اسلام
بیوہ عورتوں کا نکاح
مسلمانوں میں ہندوؤں کے میل جول سے جہاں بہت سی بیہودہ رسموں کا رواج اور چلن ہوگیا ہے ان میں سے ایک رسم یہ بھی ہے کہ بیوہ عورت کے نکاح کو برا اور عار سمجھتے ہیں اور خاص کر اپنے کو شریف کہلانے والے مسلمان اس بلا میں بہت زیادہ گرفتار ہیں حالانکہ شرعاً اور عقلاً جیسا پہلا نکاح ویسا دوسرا ان دونوں میں فرق سمجھنا انتہائی حماقت اور بے وقوفی بلکہ شرمناک جہالت ہے عورتوں کی ایسی بری عادت ہے کہ خود دوسرا نکاح کرنا یا دوسروں کو اس کی رغبت دلانا تو درکنار اگر کوئی اﷲ کی بندی اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کو اپنے سر اور آنکھوں پر لے کر دوسرا نکاح کر لیتی ہے تو وہ عمر بھر حقارت کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور عورتیں بات بات پر اس کو طعنہ دے کر ذلیل کرتی ہیں یاد رکھو کہ دوسرا نکاح کرنے والی عورتوں کو حقیر و ذلیل سمجھنا اور نکاح ثانی کو برا جاننا یہ بہت بڑا گناہ ہے بلکہ اس کو عیب سمجھنے میں کفر کا خوف ہے کیونکہ شریعت کے کسی حکم کو عیب سمجھنا اور اس کے کرنے والے کو ذلیل جاننا کفر ہے کون نہیں جانتا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی جتنی بیبیاں تھیں حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کے سوا کوئی کنواری نہ تھیں ایک ایک دو دو نکاح ان کے پہلے ہو چکے تھے تو کیا نعوذ باﷲ کوئی ان امت کی ماؤں کو ذلیل یا بر اکہہ سکتا ہے؟ توبہ نعوذباﷲ بہر حال یاد رکھو کہ بیوہ عورتوں سے نکاح یہ رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی کسی چھوڑی ہوئی اور مردہ سنت کو زندہ اور جاری کرے اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا لہٰذا مسلمان مردوں اور عورتوں پر واجب ہے کہ اس بیہودہ رسم کو دنیا سے مٹا دیں اور اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خوشنودی کے لئے بیوہ عورتوں کا نکاح ضرور کردیں اور ان بیچاری دکھیاری اﷲ کی بندیوں کو بیکسی اور تباہی و بربادی سے بچاکر ایک سو شہیدوں کا ثواب حاصل کریں اور بیوہ عورتوں کو بھی لازم ہے کہ اﷲعزوجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کو اپنے سر اور آنکھوں پر رکھتے ہوئے بغیر کسی شرم اور عار کے خوشی خوشی دوسرا نکاح کر لیں اور سو شہیدوں کے ثواب کی حق دار بن جائیں اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ۔
وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَ اِمَائِکُمْ۔
اور نکاح کر دو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور کنیزوں کا۔(پ 18،النور:32)
اور حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔
من تمسک بسنّتی عند فساد امّتی فلہٗ اجر مائۃ شھیدٍ۔
(الترغیب والترہیب،الترغیب فی اتباع الکتاب والسنۃ،رقم ۵،ج۱،ص۴۱)
یعنی میری امت میں فساد پھیل جانے کے وقت جو شخص مضبوطی کے ساتھ میری سنت پر عمل کرے اس کو ایک سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
اس حدیث کو امام بیہقی علیہ الرحمۃ نے بھی ”کتاب الزہد” میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے۔