اسلامواقعات

حلیہ مبارک حضور سرورکائنات ﷺ

اَبروئے مبارک

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بھویں درازو باریک تھیں اور درمیان میں دونوں اس قدر متصل تھیں کہ دور سے ملی ہوئی معلوم ہو تی تھیں ۔ ان دونوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت حرکت میں آجاتی اور خون سے بھر جاتی۔ ( 2)

بینیٔ مبارک

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ناک مبارک خوبصورت اور دراز تھی اور درمیان میں اُبھراؤ نمایاں تھا

اور بن بینی (عِرْنین) (1 ) پر ایک نور دَر خشاں تھا۔ جو شخص بغور تا مل نہ کرتا اسے معلوم ہو تا کہ بلند ہے حالانکہ بلند نہ تھی۔ بلندی تو وہ نور تھا جواسے گھیر ے ہوئے تھا۔ (2 )

پیشانی مبارک

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیشانی مبارک کشادہ تھی اور چراغ کی مانند چمکتی تھی۔ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ہے: (3 )
مَتٰی یَبْدُ فِی اللَّیْلِ الْبَھِیْمِ جَبِیْنُہٗ بَلَجَ مِثْلَ مِصْبَاحِ الدُّجَی الْمُتَوَ قِّدٖ (4 )
جب اندھیری رات میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیشانی ظاہر ہوتی تو تاریکی کے روشن چراغ کی مانند چمکتی۔

گوش مبارک

آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہر دو گوش مبارک ( 5) کا مل وتا م تھے۔قوت بصر کی طرح اللّٰہ تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو قوت سمع بھی بطر یق خرق عادت غایت درجہ کی عطا کی تھی۔ اسی واسطے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمصحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے فرماتے کہ میں جو دیکھتا ہوں ( 6) تم نہیں دیکھ سکتے اور میں جو سنتا ہوں تم نہیں سن سکتے۔ میں تو آسمان کی آواز بھی سن لیتا ہوں ۔ (7 )
آواز ِآسمان کی طرح آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آسمان کے درواز ے کے کھلنے کی آواز بھی سن لیتے تھے چنانچہ ایک روز حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ ناگاہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

نے اپنے اوپر کی طرف سے ایک آوازسنی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سر مبارک اٹھایا تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیاکہ یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج ہی کھلاہے ، آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا۔ ( 1) الحدیث (2 )

 

دَہان مبارک

منہ مبارک فراخ، رُخسار مبارک ہموار، دَندان ہائے پیشین (3 ) کشادہ اور رَو شن وتاباں ، جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکلام فرماتے تو دَندان ہائے پیشین میں سے نور نکلتا د کھائی دیتا تھا۔ بزَّار (متوفی ۲۹۲ھ) وبیہقی نے بروایت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نقل کیا ہے کہ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ضِحک (4 ) فرماتے تو دیواریں روشن ہو جاتیں ۔ (5 ) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کبھی جمائی ( 6) نہیں آئی۔ ( 7)
حضرت عمیرہ بنت مسعود انصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا روایت کر تی ہیں کہ میں اور میری پانچ بہنیں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قدید ( خشک کیا ہوا گوشت) کھارہے تھے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چبا کر ایک ٹکڑا ان کو دیا، انہوں نے بانٹ کر کھا لیا مرتے دم تک ان میں سے کسی کے منہ میں بو ئے نا خوش پیدا نہ ہوئی اور نہ کوئی منہ کی بیماری ہوئی۔ (8 )
غزوۂ خیبر ( 9) کے روز حضرت سلمہ بن الا کوع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پنڈلی میں ایسی ضرب شدید لگی کہ لوگوں کو
گمان ہوا کہ شہید ہو گئے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین بار اس پر دم کر دیا۔ (1 ) پھر پنڈلی میں کبھی درد نہ ہوا۔ (2 )
ایک روز ایک بد زبان عورت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قدید تناول فرما رہے تھے۔ اس نے سوال کیا کہ مجھے بھی دیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جو قدید سامنے پڑا ہوا تھا اس میں سے دیا۔ اس نے عرض کیا کہ اپنے منہ میں سے دیجئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منہ سے نکال کر اسے دیا وہ کھاگئی اس روز سے فحش اور کلام قبیح اس سے سننے میں نہ آیا۔ (3 )
مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ بے شمار پیشگو ئیاں اورد عوات جو پوری اور قبول ہوئیں وہ اسی منہ مبارک سے نکلی ہو ئی تھیں ۔
یوم حدیبیہ میں چاہِ حدیبیہ کا تمام پانی لشکر اسلام نے (جوبقول حضرت براء بن عازب چودہ سو تھے۔) نکال لیا اس میں ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا اور وضو کر کے پانی کی ایک کلی کوئیں میں ڈال دی اور فرمایا کہ ذراٹھہرو۔ اس کوئیں میں اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ حدیبیہ میں قریباً بیس روز قیام رہا، تمام فوج اور ان کے اونٹ اسی سے سیر اب ہو تے رہے۔

 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!