اسلام

عصرحاضر کے تعلیمی اداروں کا جائزہ فکر شیخ الاسلام کی روشنی میں

عصرحاضر کے تعلیمی اداروں کا جائزہ 
فکر شیخ الاسلام کی روشنی میں  

مولانانعیم الدین اشرفی (ایم اے)

سکر یٹری مدنی فاؤنڈیشن ہبلی مذہب اسلام میں جس قدر علم کی اہمیت بیان کی گئی ہے دنیا کے کسی او مذہب میں نہیں ملتی ۔اس بات کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں متعدد جگہ علم کی اہمیت و فضیلت بتائی گئی ہے۔ سورئہ مجادلہ آیت نمبر ۱۱ میں ہے۔ یَرفَعِ اللہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَ الَّذِینَ اُوتُو العِلمَ دَرَجٰت ۔اس آیت کریمہ کی تفسیر یہ ہے کہ "بلند فرمادے گااللہ تعالی انہیں جو ایمان لائے تم میں سے ،اور بلند فرمادےگا انہیں جو دیے گئے علم درجوں ایمان کے ساتھ۔ان مومنوں کے درجوں پر جوبے علم ہوتے۔اس واسطے کہ مومن عالم افضل ہے مومن بے علم سے”۔(تفسیر اشرفی جلد ۱۰ صفحہ ۲۳)
رہتا ہے نام علم سے زندہ ہمیشہ داغؔ 
اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت
اسلام میںعلم کی تقسیم نہیں ہے کہ یہ دینی علم ہے اور وہ دنیوی علم۔ہر وہ علم جو انسانی ضرورت و شرعی قانون کے دائرہ میں ہو وہ دینی کہلائے گی۔اس بات کاایک ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کاغذ کا ایجاد کیا اور تاریخ کو سمجھنے کے قواعد بیان کیے۔اس سے دنیا کے تمام مذاہب نے فائدہ اٹھایا۔
علم و قلم کی اہمیت قرآن پاک میں یوں بیان ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن کی سب سے پہلی آیت علم و قلم کے احکام کے بارے میں نازل فرمائی۔اقرا باسم ربک الذی خلق ۔سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیات اس بات کے شاہد ہیں۔ان آیات میں زبانی و تحریری دونوں علوم کا ثبوت ہے۔
عہد رسالت ہی سے ان دونوں طریقوں کا آغاز ہو چکا تھا،صحابئہ کرام قرآن و حدیث کو حفظ کر لیا کرتے تھےاور بسا اوقات چمڑوں پر،ہڈیوں پر،پتھرو ں وغیرہ پر لکھ لیا کر تے تھے۔اس طرح علم کی اشاعت و حفاظت ہوتی رہی۔صحابہ کرام کے بعد تابعین و تبع تابعین کے ساتھ ساتھ بہت سے حکمرانوں نے بھی اس طرف رغبت کی اور تعلیمی ادارے قائم کروائے۔  حضور ﷺ کے زمانہ میںمقام اصحاب صفہ جو کہ اس عہد کاپہلا تعلیمی مرکز (یونیور سٹی ) قرار دیا گیا ، اسی  مقام و شہرمدینہ شریف سے علم کا چراغ روشن ہوا،بعد میں کوفہ،بصرہ ،بغداد علمی مراکز کی شکل میں دنیائے اسلام میں گنے جانے لگے۔
   ملک ہندوستان میں سلطان محمد غوری نے اجمیر شریف میں ،سلطان شمس الدین التمش اور فیروز شاہ تغلق نے دہلی میں مدارس قائم کیے۔مغلیہ سلطنت کے دوران بھی درس و تدریس کا سلسلہ چلتا رہا۔فتح اللہ شیرازی،حکیم ابو الفتح جیلانی ،قاضی سید نوراللہ ان حضرات نے عہد مغلیہ میںنئی تعلیمی پالیسی اور مدرسوں کے لیے نصاب کا انتخاب کیا۔ان مدارس میں مذہبی و دینی علوم کے ساتھ ساتھ علم ریاضی ،علم جغرافیہ،علم فلکیات،علم طبعیات و علم طب وغیرہ سکھائے جاتے تھے۔کیونکہ سلطنت کے نظم و ضبط کے لیےافسران کوان علوم کا جاننا ضروری ہے۔
جب ہندوستان پر انگریزی اقتدار قائم ہوگیا تو انہوں نے مسلمانوں کے مذہبی،علمی،اقتصادی اور فکری وجاہت کو ختم کرنے کے لیے انہیں سرے سے تعلیم یا عصری تعلیم سے روکنے کی کوشش نہیں کی ،بلکہ مذہبی تعلیم پر پابندی عائد کی اور علم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ایک دینی علم دوسرا دنیوی علم ۔یہی وجہ تھی کہ ۱۸۵۷ ؁ ء کے بعد ہندوستان میں ایک ساتھ دو تعلیمی تحریکیں اٹھیں ،ایک عصری دوسری دینی و مذہبی۔
۱۹۴۷؁ء میں ہندوستان کی آزادی کے بعد علمی نقطئہ نظر سے بہت برا اثر پڑا وہ یہ کہ جو اہل علم تھے وہ یہاں سے ہجرت کر گئے۔
بعض سیاسی وجوہات اور تعصب کی بنا پر ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنایا گیاجس سے ہندوستانی مسلمان تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوے۔(مزید تفصیلات اور مسلمانوں کے تعلیمی،سماجی و اقتصادی حالات کو جاننے کےلیے سچر کمیٹی رپورٹ کا مطالعہ کریں)     
ان حالات کی وجہ سے ہند کے مسلمانوں نے سو چا کہ ہمیں حکومت کے بجٹ پر منحصر نہیں رہنا ،ہم اپنی ذاتی رقم سے تعلیمی ادارے بنائیں۔اس طرح مدارس کا نیٹ ورک پورے ہندوستان میں پھیلایاگیا۔اب مدارس کی تعداد تو بڑھ گئی مگر معیار میں کمی واقع ہوئی۔الا ماشاء اللہ ،اوراکیسویں صدی میں تعلیمی نظام و نصاب میں تبدیلی کی ضرورت پڑی۔مدارس میں عصری تعلیم کا نصاب ضروری ہونے لگا اور اسکولوں میں دینی تعلیم کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔عصر حاضر میں تعلیمی اداروں کا نصاب و نظام کیسا ہونا چاہئے؟
اس کا مختصر جائزہ فکرِ حضورشیخ الاسلام کی روشنی میں نذرِ قارئین ہے۔
  مشہور حدیث پاک ہے طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم  ۔(حدیث)
علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
