اسلام
حمد و نعت میںلفظ ’’عشق‘‘ کا استعمال
تنویرپھولؔ۔نیویارک امریکہ
حمد و نعت میںلفظ ’’عشق‘‘ کا استعمال
مذکورہ بالا موضوع پر کچھ لوگوںکی تحریریںاس کی مخالفت میںنظرسے گزرتی رہی ہیں۔یہاںاس امر کو ملحوظ رکھناضروری ہے کہ حدیث رسول ﷺکے مطابق ’اعمال کادارومدارنیتوںپرہے‘ حضرت موسیٰ ؑاور ایک چرواہے کا واقعہ سبھی کو معلوم ہوگا۔جولوگ لفظ’عشق‘ کوبُرا سمجھتے ہیںوہ اسے استعمال نہ کریںمگر جو اسے استعمال کرتے ہیںان کی مراد اس لفظسے ’بے انتہامحبت‘ ہے۔قرآن پاک میںارشاد ہے’مومنین اللہ کی محبت میںشدت رکھتے ہیں‘ (سورۃالبقرہ آیت نمبر ۱۶۵)۔محبت میںاسی شدت کے لئے ہمارے اکابرین نے عشق کالفظ استعمال کیاہے،مثال کے طور پر شاعر مشرق علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
بے خطر کودپڑا آتش نمرود میںعشق
عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی
اقبالؔ !کس کے عشق کایہ فیض عام ہے ؟
رومی فنا ہُوا ، حَبَشی کو دوام ہے !
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کااِک بہانہ بنی
۔ بے زیارت سوئے بیت اللہ پھِرجائوںگاکیا؟
عاشقوں کو روزمحشر منہ نہ دکھلائوں گا کیا؟
عشق کادل بھی وہی،حُسن کاجادو بھی وہی
ملت احمدمرسلﷺبھی وہی ، توبھی وہی
عشق کی،عشق کی آشفتہ سری کوچھوڑا ؟
رسم سلمان ؓ و اویس قَرَنی ؓ کوچھوڑا ؟
تلخابہء اجل میںجوعاشق کومل گیا
پایانہ خضر نے مئے عمردراز میں
اوروں کو دیںحضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتاہوں زمینِ حجاز میں
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدﷺسے اجالاکردے
گرمیء مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیںبلالیؓ دنیا
(منقبت صدیق اکبرؓ )
اتنے میںوہ رفیق نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق ومحبت ہے استوار
بولے حضورﷺچاہئے فکرِعیال بھی
کہنے لگاوہ عشق ومحبت کارازدار
کبھی سرمایہء محراب ومنبر
کبھی مولاعلیؓ خیبرشکن عشق
صدق خلیل ؑ بھی ہے عشق،صبرِ حسین ؓ بھی ہے عشق
معرکہء وجودمیں بدر و حنین بھی ہے عشق
عشق دَمِ جبرئیل ؑ ، عشق دلِ مصطفی ﷺ
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
کمالِ عشق ومستی ظرفِ حیدر
زوالِ عشق ومستی حرفِ رازی
بولا امیر فوج کہ وہ نوجواںہے تو
پیروںپہ تیرے عشق کالازم ہے احترام
پوری کرے خدائے محمدﷺتری مراد
کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام!
