اسلام
تقویٰ کے معانی اور ان کی پہچان
الف: جب ”تقویٰ” کی نسبت رب کی طر ف ہو تو اس سے مراد ڈرنا ہوگا۔
ب:جب” تقویٰ” کی نسبت آگ یا کفر یا گناہ کی طرف ہو تو اس سے مراد بچنا ہوگا ۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ
اے لوگو ! ڈرو اپنے اس رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا۔(پ4،النسآء:1)
(2) فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ
او ربچو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔(پ1،البقرۃ:24)
پہلے”اِتَّقُوْا”کے معنی ڈرنا ہے کیونکہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور دوسرے”اِتَّقُوْا” کے معنی بچنا ہے کیونکہ اس کے بعد آگ کا ذکر ہے ۔