اسلام

حقیقتِ کفر

     جیسے کہ صدہاچیزوں کے ماننے کا نام ایمان تھا لیکن ان سب کا مدار صرف ایک چیز پر تھا یعنی پیغمبر کوماننا کہ جس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کما حقہ مان لیا ۔ اس نے سب کچھ مان لیا ۔ اسی طر ح کفر کا مدار صرف ایک چیز پر ہے یعنی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاانکار، ان کی عظمت کا انکار ، ان کی شان اعلی کا انکار ، اصل کفر تو یہ ہے باقی تمام اس کی شاخیں ہیں مثلا جورب کی ذات یا صفات کاانکار کرتا ہے وہ بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے کہ حضور نے فرمایا : اللہ ایک ہے۔ یہ کہتا ہے کہ دو ہیں۔اسی طر ح نماز، رو زہ وغیرہ کسی ایک کا انکار درحقیقت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا  انکار ہے کہ وہ سر کار فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں فرض ہیں۔وہ کہتا ہے کہ نہیں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ادنی توہین ،ان کی کسی شے کی توہین، قرآنی فتوے سے کفر ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) وَیَقُوۡلُوۡنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّیُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۵۰﴾ۙ ۙاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوۡنَ حَقًّا
اور وہ کفار کہتے ہیں کہ ہم پیغمبر وں پر ایمان لائینگے اور بعض کا انکار کریں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان وکفر کے بیچ میں کوئی راہ نکالیں یہی لوگ یقینا کا فر ہیں(پ6،النسآء:150۔151)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(2) وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾
کافروں ہی کے لئے درد ناک عذاب ہے۔(پ1،البقرۃ:104)
(3) وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۱﴾
اور جو لوگ رسول اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان ہی کے لئے دردناک عذاب ہے ۔(پ10،التوبۃ:61)
    یعنی صرف کافر کو دردناک عذاب ہے اور صرف اسے درد ناک عذاب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دے ۔لہٰذا پتا لگا کہ صرف وہ ہی کافر ہے جو رسول کو ایذادے اور جو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمت واحترام ، خدمت ، اطاعت کرے وہ سچا مومن ہے ۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَہَاجَرُوۡا وَجٰہَدُوۡا فِی سَبِیۡلِ اللہِ وَالَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾
اورجوایمان لائے اورانہوں نے ہجرت کی اوراللہ کی راہ میں جہادکیااوروہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔(پ10،الانفال:74)
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
اَلَمْ یَعْلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیۡمُ ﴿۶۳﴾
کیا انہیں خبر نہیں کہ جو مخالفت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے ہمیشہ اس میں رہے گا ۔ یہ بڑی رسوائی ہے ۔
    بلکہ جس اچھے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطا عت کا لحاظ نہ ہو بلکہ ان کی مخالفت ہو وہ کفر بن جاتا ہے اور جس برے کام میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہو وہ ایمان بن جاتا ہے مسجد بنانا اچھا کام ہے لیکن منافقین نے جب مسجد ضرار حضور کی مخالفت کرنے کی نیت سے بنائی توقرآن نے اسے کفر قرار دیا ہے۔ فرماتا ہے :
وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیۡقًۢا بَیۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوۡلَہٗ مِنۡ قَبْلُ ؕ
اور وہ لوگ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچا نے اور کفر کیلئے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور رسول کا مخالف ہے۔(پ11،التوبۃ:107)
    نماز توڑنا گناہ ہے لیکن حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بلانے پر نماز توڑنا گناہ نہیں ہے بلکہ عبادت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیۡبُوۡا لِلہِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحْیِیۡکُمْ
اے ایمان والو اللہ رسول کا بلاوا قبول کروجب وہ تمہیں بلائیں اس لئے کہ وہ تمہیں زندگی بخشتے ہیں۔(پ9،الانفال:24)
    اسی لئے حضو رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر اونچی آواز کرنے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ادنیٰ گستاخی کرنے کو قرآن نے کفر قرار دیا جس کی آیات ایمان کی بحث میں گز ر چکیں۔ شیطان کے پاس عبادات کافی تھیں مگر جب اس نے آدم علیہ السلام کے متعلق کہا کہ
قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنْہُ ؕ خَلَقْتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۶﴾قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿۷۷﴾
میں ان سے اچھا ہوں کہ تو نے مجھے آگ سے اور انہیں مٹی سے پیدا کیا رب نے فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہوگیا۔ (پ23،ص:76۔77)
تو فورا کافر ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام کے جادو گر وں نے موسیٰ علیہ السلام کا ادب کیا کہ جادو کرنے سے پہلے عرض کیا


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحْنُ الْمُلْقِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾
عرض کیا کہ اے موسی یا پہلے آپ ڈالیں یا ہم ڈالنے والے ہوں ۔(پ9،الاعراف:115)
    اس اجازت لینے کے ادب کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ایک دن میں ایمان ،کلیم اللہ کی صحابیت ، تقویٰ ، صبر ، شہادت نصیب ہوئی۔رب نے فرمایا :
فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾
جادو گر سجدے میں گرادیئے گئے ۔(پ19،الشعرآء:46)
    یعنی خود سجدے میں نہیں گرے بلکہ رب کی طر ف سے ڈال دیئے گئے۔ کافر کے دل میں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ادب آجائے توان شاء اللہ مومن ہوجائے گا ۔ اگر مومن کو بے ادبی کی بیماری ہوجائے تو اس کے ایمان چھوٹ جانے کاخطرہ ہے۔
یوسف علیہ السلام کے بھائی قصور مند تھے مگر بے ادب نہ تھے آخر بخش دیئے گئے ۔ قابیل یعنی آدم علیہ السلام کا بیٹا جرم کے ساتھ نبی کا گستاخ بھی تھالہٰذا خاتمہ خراب ہو ا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!