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
لفظ ’’ عشق‘‘ فارسی اور اردو میں عام طور پر اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے مثال کے طور پر لفظ ’’ رقیب‘‘ کو دیکھئے ، عربی میں یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جس کا مطلب ہے ’’نگہبان،محافظ‘‘ لیکن ہماری غزلوںمیںیہ لفظ جس معنی میںاستعمال ہوتا ہے اسے سب جانتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لفظ کس کے لئےاور کس تناظر میںاستعمال ہو رہا ہے ؟ لفظ ’’کفر‘‘ برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن جب قرآن طاغوت کا ذکر کرتا ہے تو یہی لفظ مستحسن قرار پاتاہے (دیکھئے سورۃ البقرہ ،آیت نمبر ۲۵۶)۔ حرمتِ کعبہ اور حرمتِ دَم (بہتا ہُوا خون) دونوں کے مفہوم میںکتنا فرق ہے جبکہ لفظ ایک ہی ہے۔عربی لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنی مالک اور آقا ہیں لیکن یہ ’’آزاد کئے ہوئے غلام ‘‘کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے،اس کی جمع ’’موالی‘‘ ہے۔ اردو اور ہندی میں لفظ’’لاگ‘‘ نسبت اور محبت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب عداوت اور دشمنی بھی ہے۔اکثر الفاظ میں تذکیر و تانیث کا بھی فرق ہے مثال کے طور پر عربی میں کلمہ مونث ہے جبکہ اردو میں مذکر۔ مجھے یاد آیا کہ مفتی محمد شفیع صاحب کے دارالعلوم میںمولانا عاشق الٰہی تھے ، میرے ایک مرحوم ساتھی کا نام عاشق علی تھا اور لوگ عاشق حسین بھی نام رکھتے ہیں، یہ سب ’’عشق‘‘ اور ’’عاشق‘‘ کو اچھے تناظر میںدیکھنے کی مثالیں ہیں۔درود تاج میں حضورﷺ کے لئے ’’ راحت العاشقین ‘‘ کا لقب موجود ہے اور مشہور صوفی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی کتاب کانام ـ’’ معراج العاشقین ‘‘ ہے جو حضور ﷺ کے بارے میںہے ۔نعت میں’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘ استعمال کرنے پر بھی اعتراض ہوتا ہے، یہاں بھی وہی نیت والی بات ہے ۔شمس تبریزی ،علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے یہ اشعار دیکھئے۔
شمس تبریزی چہ داند نعت تو پیغمبرا ﷺ!
مصطفی ﷺ و مجتبیٰ ﷺ و سیدِ اعلیٰ توئی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
پھوٹا جو سینہء شب تار الست سے
اُس نور اولیں کا اجالا تمھیں تو ہو
حمد و نعت میںلفظ ’’عشق‘‘ کا استعمال
مذکورہ بالا موضوع پر کچھ لوگوںکی تحریریںاس کی مخالفت میںنظرسے گزرتی رہی ہیں۔یہاںاس امر کو ملحوظ رکھناضروری ہے کہ حدیث رسول ﷺکے مطابق ’اعمال کادارومدارنیتوںپرہے‘ حضرت موسیٰ ؑاور ایک چرواہے کا واقعہ سبھی کو معلوم ہوگا۔جولوگ لفظ’عشق‘ کوبُرا سمجھتے ہیںوہ اسے استعمال نہ کریںمگر جو اسے استعمال کرتے ہیںان کی مراد اس لفظسے ’بے انتہامحبت‘ ہے۔قرآن پاک میںارشاد ہے’مومنین اللہ کی محبت میںشدت رکھتے ہیں‘ (سورۃالبقرہ آیت نمبر ۱۶۵)۔محبت میںاسی شدت کے لئے ہمارے اکابرین نے عشق کالفظ استعمال کیاہے،مثال کے طور پر شاعر مشرق علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
بے خطر کودپڑا آتش نمرود میںعشق
عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی
اقبالؔ !کس کے عشق کایہ فیض عام ہے ؟
رومی فنا ہُوا ، حَبَشی کو دوام ہے !
