اسلام

اُردو حمد کا ارتقاء

 طاہر حُسین طاہرؔ سلطانی(کراچی)
اُردو حمد کا ارتقاء
{ایک اجمالی جائزہ}

قرآن اور حمد باری تعالیٰ:
    قبل اس کے کہ ہم اُردو حمد کا جائزہ لیں آئیے دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے قرآن مجید میں اللہ جل شانہٗ کیا بیان فرمارہے ہیں۔
٭
’’ساتوں آسمان اور زمین اور جو ان کے درمیان ہے سب اللہ کی حمد کرتے ہیں۔‘‘
 (القرآن)
’’جب اللہ کی مدد اور فتح آئے اور لوگوں کو تم دیکھو کہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو اور اس سے بخشش چاہو بیشک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
(سورۂ نصر)
’’جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے۔اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں ۔اے رب ہمارے لیے تونے یہ بیکار نہیں بنایا پاکی ہے تیرے لیے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔‘‘
(سورۂ آلِ عمران۔آیت: ۱۹۱)
’’اور اللہ ہی کے لیے ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
(سورۂ نور ، آیت :۴۱ )
’’اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی غالب اللہ اور حکمت والا ہے اسی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت وہی جلاتا ہے اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی وہی ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی اور وہی ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور وہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں پیدا کیے۔‘‘
(سورۃ الحدید،رکوع:۱)
اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَo اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo
سب حمد اللہ کو جو پالنے والا سارے جہان والوں کا بہت مہربان نہایت رحمت والا
(سورۂ فاتحہ،آیت:۱۔۲)
 رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا اِلَہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیلًاo
وہ پورب کا رب اور پچھم کا رب، اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو تم اسی کو اپنا کارساز بنائو
(سورۂ مزمّل،آیت:۹)
 اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیمًا حَکِیمًاo یُّدْخِلُ مَن یَّشَائُ فِی رَحْمَتِہٖ
بیشک اللہ علم و حکمت والا ہے، اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے جسے چاہے
(سورۂ دہر، آیت:۳۰۔۳۱)
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰیo
اپنے رب کے نام کی پاکی بولو جو سب سے بلند ہے
(سورۂ اعلیٰ،آیت:۱)
 اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَo
کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں
(سورۂ التّین،آیت:۸)
اَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُo حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَo
تمہیں غافل رکھا، مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھا
(سورۂ تکاثر،آیت:۱۔۲)

تو اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو
(سورۂ نصر،آیت:۳)
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَo
پڑھواپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
(سورۂ علق،آیت:۱)
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِج لَہُ الْمُلْکُ
وَلَہُ الْحَمْدُ ز وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌo
اللہ کی پاکی بولتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اسی کا ملک ہے
 اور اسی کی حمد اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