  اس حدیث پاک میں جس علم کی فرضیت کا بیان ہے اس سے مراد فرض عین علم ہے۔ ہر شخص کو علم دین جاننا فرض ہے،اس کی فرضیت ٹھیک اسی طرح ہے جیسے نماز و روزہ۔فرض کی دو اقسام ہیں ایک فرض عین دوسرا فرض کفایہ۔ رہا یہ سوال کہ علوم اسلامیہ میں کونسا علم سیکھنا فرض عین ہے اور کونسافرض کفایہ؟ تو فقہائے کرام نے فرمایا کہ ہر وہ علم جو مسلمانوں کے لیے وقت پر ضروری ہو سیکھنا فرض عین ہے، خواہ وہ ضرورت ایمانیات میں سے ہو یا اعمال میں سے، معاملات میں سے ہو یا تجارت و ملازمت میں سے،محرمات میں سے ہو یا منہیات میں سے۔جیسے اللہ تعالی کی ذات و صفات کو جاننا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت و نبوت کو جاننا،نماز ،روزہ،زکوٰۃ و حج فرض ہوجائے تو ان کے احکام جاننا،وغیرہ وغیرہ ۔رہ گیا اس کے علاوہ عالم ،مفتی،حافظ ،فقیہ ،محدث وغیرہ بننایہ فرض کفایہ ہے۔ اول الذکر علم بہت اہم ہےجس کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے او ر جس پر فرض ہے اسی کو وہ فرض ادا کرنا ہے اس کے بد لے دوسرا نہیں کر سکتا ۔ اس بابت حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں:”ایک مثال آپ کو بتادوں کہ نماز ہم سب پر فرض ہے۔کیا کسی ایک شخص کے نماز ادا کرنے سے سب کی نماز ادا ہو جائے گی؟ اگر صرف اما م صاحب نماز پڑھ لے تو کیا سب بستی والو ںکی نماز ادا ہوجائےگی؟ہرگز نہیں ۔ اگر صرف شوہر نماز ادا کرے تو بیوی کی نماز ادا نہیں ہوگی،اگر صرف بیوی روزہ رکھے تو شوہر کا روزہ ادا نہیں ہوگا۔ اسی طرح جن چیزوں کاعلم جاننا تم پر فرض عین ہے وہ فرض دوسروں کے ادا کرنے سے کیسے ادا ہوگا بلکہ ہر شخص کو علم جاننا فرض ہے جیسے نماز ادا کرنا فرض ہے”۔ (اسکول اور دینی تعلیم ،صفحہ 18)
 افسوس ہے کہ یہ بنیادی تعلیم جو فرض عین ہے لوگ اس سے ناواقف ہیں ،اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں، تعلیمی پسماندگی اور بے رغبتی عام ہے۔ حالات اس قدر بگڑے ہوے ہیں کہ وضو و غسل ،طہارت اور نمازکے مسائل بھی کئی لوگوں کو نہیں آتے۔ان خستہ حالات کے پیش نظر ہم پر لازم ہے کہ ہم خود بھی اور اپنی قوم کو بھی اس بنیادی تعلیم سے آراستہ کریں۔مگر ہماری قوم فرض عین والے علم کو چھوڑ کر فرض کفایہ والے علم میں زیادہ مصروف ہے۔ حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں:”لوگوں نے غلطی یہ کی کہ لوگ اپنے فرض عین کو فراموش کرگئے اور ایک مدرسہ بنادیا،اس مدرسہ میں چالیس پچاس بچے آگئے اور مطمئن ہوگئےکہ ہمارا فرض ادا ہوگیا،اس طرح آپ کا فرض ادا نہیں ہوگا ۔آپ کا فرض جو آپ پر ہے وہ ادا نہیں ہو گاجب تک کہ آپ خود اپناضروری علم حاصل نہیں کرینگےجو کہ فرض عین ہے۔صرف مسجد بنوانے سے آپ کا فرض اد انہیں ہوگا بلکہ آپ کو بھی نماز ادا کرنا ہوگاجو کہ آ پ پرفرض عین ہے۔صرف افطار کروانے سے آپ کا روزہ ادا نہیں ہوگابلکہ آپ کو بھی روزہ رکھنا ہوگا جو کہ آ پ پرفرض عین ہے”۔(اسکول اور دینی تعلیم ،صفحہ 18،19) 
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ واضح ہو تا ہے کہ دینی تعلیم کے دو منزل ہیں ایک وہ علم جو فرض عین ہے دوسرا فرض کفایہ ۔پہلے کے دور میں فرض عین والا علم گھر سے ہی مل جاتا تھا لیکن اب وہ صورت حال نہیں، رہ گیافرض کفایہ والا علم،تو اس کے لیے مدارس کا بڑا نیٹ ورک ہے ،یہاں عالم ،مفتی، فقیہ ،محدث بنایا جاتا ہے۔ فرض کفایہ کے لیے ان مدارس کا حال کیا ہے جہاں معیاری تعلیم نہیں ہوتی؟ تو اس سلسلہ میں حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں:” اب تو ہزاروں دارالعلوم قائم ہوچکے ہیں ،پہلے نہ تو اتنے مدرسے تھے اور نہ ہی تعلیم کا اتنامعاملہ تھااور نہ ہی اتنی آسانیاں تھیںبلکہ بہت زیادہ پریشانیاں اور دشواریاں تھیں۔ آج تو اتنی آسانیاں پیدا ہو گئی تو پھر اتنے دار العلوم میں سے کوئی غزالی کیوں پیدا نہیں ہوتا ،کوئی رومی کیوں نہیں پیدا ہوتا، کوئی رازی کیو ںنہیں پیدا ہوتا،کوئی احمد رضا کیوں نہیں پیدا ہوتا؟ ان جیسے مصلحین امت کیوں پیدا نہیں ہوتے جو اپنی امامت کا لوہا منالے۔یہ ہے آپ کے دارالعلوم کا حشر”۔ (اسکول اور دینی تعلیم ،صفحہ 24)
مزید فرماتے ہیں:’اب جو عربی مدرسے ہیں ،کیا وہ پچیس کڑوڑ مسلمانوں کی دینی ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں ؟ یعنی وہ علم جو ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض عین ہے ،کیا ان عربی مدرسوں کی اتنی کوشش سےفرض عین ادا ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کہ ویسے بھی عموما لوگ مدرسوں میں آنا پسند نہیں کرتے ، آپ خود اپنا لائق و فائق بچہ مدرسہ بھیجنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ اسے آپ  اسکول میں بھیجتے ہیں ،یعنی جس کو آپ کند ذہن ،شرارتی ، کم عقل، ناکارہ اور کچا سمجھتے ہیں اسے مدرسہ بھیجتے ہیں اور جسے آپ ذہین ،سمجھدار ، ہوشیار ، اور پکا سمجھتے ہیں اسے اسکول بھیجتے ہیں "۔(اسکول اور دینی تعلیم، صفحہ 27)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دور حاضر میں مسلم بچوں کی تعداد مدرسوں سے زیادہ اسکول میں ہے۔جہاں تعداد زیادہ ہو وہاں کام زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔اگر اسکول میں صرف عصری تعلیم ہو، دینی تعلیم نہ ہو توپھر یہ مسلمان بچے کب دین کا علم حاصل کرینگے؟ظاہر سی بات ہے کہ یہ بچے دین سے ناواقف ہو جائینگے۔اس طرح وہ فرض علم سے ناآشنا ہوکر گناہ گار ہوجائینگے!