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کااِک بہانہ بنی
۔ بے زیارت سوئے بیت اللہ پھِرجائوںگاکیا؟
عاشقوں کو روزمحشر منہ نہ دکھلائوں گا کیا؟
عشق کادل بھی وہی،حُسن کاجادو بھی وہی
ملت احمدمرسلﷺبھی وہی ، توبھی وہی
عشق کی،عشق کی آشفتہ سری کوچھوڑا ؟
رسم سلمان ؓ و اویس قَرَنی ؓ کوچھوڑا ؟
تلخابہء اجل میںجوعاشق کومل گیا
پایانہ خضر نے مئے عمردراز میں
اوروں کو دیںحضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتاہوں زمینِ حجاز میں
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدﷺسے اجالاکردے
گرمیء مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیںبلالیؓ دنیا
(منقبت صدیق اکبرؓ )
اتنے میںوہ رفیق نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق ومحبت ہے استوار
بولے حضورﷺچاہئے فکرِعیال بھی
کہنے لگاوہ عشق ومحبت کارازدار
کبھی سرمایہء محراب ومنبر
کبھی مولاعلیؓ خیبرشکن عشق
صدق خلیل ؑ بھی ہے عشق،صبرِ حسین ؓ بھی ہے عشق
معرکہء وجودمیں بدر و حنین بھی ہے عشق
عشق دَمِ جبرئیل ؑ ، عشق دلِ مصطفی ﷺ
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
کمالِ عشق ومستی ظرفِ حیدر
زوالِ عشق ومستی حرفِ رازی
بولا امیر فوج کہ وہ نوجواںہے تو
پیروںپہ تیرے عشق کالازم ہے احترام
پوری کرے خدائے محمدﷺتری مراد
کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام!
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
لفظ ’’ عشق‘‘ فارسی اور اردو میں عام طور پر اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے مثال کے طور پر لفظ ’’ رقیب‘‘ کو دیکھئے ، عربی میں یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جس کا مطلب ہے ’’نگہبان،محافظ‘‘ لیکن ہماری غزلوںمیںیہ لفظ جس معنی میںاستعمال ہوتا ہے اسے سب جانتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ لفظ کس کے لئےاور کس تناظر میںاستعمال ہو رہا ہے ؟ لفظ ’’کفر‘‘ برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن جب قرآن طاغوت کا ذکر کرتا ہے تو یہی لفظ مستحسن قرار پاتاہے (دیکھئے سورۃ البقرہ ،آیت نمبر ۲۵۶)۔ حرمتِ کعبہ اور حرمتِ دَم (بہتا ہُوا خون) دونوں کے مفہوم میںکتنا فرق ہے جبکہ لفظ ایک ہی ہے۔عربی لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معنی مالک اور آقا ہیں لیکن یہ ’’آزاد کئے ہوئے غلام ‘‘کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے،اس کی جمع ’’موالی‘‘ ہے۔ اردو اور ہندی میں لفظ’’لاگ‘‘ نسبت اور محبت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب عداوت اور دشمنی بھی ہے۔اکثر الفاظ میں تذکیر و تانیث کا بھی فرق ہے مثال کے طور پر عربی میں کلمہ مونث ہے جبکہ اردو میں مذکر۔ مجھے یاد آیا کہ مفتی محمد شفیع صاحب کے دارالعلوم میںمولانا عاشق الٰہی تھے ، میرے ایک مرحوم ساتھی کا نام عاشق علی تھا اور لوگ عاشق حسین بھی نام رکھتے ہیں، یہ سب ’’عشق‘‘ اور ’’عاشق‘‘ کو اچھے تناظر میںدیکھنے کی مثالیں ہیں۔درود تاج میں حضورﷺ کے لئے ’’ راحت العاشقین ‘‘ کا لقب موجود ہے اور مشہور صوفی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی کتاب کانام ـ’’ معراج العاشقین ‘‘ ہے جو حضور ﷺ کے بارے میںہے ۔نعت میں’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘ استعمال کرنے پر بھی اعتراض ہوتا ہے، یہاں بھی وہی نیت والی بات ہے ۔شمس تبریزی ،علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے یہ اشعار دیکھئے۔
شمس تبریزی چہ داند نعت تو پیغمبرا ﷺ!
مصطفی ﷺ و مجتبیٰ ﷺ و سیدِ اعلیٰ توئی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
پھوٹا جو سینہء شب تار الست سے
اُس نور اولیں کا اجالا تمھیں تو ہو