(سورۂ تغابن،آیت:۱)
تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ ز وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌo الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ط وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُo
بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضہ میں سارا ملک اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے۔ اور وہی زبردست بخشش والا ہے
(سورۂ ملک،آیت:۱۔۲)
حمدو ثنا اس خدائے برتر کے لیے جو وحدہٗ لا شرک ہے
درود و سلام اس نبیؐ آخر الزماں پر جو محبوبِ خدا ہے
    صنف حمد مخصوص ہے رب کائنات اللہ عز و جل کی مدح و ثناء کے لیے خود اللہ رب العزت نے’’توریت شریف‘‘،’’انجیل شریف‘‘،’’زبور شریف‘‘اور ’’قرآن مجید‘‘میں اپنی حمد مختلف مقامات پر بیان کی ہے مثلاً:سورۂ فاتحہ۔سورۂ اخلاق۔آیۃ الکرسی اور اسی طرح ایک بڑی تعداد قرآنی آیات ی ایسی ہے کہ جن میں بڑے واضح انداز میں حمد باری تعالیٰ کو بیان کیا گیا اور بلا شبہ یہ آیاتِ قرآنی اللہ رب العزت کی اکمل ترین اور افضل ترین مد کا بہترین نمونہ ہیں۔اسی طرح حادیث شریف میں بھی جا بجا انتہائی اہتمام سے حمد باری تعالیٰ کا تذکرہ ملتا ہے۔اللہ کے پیارے حبیبﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد جس شان سے بیان کی ہے اس کی مثال ملنا ممکن ہی نہیں۔اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی نعت جس مہتمم بالشان انداز میں بیان کی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
وَرَفَعَنَا لَکَ ذِکْرَکْo            (سورۃ النشراح، آیت:۴)
وَمَاَ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَتً الّلْعَالَمِیْنَo        (سورۃ  الانبیاء، آیت:۱۰۷)
     یہ وہ اندازاور مقام مدحت ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے اوصافِ حمیدہ جس طرح بیان کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرنا نہ صرف رسول اکرم ﷺ کی سنت ہے بلکہ تمام انبیاء کرام کی سنت ہے اور اسی طرح رسول اکرمﷺ کی نعت کہنا اللہ عز و جل کی سنت ہے چنانچہ بات اس طرح سامنے آتی ہے کہ حمدونعت کا ورد ہر مسلمان کے لیے نہ صرف ضروری بلکہ ایک ایسا لازمی فریضہ ہے کہ جس سے غفلت برتنے میں خسارہ ہے۔دوستو آپ نے کبھی غور کیا کہ ہماری چند روزہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنِّ وَالانْسِ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ o
ہم نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادیت کے لیے پیدا کیا ہے
(سورۃ الذاریت، آیت :۵۶)
    خود اللہ عز و جل نے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر حمد کہنے کا حکم دیا ہے۔نبی کریم ﷺ کے خطبات کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نبی کریم رئوف رحیم ﷺ نے اپنے قلب و دہن کو کسی لمحہ بھی اللہ کی حمد سے غافل نہیں کیا۔آپ صحابہ کرامؓ کو بھی حمد باری کی اکثر و بیشتر تلقین فرمایا کرتے۔حمد باری نہ صرف ایک عظیم الشان موضوع ہے بلکہ ایک اہم ترین فریضہ بھی۔اس میں ان گنت پہلو ایسے ہیں جن پر شعراء و شاعرات اور اہل قلم،اپنی فکری کاوشوں کو استعمال کرکے اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
’’اے ایمان والو تم دین خدا کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے اندر ثابت قدمی اور مضبوطی پیدا کر دے گا۔‘‘
حادیث شریف میں بھی جا بجا انتہائی اہتمام سے حمد باری تعالیٰ کا تذکرہ ملتا ہے۔اللہ کے پیارے حبیبﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد جس شان سے بیان کی ہے اس کی مثال ملنا ممکن ہی نہیں۔اسی

