اسلام
سود کی حرمت
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕوَاَمْرُہٗۤ اِلَی اللہِ ؕ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۷۵﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ نے حلال کیا بيع کو اور حرام کيا سود (۱) تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصيحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا(۲) اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے(۳) اور جو اب ايسی حرکت کریگا تو وہ دوزخی ہے وہ اس ميں مدتوں رہيں گے۔(۴)(پ۳، البقرۃ: ۲۷۵)
تفسير:
(۱) قرض پر جو نفع ليا جائے وہ سود ہے، ايسے ہی متحد الجنس کو زيا دتی سے فروخت کيا جائے وہ سود ہے، جيسے سير گندم سوا سير کے عوض بیچنا ۔ سود کی بہت سی صورتيں ہیں جو فقہ ميں مذکور ہيں۔
(۲) اس ميں اشارۃً فرمايا گيا کہ جو شخص حرمتِ سود کے بعد بھی سود ليتا رہا وہ گزشتہ لئے ہوئے سود کا بھی مجرم ہوگا۔حلتِ سود کے زمانے کا سود اس کيلئے قابلِ معافی ہوگا جو اب سود سے باز آجائے۔
(۳) جب چاہے جو چاہے جس پر چاہے حرام فرما دے اس پر اعتراض نہيں ۔ ہاں اس کے احکام کی حکمتيں سوچنا منع نہيں بلکہ ثواب ہے۔
(۴) اگر سود کو حلال جان کر ليا تو کافر ہوا وہ دوزخ ميں ہميشہ رہے گا اور اگر حرام جان کر ليا تو فاسق ہوا بہت عرصہ دوزخ ميں رہے گا۔
(تفسير نورالعرفان)