دینی علوم کا مرکز مدارس اسلامیہ ہی ہیں مگر اس میں طلباء کی قلت ہے،اکثریت تو اسکولوں میں ہے۔جو طلباء مدرسہ میں علم حاصل کرینگے وہ تو دینی علم سیکھ ہی لینگے ،ان کا کیا ہوگا جو اسکولوں میں پڑھتے ہیں ؟اور یہی اکثریت میں ہیں۔اس بابت حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں :”یہی بات ہماری ذہن میں آئی اس لیے ہم نے اسکول قائم کیا ۔آپ لوگ بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ایسے اسکولس قائم کریں تا کہ فرض عین کو کسی نہ کسی بہانہ ہرمسلمان کو سکھادیا جائے‘(اسکول اور دینی تعلیم، صفحہ31)
عصر حاضر میں فرض عین علم (اسلامی و اخلاقی تعلیم) سکھانے کا آسان طریقہ :
حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں : ’’عربی مدرسوں میں مسلمانوں کے بچے ہمیشہ بہت ہی کم اور اسکولوں میں زیادہ ہوتے ہیں لہذا کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ ہم خود ہی اسکول بنائیں او ر ان کواسکول کا نصاب ہی پڑھائیں جو نصاب وہاں چلتا ہے وہی نصاب پڑھنے دیاجائے،صرف ایک مضمون ہمارا دین کا ہو اور پہلی کلاس سے لیکر دسویں کلاس تک ضروری قرار دیا جائے اور ان کو ان کی ہی زبان میں دین سکھائے”۔ (اسکول اور دینی تعلیم صفحہ 27)
اسکول میں دینیات کا مضمون لازم کرنے کے فوائد :
مسلمانوں کے ہر اسکول میں دینی تعلیم کا ایک مضمون لازم قرار دیا جائے تو بہت سارے فوائد حاصل ہونگے۔حضرت شیخ الاسلام اس کے چند فوائد یوں بیان فرماتے ہیں :
۱) اسکول سے فراغت کے بعد عالم بننا چاہتا ہے تو کسی مدرسہ میں چلا جائے۔
۲)کوئی کالج میں جانا چاہے تو کالج میں چلا جائے ۔کالج میں جاتاہے تو دین سے بے خبر نہیں رہے گا اور مدرسہ میںجا تا ہے تو دنیا سے بے خبر نہیں رہے گا۔اگر کہیں بھی نہیں جاتا ہے تو بھی جاہل نہیں رہے گا۔
۳) بچوں کو اسلامی تہذیب ملے گی۔
۴) غیر مسلمین (ان کے بچے)بھی اسلامی تہذیب سے متاثر ہونگے۔
۵) (مسلمانوں کا)  اپنا اسکول ہو جائےگا تو غیروں کے پاس نہیں بھیجینگے۔
۶) بچے انسانیت سیکھینگے ،ماں باپ کی اطاعت سیکھینگے۔ (اسکول اور دینی تعلیم ص28)
۷) اگر آپ فرض عین والا علم سکھا دیتے ہیں تو پھراس کے بعد بچہ اس سے زیادہ سیکھتا ہے۔
۸) جو بچے اسکول سے فراغت کے بعد دوسری لائن یا فیلڈ میں جانا چاہے وہ بھی آسانی سے جا سکتے ہیں۔(اسکول اور دینی تعلیم صفحہ 31)
  خلاصئہ کلام یہ ہے کہ بنیادی اسلامی تعلیم جو فرض ہے اسے ہر اسکول میں رائج کیا جائے۔چند لوگ مدرسہ میںعصری تعلیم سکھانے پر بہت زور دیتے ہیں انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ عصری دانش گاہ (اسکول و کالج) میں بھی دینی تعلیم کو لازم قرار دیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسکولوں میں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کاا متزاج عہد جدید کی اہم ترین ضرورت ہے،ٹھیک اسی طرح جیسے مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا امتزاج اہم ہے۔مدرسوں کی کثرت کے بجائے معیاری تعلیم والے ادارے بنائیں جائیں اور اسکولوں میں علم دینیات سکھایا جائے ۔ حضور شیخ الاسلام نے اپنی اسی فکر پر عمل فرمایااور اس فکر کوعام کیا۔ملک ہندوستان و بیرون ملک میں حضرت کےزیر سرپرستی کئی تعلیمی ادارے قائم ہیں ۔سب سے پہلے حضو ر شیخ الاسلام نے اپنے وطن شریف کچھوچھہ مقدسہ،یوپی میں "محدث اعظم مشن اسکول” بنا کر اپنی فکر کو عملی جامہ پہنایا۔محدث اعظم مشن کے ماتحت ملک کے کئی صوبوں میں مدارس و اسکولس قائم ہیں۔کچھوچھا شریف کے علاوہ دیگر عصری تعلیمی ادارے، ہماری ناقص معلومات کے مطابق صوبئہ گجرات ،کرجن میں "مدنی اسلامک اسٹڈی سنٹر‘ نبی پور ضلع بھروچ محدث اعظم مشن اسکول‘،صوبئہ کرناٹک،ہبلی میں”محدث اعظم مشن اسکول”، صوبئہ کرناٹک ،داونگیرہ میں "محد ث اعظم مشن اسکول”، صوبئہ کرناٹک ،گھٹہ پھر با ،ضلع بلگام میں ” مدنی میاںاردو ہائی اسکول۔” دینی تعلیمی اداروں میں ،گجرات ،احمدآبا دمیں’دارالعلوم شیخ احمد کھٹّو‘، یوپی ،بہرائچ میں "مدرسہ چھوٹی تکیہ”، کچھوچھا میں "دار الافتاء”، کرناٹک ، ہبلی میں حضرت کا محبوب ادارہ "مدنی میاں عربک کالج”، بلہاری میں "دار العلوم شیخ الاسلام”،تڑس میں "الجامعۃ الاشرفیہ فاطمۃ الزہراء للبنات” وغیرہ۔  ہندوستان کے علاوہ برطانیہ، ڈیوسبری میں "مدنی اسلامک سنٹر”، بلیک برن میں "محدث اعظم ایجو کیشن سنٹر”، پرسٹن ،لنکا شائر میں مدنی اسلامک انسٹی ٹیوٹ "، سائو تھ افریقہ ،ونڈا میں مسجد اور ” مدرسہ اشرفیہ”، اس کے علاوہ امریکہ میں بھی مساجد و مکاتب قائم ہیں۔ الحمد للہ ہمارے مرشد گرامی کا فیض ہر طرف اور ہر شعبے میں جاری ہے،چاہے وہ تعلیمی میدان ہو یا فلاحی۔