طرح اللہ رب العزت نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کی نعت جس مہتمم بالشان انداز میں بیان کی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
وَرَفَعَنَا لَکَ ذِکْرَکْo            (سورۃ النشراح، آیت:۴)
وَمَاَ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَتً الّلْعَالَمِیْنَo        (سورۃ  الانبیاء، آیت:۱۰۷)
     یہ وہ اندازاور مقام مدحت ہے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی ﷺ کے اوصافِ حمیدہ جس طرح بیان کئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کرنا نہ صرف رسول اکرم ﷺ کی سنت ہے بلکہ تمام انبیاء کرام کی سنت ہے اور اسی طرح رسول اکرمﷺ کی نعت کہنا اللہ عز و جل کی سنت ہے چنانچہ بات اس طرح سامنے آتی ہے کہ حمدونعت کا ورد ہر مسلمان کے لیے نہ صرف ضروری بلکہ ایک ایسا لازمی فریضہ ہے کہ جس سے غفلت برتنے میں خسارہ ہے۔دوستو آپ نے کبھی غور کیا کہ ہماری چند روزہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنِّ وَالانْسِ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ o
ہم نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادیت کے لیے پیدا کیا ہے
(سورۃ الذاریت، آیت :۵۶)
    خود اللہ عز و جل نے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر حمد کہنے کا حکم دیا ہے۔نبی کریم ﷺ کے خطبات کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ نبی کریم رئوف رحیم ﷺ نے اپنے قلب و دہن کو کسی لمحہ بھی اللہ کی حمد سے غافل نہیں کیا۔آپ صحابہ کرامؓ کو بھی حمد باری کی اکثر و بیشتر تلقین فرمایا کرتے۔حمد باری نہ صرف ایک عظیم الشان موضوع ہے بلکہ ایک اہم ترین فریضہ بھی۔اس میں ان گنت پہلو ایسے ہیں جن پر شعراء و شاعرات اور اہل قلم،اپنی فکری کاوشوں کو استعمال کرکے اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
’’اے ایمان والو تم دین خدا کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے اندر ثابت قدمی اور مضبوطی پیدا کر دے گا۔‘‘
(سورۃ محمد، آیت:۷)
حمد افضل ترین عبادت ہے:
    حمد کے لغوی معنی مالک ارض و سما کی تعریف و ثنا اور توصیف بیان کرنا ہے اللہ رب العزت کی تخلیقات کا شمار نا ممکن ہے۔اب جو بھی تخلیق ہماری نظر سے گزرتی ہے اسے دیکھ کر سبحان اللہ کہہ دینا بھی حمد ہے۔جس کا مقصد اس شاہکار کے خالق کی عظمت و برتری کا اعتراف کرنا ہوتا ہے جس چیز کو دیکھ کر اس کے خالق حمد کی جاری ہے اس کا ٹھیک ٹھیک علم بھی ہونا ضروری ہے محض گمان کی بنیاد پر حمد نہیں کی جا سکتی۔’’حمد‘‘کا حق محض فریب تخیّل ،تو ہم پرستی اور اندھی عقیدت سے ادانہیں ہوتا اس کا سر چشمہ یقین محکم اور ایمان کامل ہوتا ہے۔
حمد        سرور انبیاء احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی سنت ہے۔
حمد        اللہ رب العزت کی خلاقیت و حاکمیت کا اقرار ہے۔
حمد        اعترافِ عبدیت کا اعتراف ہے۔
حمد        اللہ جل شانہ کی یکتائی و وحدانیت کا اعلان ہے۔
حمد        عبادت بھی ہے اورشانِ عبادت بھی۔
حمد        تمام عبادات میں افضل ترین عبادت ہے۔
حمد        ادب ہی نہیں بلکہ روحِ ادب ہے۔
حمد        اردو ادب میں مستقل اک صنف ہے۔
حمد        قرآن ہے،حمد راہِ مستقیم ہے،حمد رضائے ربُّ العزت ہے۔
فضائل حمد:
