اسلام
وفود العرب
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے تمام اطراف و اکناف میں مبلغین اسلام اور عاملین و مجاہدین کو بھیجا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض قبائل تو مبلغین کے سامنے ہی دعوتِ اسلام قبول کرکے مسلمان ہو جاتے تھے مگر بعض قبائل اس بات کے خواہش مند ہوتے تھے کہ براہِ راست خود بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے اسلام کا اعلان کریں۔ چنانچہ کچھ لوگ اپنے اپنے قبیلوں کے نمائندہ بن کر مدینہ منورہ آتے تھے اور خود بانی اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبانِ فیض ترجمان سے دعوتِ اسلام کا پیغام سن کر اپنے اسلام کا اعلان کرتے تھے اور پھراپنے اپنے قبیلوں میں واپس جا کر پورے قبیلہ والوں کو مشرف بہ اسلام کرتے تھے۔ انہی قبائل کے نمائندوں کو ہم ”وفودالعرب” کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔
اس قسم کے وفود اور نمائندگان قبائل مختلف زمانوں میں مدینہ منورہ آتے رہے مگر فتح مکہ کے بعد ناگہاں سارے عرب کے خیالات میں ایک عظیم تغیر واقع ہوگیا اور سب لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے لگے کیونکہ اسلام کی حقانیت واضح اور ظاہر ہوجانے کے باوجود بہت سے قبائل محض قریش کے دباؤ اور اہل مکہ کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کرسکتے تھے۔ فتح مکہ نے اس رکاوٹ کو بھی دور کردیا اور اب دعوتِ اسلام اور قرآن کے مقدس پیغام نے گھر گھر پہنچ کر اپنی حقانیت اور اعجازی تصرفات سے سب
کے قلوب پر سکہ بٹھا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ایک لمحہ کے لئے اسلام کا نام سننا اور مسلمانوں کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کرسکتے تھے آج پروانوں کی طرح شمع نبوت پر نثار ہونے لگے اور جوق در جوق بلکہ فوج در فوج حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں دور و دراز کے سفر طے کرتے ہوئے وفود کی شکل میں آنے لگے اور برضاورغبت اسلام کے حلقہ بگوش بننے لگے چونکہ اس قسم کے وفود اکثر و بیشتر فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں مدینہ منورہ آئے اس لئے ۹ ھ کو لوگ ”سنۃ الوفود”(نمائندہ کا سال) کہنے لگے۔
اس قسم کے وفود کی تعداد میں مصنفین سیرت کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے ان وفود کی تعداد ساٹھ سے زیادہ بتائی ہے۔(1)(مدارج ج ۲ ص ۳۵۸)
اور علامہ قسطلانی و حافظ ابن قیم نے اس قسم کے چودہ وفدوں کا تذکرہ کیا ہے ہم بھی اپنی اس مختصر کتاب میں چند وفود کا تذکرہ کرتے ہیں۔