صوبئہ کرناٹک میں حضرت کی زیر سرپرستی دینی و عصری تعلیمی اداروں کی تفصیل اور مختصر رپورٹ پیش خدمت ہے۔ (اس میں کرناٹک کے صرف مدارس و اسکول کی رپورٹ ہے مکتب وغیرہ کی نہیں) اس مقصد کی خاطر کہ حضرت کے اداروں کی تفصیل سارے لوگوں کو معلوم ہو۔ آخر میں مئو دبانہ گذارش ہے کہ حضرت کے جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں وہ اپنی اپنی رپورٹ ہر سال شائع کرتے رہیں۔       
 ۱)دارالعلوم شیخ الاسلام ،بلاّری
  بلاری والوں کی خوش نصیبی ہے کہ یہاں قادری ہو یا چشتی، نقشبندی ہو یا سہروردی تمام سلاسل کے بزرگ تشریف لائے۔کوئی اپنی آخری آرام گاہ اسی شہر کا بنائے تو کوئی اپنے قدوم میمنت سے فیضیاب کرتے گئے ۔ ان بزرگوں میں سے ایک عظیم بزرگ ولی کامل مخدوم الملت حضور محدث اعظم حضرت علامہ سید محمد اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کچھوچھہ شریف یوپی سے سن 1961؁ ء میں بلاری تشریف لائے ۔ صوبئہ کرناٹک میںشہر بلاری کو وہ پہلا شرف حاصل ہے جہاں حضور محدث اعظم ہند تشریف لائے۔کرناٹک میں حضرت کی آمد سب سے پہلے بلاری میں ہوی اس کے بعد ہبلی میں۔گویا کہ محدث اعظم کی آمد کے اعتبار سے یہ صوبئہ کرناٹک کا باب  محدث اعظم ہے۔1961سے 1963تک کرناٹک میں خانوادئہ اشرفیہ کا یہی مرکز تھا بعدہٗ ہبلی کو وہ مقام حاصل ہوا۔1961؁ء سے لیکر2004؁ ء تک اس تقریباچالیس سالہ عرصے میں حضور محدث اعظم ہند کی آمد کے بعدجانشین محدث اعظم ہند حضور شیخ الاسلام حضرت علامہ مفتی سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی  صاحب قبلہ کا تبلیغی ،تقریری اور روحانی دورہ ہوتا رہا ،حضرت کی تشریف آوری سے خوب دین و سنیت کا کام ہوا ۔حضور شیخ الاسلام کی سرپرستی میں 2004ء تک بلاری میں دین و سنیت کا کام محافل و مجالس اورمساجدومکاتب کے ذریعے ہو تا تھا۔ اسی سال 2004؁ء میں دین و سنیت کے مزید فروغ کے لیے حضرت کی سرپرستی میںشیخ الاسلام ٹرسٹ کے ماتحت بلاری میں  ـ دارالعلوم شیخ الاسلام  کی بنیاد رکھی گئی۔(فی الحال دار العلوم کا اہتمام جانشین شیخ الاسلام حضرت سید حمزہ میا ں صاحب قبلہ کے اسم مبارک سے موسوم ـ حمزہ ٹرسٹـ کے ذمے ہے)
  13؍ سالہ مدت کی کارکردگی ایک نظر میں:۔ 
 ٹرسٹ کی ذاتی تین منزلہ خوبصورت عمارت میںیہ دارالعلوم شہر ہی میں قائم ہے۔اس عمارت میں 13؍کمرے اور تین ہال ہیں۔ایک ہال درسگاہ کے لیے،دوسرا نماز کے لیے اور تیسرا طلباء کے طعام کے لیے۔ ایک لائبریری ہے۔ طلباء کی تعداد : 40۔اساتذہ :4۔فارغین کی تعداد: 6؍حفاظ۔دارالعلوم کے شعبہ جات۔ ۱)ناظرہ  ۲) حفظ و قرات  ۳)عصری تعلیم،انگریزی،کنڑ اور حساب۔۴)  طلباء کے مشق کے لیے ہرجمعرات کو ہفتہ واری بزم بنام  ـ بزم محبّان اشرفـ  منعقد ہوتی ہے۔ ۵)  شہر کے مسلمانو ں کی تعلیم و تربیت کے لیے اتوار کے دن تفسیر اشرفی کا ہفتہ واری درس ہوتاہے اور ہر اسلامی مہینہ کی ستائسویں (۲۷) شب کو حلقئہ ذکر کی محفل ہوتی ہے جس میں طلباء کے علاوہ عوام بھی شرکت کرتے ہیں۔
 دارلعلوم کے علاوہ حمزہ ٹرسٹ کی جانب سے فلاحی و سماجی کام بھی ہورہا ہے۔ حمزہ ٹرسٹ کی جانب سے 2012؁ء میںـ  مدنی ہیلتھ کلینک (MADANI HEALTH CLINIC) قائم ہوا جس میں مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور ہر سال ماہ ربیع الاول میں میلاد مصطفی کے موقع پر مفت آنکھوں کا آپریشن ہوتا ہے۔
مستقبل کا منصوبہ:
۱)  حمزہ ٹرسٹ کے نام سے شہرمیں6000؍سکوائر فٹ کی اراضی خریدی گئی انشاء اللہ اس میں  ITIکالج شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ ۲)شہر سے 18؍کیلو میٹر دور گنتکل روڈ پر 5؍ ایکڑ زمین خریدی گئی ہے انشا ء اللہ حضرت کے حکم کے مطابق جیسی عمارت حضرت حکم فرمائینگے ویسی بنائی جائے گی۔