    حمد کی فضیلت کا اندازہ یوں لگائیے کہ کفار مکہ کی جانب سے آنحضرت ﷺ سے کہا جارہا ہے کہ اے محمد ﷺ تم اپنے اللہ کی حمد چھوڑ دو(نعوذ باللہ)۔ہم تمہیں ہیرے جواہرات کی دولت ہی نہیں بلکہ تمہاری ہر خواہش پوری کریں گے۔مگر رحمتہ اللعالمین نے دنیاوی عیش و عشرت کو چھوڑ کر حمد باری کا وظیفہ جاری رکھا۔حمد باری تعالیٰ تمام مسلمانوں پر فرض ہے چونکہ نماز فرض ہے اور نماز میں اگر آپ سورۂ فاتحہ نہیں پڑھیں تو آپ کی نماز نہیں ہوگی۔اُمّ الکتاب کے پہلے حصہ میں اللہ جل شانہٗ کی حمد کی جاری ہے۔دوسرے حصہ میں مالک ارض و سماوات سے حاجات طلب کی جا رہی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم کتاب کا آغاز ہی حمد سے کیا گیا ہے۔معلوم ہوا کہ حمد کے بغیر صراط مستقیم کا حصول اس پر تاحیات گامزن رہنا اور رضائے رب العالمین کا حصول ممکن ہی نہیں۔
    حمد کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران انبیاء کرام نے حمدِرب
العالمین کا اس مہتم بالشان طریقے سے اہتمام کیا کہ پروردگار عالم نے کائنات کی ان بزرگ ترین ہستیوں کو عظیم مرتبے عطا فرمائے۔یہی حال صحابہ کرام بالخصوص چاروں خلفائے راشدین کا بھی ہے اسی طرح صدقین شہداء صالحین اور صوفیاء کرام نے نغمۂ حمد کو اپنے قلوب کی اور زبانوں پر سجائے رکھا۔حضرت آدمؑ کی قید سے رہائی حمد کی برکت حضرت نوحؑ کی کشتی کنارے لگی حمد کا صدقہ، حضرت یونسؑ کی شکم ماہی سے رہائی حمد باری کا کرشمہ ہے حضرت ایوبؑ کی بیماری سے شفایابی۔ حمد رب کا کمال نہیں تو اور کیا ہے؟حضرت ابراہیم ؑ پر نارنمرود کا گل و گلزار ہوجانا۔ یہ حمد رب العالمین کے ثمرات میں سے ایک ثمر ہی تو تھا۔امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ کی شہر امن کی خاطر شہادت کے موقع پر بصیرت ربّانی کے طفیل صبر و استقلال صرف اور صرف وظیفۂ حمد کی فضیلت کی ایک اعلیٰ مثال ہے فضیلت حمد دیکھئے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے حمد ربّ العزت بیان کی اور ایک کاغذ پر لکھ کر دریائے نیل کے حوالے کردی۔دنیا نے اس تاریخی واقعے کے اندر ایمان کامل کے تحت فضیلت حمد کا مشاہدہ بھی کرلیا۔۔سبحان اللہ سبحان اللہ
حمد کیا ہے:
    حمد منشائے ایزدی ہے۔حمد سنت رسول ﷺ ہے۔حمد حسن کائنات ہے شعور و فہم و ادراک کا منبع ہے۔حمد خزینۂ رحمت ہے حمد سے عزت و عظمت ہے۔حمد راہُِ مستقیم ہے۔حمد تحفۂ عظیم ہے۔ حمد رنج و الم کا مداوا ہے۔حمد مسرت و شادمانی کا سرچشمہ ہے۔حمد سانسوں میں ایمان کی روانی ہے۔حمد زندگی کا قرینہ ہے۔حمد جوہر طوفاں سے بچالے وہ سفینہ ہے۔حمد خوشبوں ہے رنگ و نکہت ہے حمد نعت ہے ۔حمد فرحت ہے ۔حمد انصاف کی کسوٹی ہے۔حمد پرچم ہے رحمتوں والا۔حمد تو حق کا بول بالا ہے۔حمد سب انبیاء کی سنت ہے۔حمد خلفائے راشدین کا وظیفہ حیات ہے۔حمد ہے نور کُل جہانوں کا۔حمد سے نور آسمانوں کا۔حمدادراک سب جہانوں کا۔حمد مومن کے دل کی دھڑکن ہے۔
    حمد قرآن بھی ایمان بھی ہے۔حمد اللہ کی پہچان بھی ہے۔حمد آجر کی سچی اجرت ے۔حمد قوّت ہے حمد جرأت ہے۔حمد مظلوم کی وکالت ہے۔حمد سچائی کی دلالت ہے۔حمد اللہ کی رضا ٹھہری۔حمد کی وسعتیں بہت گہری۔حمد سب کی زباں پہ آتی ہے ۔حمد ذلت سے بھی بچاتی ہے۔
حمد جھومر ہے،ہرعبادت کا۔حمد حسن ادب ہی نہیں،روحِ ادب بھی ہے۔حمد ایمان کی پہچان ہے بلکہ ایمان کی جان ہے۔
    تو پھر آئیے ہم سب مل کر حمد کا وظیفہ صبح و شام کریں نہ صرف زبان و قلم سے بلکہ قلب کی دھڑکنوں کو بھی اس وظیفہ حمد میں اس طرح شریک کرتے ہوئے کہ ان سے بھی ہر آن صدائے اللہ اکبر آتی رہے یہاں تک کہ وقت اجل آجائے۔
آدابِ حمد:
(۱)    حمد کہنے کے لیے قرآن فہمی اور احادیث رسول ﷺکا مطالعہ ضروری ہے۔
(۲)    حمد ، نثر میںہو یا نظم میں اخلاق کی متقاضی ہے۔
