار ہے۔ کئی ریسرچ اسکالرز نے آپ کے زیر نگرانی ایم فل و ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔ 1998ء میں حکومت ہند نے آپ کی علمی و ادبی خدمات پر صدر جمہوریہ ایوارڈ دیا۔
مولانا حبیب محمد الحسین ؒکی تصانیف حضور اکرم ﷺبحیثیت معلم انسانیت، کلمہ طیبہ، اعجاز القرآن، سیرت خلفاء راشدین کو بھی جامعہ کی ادبی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ،ادباء جامعہ میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔آپ کیتصنیف ’’انوار حج و عمرہ‘‘ کو ریاستی حکومت نے نہایت اہتمام سے شائع کیا۔ آپ کا حمدیہ نعتیہ منقبتی کلام زیر اشاعت ہے۔ مولانا شمس الدین زماںؔ اپنے پاکیزہ کلام کے ذریعہ ایوان ادب کو زینت دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سید تنویر الدین خدانمائی کی تصنیف ’’قواعد فارسی‘‘ کو ماہرین علم و ادب نے منفرد کتاب قرار دیا ہے۔ مولانا سید عزیز اللہ قادری کی تصنیف ’’انوار معارف احمد المرتضیٰ‘‘ اور ذخیرۃ العقبی اردو ترجمہ الوسیلۃ العظمیٰ شائع ہوچکے ہیں۔
مولانا ڈاکٹر سید جہانگیر ، مدیر الحراء کی تصنیف انوار العربیہ التطبیقیۃ کو ماہرین تعلیم نے سراہا اور رابطہ عالم اسلامی سعودی عرب کے ڈاکٹر حسن بن علی الاہدل نے آپ کے تحقیقی مقالہ پر تحریری مبارکباد دی، آپ کی دیگر تصانیف و منظوم عربی کلام بھی قابل دید ہے۔
مولانا سید عبدالرشیدقادری چشتی سرزمین گلبرگہ میں علمی و ادبی و تحریری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، آپ کو مختلف سمیناروں میں مقالات پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔تصوف کی حقیقت و ماہیت کے موضوع پر ایک جامع تصنیف کے علاوہ آپ کے خطبات عنقریب منظر عام پر آنے کو ہیں۔
مولاناسیدشاہ یوسف حسینی نظامی، مدیر ماہنامہ انوار جلالیہ (گوگی شریف) کی ادبی خدمات کا تسلسل جاری ہے۔ ’’مثنوی رخ چندا‘‘کے علاوہ آپ کی دیگر نثری و شعری تصانیف قابل قدر اور لائق مطالعہ ہیں۔
مولاناڈاکٹر سید بدیع الدین صابری اردو شعر و ادب کا ذوق لطیف رکھتے ہیں۔ سالنامہ’’ التنویر‘‘ شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی، مجلہ انوار نظامیہ‘ جامعہ نظامیہ کے علاوہ مختلف رسالوں اور اخبارات میں آپ کے تحقیقی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ عربی کے ادیب و شاعر بھی ہیں۔کئی قومی و بین الاقوامی سمینارز میں آپ نے مقالے پیش کئے۔ التصریف الواضح (دوحصے) آپ کی گرانقدر تصنیف ہے۔ بحیثیت صدر شعبہ عربی عثمانیہ یونیورسٹی آپ علمی و ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مولانا شیخ محمد عبدالغفور کی اردو زبان میں مختلف موضوعات پر دس تصنیفات و تالیفات شائع و مقبول ہوچکی ہیں، ان کے علاوہ دیگر فرزندان نظامیہ بھی ادبی میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ کی تصنیف تصرف خیر المرسلین کے علاوہ دیگر کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ نیز مولانا محمد قاسم صدیقی تسخیروفاؔ، مولانا ابو زاہد سید وحید اللہ حسینی ملتانی،مولانا محمد لطیف احمد، مولانا محمد عبدالحسیب نظامی قادری الموسوی، مولانا اسرار احمد نظامی، مولانا آصف نظامی، مولانا حافظ محمد جواد صدیقی، مولانا محمد حنیف قادری، مولانا حبیب احمد الحسینی، مولانا موسیٰ بن عبدالرحیم ، مولانا عبدالرشید جنید (سعودی عرب) اورمولانا محمد انوار احمد نظامی کی ادبی کاوشیں بھی قابل قدر و لائق صد تحسین ہیں۔
ززز