  پتہ: دارالعلوم شیخ الاسلام ، طریقت منزل ، کمیلا روڈ بلاری کرناٹک 
رابطہ نمبر۔ صدر صاحب۔9448779969،  8123827092
سکریٹری صاحب  9972375712
۲)شیخ الاسلام عربی مدرسہ بلگام 
  حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم القدسیہ کے زیرسرپرستی شہر بلگام میں 1989؁ء میں محدث اعظم مشن کا قیام ہوا۔ 31؍مئی 2014؁ء کو حضور فاضل بغداد حضرت علامہ الشاہ سید محمد حسن العسکری میاں اشرفی جیلانی نائب سجادہ جانشین محد ث ا عظم ہند کی صدارت میں25؍ سالہ جشن سلور جوبلی منایا گیا ۔الحمد للہ، حضور شیخ الاسلام کی دعائوں سے محدث اعظم مشن کے ماتحت شہر بلگام میںفلاحی و سماجی ،دینی وتعلیمی خدمات  انجام دی جارہی ہیں ۔تعلیمی خدمات اور ادارے مندرجہ ذیل ہیں۔
۱) محدث اعظم مشن بلگام کے زیر اہتمام اشرفی منزل ،املی مارکیٹ،نیو گاندھی نگر بلگام میں شیخ الاسلام عربی مدرسہ کے نام سے 2014؁ء میں روزانہ بعد نماز عشاء تعلیم بالغاں کے لیے شروع کیا گیا ۔جس میں نوجوانوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔فی الحال 25؍نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔۲) اسکول و کالج کی تعطیل میں تربیتی کورس بھی چلایا جاتا ہے۔
مستقبل کا منصوبہ: 
انشاء اللہ جلد ہی اعظم نگر بلگام میں محدث اعظم مشن نرسری اسکول شروع کیا جائیگا۔
پتہ : محدث اعظم مشن بلگام۔ اشرفی منزل پلاٹ نمبر 5،پانچواں کراس، اشرفی محلہ اجول نگر بلگام کرناٹک  
رابطہ نمبر:  صدر صاحب۔9481007492.   
سکریٹری صاحب۔ 9844281299
۳)المدرسۃ الاشرفیہ فاطمۃ الزہراء للبنات تڑس
  ہبلی سے جنوب کی طرف ۲۵؍ کلومیٹر کے فاصلے پر شیگائوں تعلقہ میںایک خوبصورت گائوں ـ تڑسـ واقع ہے۔ حضرت شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی صاحب قبلہ جب ہبلی تشریف لائے تو تڑس کے عاشقان اہل بیت حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل کیے اور دعوت پیش کی۔ ۔حضرت اس دعوت کو بخوشی قبول کیے اور پہلی بار خانوادئہ اشرفیہ کے اشرفی دولہے کی تڑس میں آمد ہوی۔حضرت شیخ الاسلام کی آمد کی برکت سے سرزمین تڑس میں تازہ بہار آئی ،جوق در جوق لوگ داخل ِسلسلہ اشرفیہ ہوے حضرت کے قدموں کی برکت سے لوگ تو لوگ یہاں کی مٹی بھی اشرفی ہوگئی۔اس کے بعد تو تڑس والوں کی قسمت جاگ اٹھی جب بھی حضرت شیخ الاسلام ہبلی تشریف لاتے تو تڑس بھی آمد ہوتی اور دینی کام میں اضافہ ہوتا گیا۔حضرت کی سرپرستی میں غالبا ً ۱۹۸۰ ؁ء میں مدرسہ اشرفیہ قادریہ کے نام سے حضرت سید شاہ احمد قادری کے احاطے جامع مسجد میں ایک مکتب شروع ہوا۔اس کے بعد ۱۹۸۴؁ء میں مدنی میاں عربک کالج کو قائم کیا گیا۔(دو سال تک یہ مدرسہ تڑس میں ہی تھا اس کے بعدمحلہ یلاپورہبلی میں منتقل ہوا،وہاں سے اب یہ مدرسہ کندگول کراس بڈرسنگی پی۔بی روڈ ہبلی میں ہے) سن ۴ ۱۹۹ ؁ء میں محدث اعظم مشن تڑس کا قیام ہوا اور اسی مشن کے ذریعے دینی و فلاحی کام ہوتے رہے۔ 
 ۲۰۱۱؁ء میں محدث اعظم مشن تڑس کی ایک خصوصی میٹگ ہوئی جس میں دختر ان اسلام کی تعلیم و تر بیت اور سلسلہ قادر یہ چشتیہ اشرفیہ کی اشا عت کے تعلق سے غور و خوص کرکے کمیٹی نے دخترانِ اسلام کیلئے بہترین تعلیم و تر بیت کے ساتھ ایک ادارے کا فیصلہ لیا ۔ ۶ ؍اکتوبر ۲۰۱۲؁ء کو با قا عدہ  ـ المدر ستہ الا شر فیہ فا طمتہ الز ھراء للبناتـ کی افتتاحی تقریب عمل میں آئی۔  ادارے کے قیام کے بعد جب مشن کے تمام اراکین حضور شیخ الاسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اس ادارے کی خوشخبری سنائے تو حضور شیخ الاسلام نے خوشی کا اظہار کرتے ہو ئے فرمایا اس ادارے کو آگے بڑھا ئیںاور دعائوں سے نوازا۔۲؍ سال تک ناظرہ اور مُبلغہ کا ۲؍ سالہ کورس پڑھا یا گیا ۔ان دو سالوں میں ادارہ ھذا سے ۱۶ ؍مبلغات فارغ ہوئیں ۔  ۲۰۱۴ ؁ء کو بڑے تزک احتشام کے ساتھ ماہر معلمات کی نگرانی میں عالمہ کورس بھی شروع کیا گیا ۔ فی الحال ۳۰؍ بچیاں قیام و طعام کے ساتھ با صلاحیت و تجر بہ کار معلمات و اساتذہ کی نگرانی میں پوری محنت ولگن کے ساتھ علم دین حاصل کر رہی ہیں ۔ ہم اپنی بہن ،بیٹیوں اپنی نسلوں کو اہل بیت کے دامن سے وابستہ اور صحیح العقیدہ بنائے رکھنے کیلئے اور اسلام و سنیت کے فروغ و بقا کے لیے حضور شیخ الاسلام صاحب قبلہ و حضور سید حسن عسکری میاں اشرفی جیلانی مد ظلہ العالی کی سر پرستی میں چلنے والے اس ادارے کو استحکام بخشنا وقت کی اولین ضرورت ہے ۔
کورسس : ۱) ناظرہ  ۲) مبلغہ  ۳) عالمہ  ۴) ٹیلر نگ  ۴) کمپیوٹر کورس 
تعداد طالبات :  130۔ شعبئہ ناظرہ میں 90؍ بچیا ں،مبلغہ کورس میں 20؍بچیا ں اورشعبئہ عالمیت میں 20؍ بچیا ںزیر تعلیم ہیں 
کل اساتذہ ومعلمات: 4
انتظامیہ کمیٹی:  صدر وراکین محدث اعظم مشن تڑس 
مسجد گلی نزدجامع مسجد تڑس،تعلقہ شیگائوں ۔ضلع ہاویری 581212کرناٹک
 فون نمبر: 08378-257156
۴) محدث اعظم مشن نرسری و پرائمری اسکول دیورٹی، داونگیرہ
محدث اعظم مشن داونگیرہ کے زیر اہتمام 2005؁ ء میں حضور شیخ الاسلام کے دست مبارک سے داونگیرہ شہر کے قریب دیورٹی میں محدث اعظم مشن انگلش میڈیم اسکول کا افتتاح ہوا۔اسکول کی 20؍گنٹہ زمین میں ایک خوبصورت عمارت بنائی گئی ہے۔
۱) محدث اعظم مشن پرائمری اسکول :  تعلیم :  پانچویں جماعت تک۔کل طلبہ و طالبات کی تعداد: 120۔اساتذہ ودیگر عملہ : 8 اسکول میں مسلم و غیر مسلم طلبہ و طالبات سبھی تعلیم حاصل کر تے ہیں۔
۲) دانگیرہ شہر میں محدث اعظم مشن کی جانب سے خانقاہ مدنی کی تعمیرکی گئی ۔مورخہ 24؍مارچ 2015؁ ء کو فاضل بغداد حضرت علامہ الشاہ سید محمد حسن عسکری میاں اشرفی جیلانی صاحب قبلہ کے دست مبار ک سے افتتاح ہوا۔اس دو منزلہ عمارت میں، بالائی منزل پر مشن کی آفس ہے او ر ہر مہینہ حلقئہ ذکر کی محفل ہوتی ہے۔نچلی منزل میں نرسری اسکول ہے ۔
مسقبل کے منصوبے: 
۱)سن 2000؁ ء میں مشن کی جانب سے ایک زمین خریدی گئی ہے۔ انشا ء اللہ اس اراضی پر دارالعلوم کی بنیاد ڈالی جائے گی۔  
۲)خانقاہ مدنی میں لڑکیوں کے لیے مفت کمپیوٹر کورس اور ٹیلرنگ کلاس۔
پتہ: محدث اعظم مشن ،خانقاہ مدنی امام نگر ،نورانی مسجد روڈ داونگیرہ،کرناٹک۔
رابطہ نمبر: صد ر صاحب ۔9448535026
 ۵)دارالعلوم قادریہ ڈانڈیلی
مدنی میاں عربک کالج کی ایک شاخ جوحضور شیخ الاسلا م مد ظلہ کی سرپرستی میں قائم ہے۔۱۹۹۳؁میں اس کا افتتاح ہوا۔تین کمروں پر مشتمل ذاتی عمارت ہے۔طلبہ کی تعداد۔ ۲۵۔قیام و طعام کے ساتھ ۔اساتذہ کی تعداد ۔۳۔شعبہ جات :حفظ و قرات ۔اب تک ۲۵ سے زائد حفاظ فارغ ہوے۔دارالعلوم کے ماتحت دو مکتب بھی ہیں ۱) مکتب شیخ الاسلام،لمانی چال ،جونی ڈانڈیلی۔۲)مکتب مدنی میاں،سگرین چال،جونی ڈانڈیلی۔
مستقبل کے منصوبے:
۱)کمپیوٹر کورس۔۲)عصری تعلیم
پتہ : دار العلوم قادریہ ڈانڈیلی،
رابطہ نمبر08284-230571۔ ,9845823686
۶)مدنی میاں اردو ہائی اسکولگھٹ پربھا،تعلق گوکاک ،ضلع بلگام:  
حضو رشیخ الاسلام مد ظلہ کے مرید جناب سلطان صاحب کبّو ر اشرفی نے حضرت کی اجازت اورآپ کے نام سے سن ۱۹۹۴؁ میں مدنی میاں اردو ہائی اسکول کا آغاز کیا۔یہ اسکول حکومت کرناٹک سے منظور شدہ (Government Added)ہے اور اساتذہ کی تنخواہ بھی گورنمینٹ سے دی جاتی ہے۔نیز گورنمینٹ سے مفت سائیکل، مفت کتب اور روزانہ دوپہر کا کھانا۔بہترین تعلیم و نظم و ضبط اور سو فیصدرزلٹ ہونے پر دو مرتبہ حکومت کرناٹک نےمیڈل سے نوازا ۔پہلی بار سن ۲۰۰۵؁میں اور دوسری مرتبہ سن ۲۰۱۴؁ میں۔ 
 تعلیم: آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک۔کمپیوٹر۔ تعداد طلبہ و طالبات: ۱۲۰۔ اساتذہ و دیگر عملہ کی تعداد ۸۔
مستقبل کے منصوبے: 
۱) دینیات کورس شروع کرنا۔۲) مدنی میاں آرٹس ،سائنس اینڈ کامرس کالج شروع کرنا۔
پتہ: مدنی میاں اردو ہائی اسکول،گھٹ پربھا،تعلق گوکاک، ضلع بلگام،کرناٹک۔
  میر معلم: 9538380167
 ۷)مدنی میاں عربک کالج ہبلی
شہر ہبلی صوبئہ کرناٹک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔یہاں مسلمانان اہل سنت کی کثرت ہے اورالحمد للہ اسے اہل سنت و جماعت کی مرکزیت کا شرف حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں پیران کرم و مشائخین کرام و علمائے ذوی الاحترام کا ہمیشہ دورا ہوتے رہتا ہے۔
انہی مشائخ و سادات کرام میں خانوادئہ اشرفیہ کچھوچھا شریف کی ایک عظیم علمی و روحانی شخصیت جن کو عالم اسلام میںحضور شیخ الاسلام رئیس المحققین حضرت علامہ الشاہ مفتی سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کے نام سے پہچا نا جاتا ہے۔
   حضرت کے مسلسل دعوتی و تبلیغی دوروں  سے ایک علمی ماحول پیدا ہواجس سے لوگ متاثر ہوکر ایک خالص دینی و مذہبی ،علمی و خانقاہی ادارے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔ مریدین نے خواہش ظاہر کی تو حضرت نے پہلے اس کی اجازت نہیں دی۔آ پ نے فرمایا "والد صاحب(محدث اعظم ہند) کا قائم کردہ مدرسہ دارالعلوم غوثیہ شہر میں ایک سنی ادارہ موجود ہے دوسرے ادارہ کی فی الحال ضرورت نہیں ،آپ سب اسی مدرسہ کوفروغ دیں”۔مگر بارہا اصرار اور حالات کے مدنظر حضرت نے دین وسنیت کی مزید ترویج و اشاعت کے لیےایک دینی مدرسہ قائم کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ مشہور قول ہے کہ "ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے” ،جس وقت مدنی میاں عربک کالج کی اجازت ملی اس وقت بالکل صحیح وقت تھااو ر ایسے سنی ادارہ کی ضرورت تھی۔
حضرت کی اجازت ملتے ہی 1984؁ میں ہبلی سے 25 کیلو میٹر دور تڑس میں شعبئہ ناظرہ و حفظ سےمدنی میاں عربک کالج کاآغاز ہوا۔دو سال بعد تڑس سے ہبلی شہر محلہ یلاپور میں منتقل ہوا ۔1989؁ میں عظیم الشان کانفرنس بنام "محدث اعظم کانفرنس ” کا انعقاد ہوا۔اس کانفرنس میں علماء اہل سنت ،سادات کرام و مشائخین عظام کے علاوہ سلسلہ اشرفیہ کے بالخصوص خانوادئہ محدث اعظم ہند نے شرکت فرمائی۔اس تاریخی کانفرنس میں صوبئہ کرناٹک کے علاوہ اطراف و اکناف ریاستوں سے عوام اہل سنت لا کھوں کی تعداد میں جمع ہوے تھے۔اس کانفرنس کے ذریعے مدنی میاں عربک کالج کا بہت بڑا فائدہ ہوا۔وہ یہ کہ مدرسہ کے لیے شہر ہبلی سے ۷کیلو میٹر دورکندگول کراس ،پی،بی روڈ سے بالکل متصل ساڑھے پانچ (5.5) ایکڑزمین خریدی گئی اور اسی سال سنگ بنیاد ڈال دی گئی،بڑی تیزی کے ساتھ ایک  سال کی مدت میں 6 کمروں پر مشتمل ایک ہاسٹل و درسگاہ کی عمارت تعمیر ہوگئی ۔اس طرح  مدنی میاں عربک کالج 4سال تک یلاپور میں رہا پھر وہاں سے موجودہ جگہ کندگول کراس ،پی۔بی روڈ میں بحسن و خوبی رواں دواں ہے۔ 1991؁ میں مدنی میاں عربک کالج محلہ یلاپور ہبلی سےموجودہ جگہ کندگول کراس پی ۔بی روڈ میں منتقل کیاگیا۔
 بحمدہ تعالی حضور شیخ الاسلام کی دعائوں ،مدرسہ کی انتظامیہ کی مسلسل جد و جہد اور عوام اہل سنت کی دلچسپی سے تعلیم و تعمیر کا سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔
فی الحال مدرسہ کی زمین پر وسیع و عریض 20 کمروں کی دو منزلہ خوبصورت عمارت ، ایک وسیع ہال اور 20 لاکھ کی لاگت سے کمپائونڈ کا کام مکمل ہو چکا ہے۔مزید 10 کمروں کی تعمیر اور عمارت کی تزئین و توسیع کا کام جاری ہے۔انشا ء اللہ عنقریب حضور شیخ الاسلام کی آرزو اور تمنا پوری ہوگی۔حضور شیخ الاسلام کی تمنا خود حضرت کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔آپ کی تمناو خواہش یہ ہے کہ ” ہم اس منزل تک پہونچ کر رہینگے جہاں پہونچ کر یہ ادارہ ملک کے دیگر مرکزی ا دارو ںکی صف میں نظر آئے گا۔ یہ ایک ایسا مینارئہ نور و ہدایت ہوگا جس کی روشنی ملک کے ہر ہر گوشے بلکہ بیرون ملک سے بھی دیکھی جاسکے گی”۔
مدنی میاں عربک کالج کے معاونین کے لیے حضرت کی یہ دعاء ہے:”مولی تعالی اس ادارے پر اپنا فضل خاص فرماتا رہے اور اس کے اعوان و انصار کی عمر و صحت و اقبال میں برکت عطا فرماتا رہےاو ر مومنین کے قلوب کو اس کی طرف مائل کر دےاور پھر مائل رکھےتا کہ وہ اس کے عروج کو اپناعروج اور اس کے فروغ و ارتقاء کو خود اپنا فروغ و ارتقاء سمجھنے لگیں”۔ (معائنہ ر جسٹر مدنی میاں عربک کالج)
مدنی میاں عربک کالج کے تعلیمی شعبہ جات: 
1) شعبئہ ناظرہ۔2) شعبئہ حفظ۔3) شعبئہ تجوید و قرات۔4) شعبئہ عالمیت ۔5) فضیلت۔6) حکومت کرناٹک سے منظور شدہ برج کورس۔ 7) انگریزی و کنڑ زبان کی تعلیم۔8) تعطیلاتی تربیتی کورس۔
تعداد طلبہ: 160۔ تعداد اساتذہ ودیگر عملہ 18۔فارغین کی تعداد۔ 150  (عالم ،فاضل،حافظ و قاری کل فارغین)
دیگر خصوصیات:
 1)شیخ الاسلام لائبریری ۔جس میں 4000 سے زائد درسی و غیر درسی کتب موجود ہیں ۔2) بزم محدث اعظم۔اساتذہ کی نگرانی میںطلبہ کے اندر تقریری و تبلیغی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیےہر جمعرات بعد نماز مغرب تا عشاء بزم محدث اعظم کا انعقاد۔3) قیام و طعام کا بہترین انتظام۔
مستقبل کے منصوبے:1) تعلیمی معیار مزید بلند کرنا۔2) طلبہ کی تعداد میں مزیداضافہ کرنا۔3)تعمیری کام بڑھانا۔4)چہار دیواری (کمپائونڈ وال) کا بقیہ کام پورا کرنا ۔
پتہ: مدنی میا ں عربک کالج ،بڈرسنگی،پی۔بی روڈ ،نزد کندگول کراس ،ہبلی۔580212کرناٹک۔رابطہ نمبر: 0836-2317211
صدر صاحب۔9590245194 سکریٹری صاحب9845684366
مدنی میاں عربک کالج کے نام ۔مرحوم سید انور رائے پوری اشرفی کا کلام
مَدنی میاں عربک کالج کے ایک جلسَہ دستار بندی کے موقع پر پڑھاگیا۔
مدنی کالج یہ بتاؤں میں تمہیں کیا دے گا 
یہ تو سورج ہے اجالا ہی اجالا دے گا 
اس ادارے کے ہیں بانی میرے مرشد مدنی 
عشق محبوبِ خدا کا یہ نگینہ دے گا
اس کے ہیں روحِ رواں صوفی جہا نگیر اشرف 
یہ گواہی تو ہر اک باب و دریچہ دے گا 
آج تم اس کو مدد دوگے تو ہبلی والو 
کل قیامت میں تمہیں یہ بھی سہارا دے گا   
دیکھ کر آج یہ دستارِ فضیلت کا سماں 
ہے یقیں ہم کو کہ ہرسال یہ تحفہ دے گا
نذر کرنے کے لئے لایا ہے کچھ شعر انورؔ 
سننے والوں کو بھلا اس سے سوا کیا دے گا 
 ۹)محدث اعظم مشن اسکول،ہبلی۔
  حضور شیخ الاسلام کی سرپرستی میں دینی درسگا ہ مدنی میاں عربک کالج کے قائم ومستحکم ہو جانے کے بعدمریدین نے ایک عصری دانش گاہ قائم کرنے کی حضرت سے خواہش ظاہر کی تو حضور شیخ الاسلام کی اجازت سے محدث اعظم مشن ہبلی کے زیر اہتمام ۱۹۹۵؁  میں محدث اعظم مشن اسکول کا افتتاح ہوا۔صوفی ملت سید جہانگیر اشرف علیہ الرحمہ کی نگرانی میں کرایہ کی عمارت پر تروی ہکل میں نرسری اسکول سے ابتد اہوی۔
۱۹۹۸؁ میں اسلام پور جونی ہبلی میں زمین خریدی گئ ۔اس کے فورا بعدحضور شیخ الاسلا م کے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھی گئی اور تیزی کے ساتھ تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ۔ صرف دو سالہ عرصے میں سن ۲۰۰۰؁ کوبہترین عمارت تیار ہوگئی اور عمارت کی افتتاح حضور شیخ الاسلام کے دست مبارک سے عمل میں آئی ۔اس طرح ذاتی زمین و عمارت حاصل کرلینے کے بعد اسکول تروی ہکل سےاسلام پور منتقل ہوا۔
فی الحال 33کمروں پر مشتمل تین منزلہ خوبصورت عمارت دیدہ زیب ہے۔جس میں کلاس روم کے علاوہ ” سائنس لیب”،کمپیوٹر لیب” بھی ہیں۔
تعلیم: ۱)نرسری سےہائی اسکول تک ۔۲)اردو میڈیم ۔۳) انگلیش میڈیم۔ ۴)دینیات۔۵)کمپیوٹر واسمارٹ کلاس۔
تعداد طلبہ و طالبات: 2600۔اساتذہ ودیگر عملہ: اردو ،انگلیش میڈیم دونوں ملاکر 55۔
خصوصیات:  1) عصری تعلیم کے ساتھ دینی واخلاقی تعلیم لازمی۔ ۲)تعلیمی سر گرمیوں کے علاوہ کھیلوں او ر کلچرل مقابلہ کا انعقاد۔
۳) سال ۲۰۱۴؁ میں% 97فی صد رزلٹ ۔۴)سی سی ٹی وی کیمرہ کے ذریعے پورے اسکول کی نگرانی۔
مستقبل کے منصوبے: محدث اعظم مشن کالج شروع کرنا۔ اآرٹس ،سائنس وکامرس PUکالج۔
پتہ:      محدث اعظم مشن اسکول،اسلام پور روڈ،جونی ہبلی۔580024
رابطہ نمبر: 0836-2209032
۱۰)مدنی میاں کمپیوٹر ایجو کیشن اینڈ اسٹڈی سنٹر ہبلی:
مدنی میاں ایجو کیشن اینڈ چاری ٹیبل ٹرسٹ کے ماتحت حضور شیخ الاسلام کی اجازت سے سال ۲۰۱۳؁ ء کوشہر ہبلی میں کمپیوٹرکی تعلیمات عام کرنے کے لیےایک سنٹر قائم ہوا۔اس میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی مرکزی حکومت سے منظور شدہ یک سالہ ڈپلومہ ان کمپیوٹر اپلیکیشن کورس ماہر اساتذہ کی نگرانی میں سکھایا جاتا ہے،اس کا نصاب اور سند دونوں مرکزی حکومت کے مطابق دی جا تی ہے۔
کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی تعلیم بھی ہوتی ہے۔اس میںمسلم و غیر مسلم طلبہ و طالبات سبھی کو یکساں تعلیم دی جاتی ہے۔الحمد للہ اب تک ۱۵۰ طلبہ و طالبات اس کورس سے استفادہ کر چکے ہیں ۔ اس کورس کے علاوہ کمپیوٹر کے دیگر کورسس اور انگلش اسپیکنگ کورس بھی شروع ہے۔ اساتذہ و دیگر عملہ:۵۔ طلباء و طالبات کی تعداد۴۹۔ 
پتہ: مدنی میاں کمپیوٹر ایجو کیشن اینڈ اسٹڈی سنٹر ،نبی ریسیڈینسی ،طبیب لینڈ،نزد واٹر ٹینک،ہبلی۔کرناٹک۔
 رابطہ نمبر0836-2267866۔
زیراہتمام :صدرو اراکین مدنی فائونڈیشن ہبلی

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!