(۳)    حمد لکھیں پڑھیں اور سنیں ضرور مگر عمل شرط اوّل ہے۔
(۴)    حمد میں رب العزت کے شایان شان حمد کا گلدستہ سجائیں اور پرواز فکر بلند رکھیں۔
(۵)    حمد بیان کرتے ہوئے عاجزی کے پیکر بن جائیں۔
(۶)    حمد کے لیے قلب کی طہارت و آنسوئوں سے وضو ہوتو سبحان اللہ۔
(۷)    حمد گو کے لیے لازم ہے کہ وہ پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوجائے۔
(۸)    حمد گو کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سب سے زیادہ اور سب سے بہتر اللہ ربُ العزت
        کی حمد بیان کرنے والی ذات رسول آخر آنحضرت ﷺ کی ہے۔
(۹)    حمد باری کا وظیفہ کرتے ہوئے یہ احساس رہے کہ میں اللہ کا شکر گزار بندہ بن جائوں۔
(۱۰)    آداب حمد جاننے کے لیے ہمیں قرآنِ مجید کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ہوگا۔
     چونکہ قرآن مبین نے ہمیں حمد کے آداب بڑے خوبصورت انداز میں سکھلائے ہیں۔
اُردو حمد کا فروغ:
ترے فیصلے ہیں عظیم تر تری حکمتوں کی کسے خبر
تو شعور و فکر سے ماورا تری شان جلَّ جلالہٗ
…٭…
خواہش مجھے کہاں ہے کہ کوئی قمر ملے
تا عمر تری حمد لکھوں وہ ہنر ملے
خونِ جگر سے حمد کی شمعیں جلائوں میں
توفیق اس کی خالق عالم اگر ملے
…٭…
دل کے نگر میں روشنیوں کا قیام ہے
سوچا ہے جب سے میں نے کہ حمد خدا لکھوں
    وظیفۂ حمد ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران و انبیاء کرام کے دنیا میں آنے کا مقصد انسانوں کو رب کی بندگی اور حمد باری تعالیٰ بیان کرنے کا سلیقہ و قرینہ سکھانا تھا۔تمام انبیاء کرام زندگی بھر اللہ رُب العزت کی حمد کرتے رہے۔تمام مذاہب میں اللہ تعالیٰ کا تصور کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔لیکن اسلام نے اللہ عز و جل کا جو تصور پیش کیا ہے وہ افضل و برتر اور حق و صداقت پر مبنی ہے۔ہر مسلمان اور ہر انسان،ہر چرند و پرند غرض یہ کہ ذرّہ ذرّہ زبان و قلم سے مالکِ کائنات کی پاکی بیان کر رہا ہے…شعراء کرام دانشوران عظام اپنی بساط بھریہ قرض ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رد وہ ہر اک عمل ہوا جس میں تیری رضا نہیں

سانس وہ سانس ہی نہیں جس میں تیری ثنا نہیں
کعبہ کلیسا ، بت کدہ ، دیر ہو یا حریمِ ناز

کون سی جا ہے جس جگہ ذکر ترا ہوا نہیں
    یوں تو خدا کے جلووں کی ہر جگہ فراوانی ہے۔عالم امکان کے ہر گوشے اور ہر ذرّہ میں اس کا پر تو موجود ہے لیکن اس کی واضح اور نمایاں نشانیاں خود انسان میں موجود ہیں اس کی روح اور اس کے دل میں خدا ہی جانگزیں ہے یہ ہماری خامی اور عقل کی کوتاہی ہے ہم اسے مظاہر قدرت میں ہر جگہ تلاش کرتے ہیں لیکن اپنی ذات کو فراموش کر دیتے ہیں۔خدا کی تلاش،اس کی جستجو،اسے پانا اور سمجھنا یہی مقصود حیات ہے اور اسی غرض سے انسان تخلیق کیا گیا ۔اگر مقصد حیات حاصل کرنا ہے تو رُوح و دل کی گہرائیوں میں خدا کو تلاش کیا جائے۔
غافلو ڈھونڈتے پھرتے ہو جس کو عالم میں

غور سے دیکھو وہ ہے دل میں تمہارے بیٹھا
    باوجود اس حقیقت کے کہ خدا کا جلوہ ہر طرف اور خود انسان میں موجود ہے اس کو پالینا آسان نہیں اپنی خرد کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اس لا محدود ذات کو محدود دائرے میں لانے کی کتنی ہی سعی کی جائے مگر کامیابی کا امکان نہیں قرآن میں باری تعالیٰ نے اپنی صفات خود بیان کی ہیں ان میں رحمت ، رحم اور کرم اور کرم کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔تمام مخلوق کی مغفرت اللہ کی انہیں صفات کی مرہون منت ہے اس لیے جہاں انسان ان کے سہارے سے گزرتا ہے وہاں شاعر ان کا ذکر بھی بار بار کرتا ہے۔
تیری رحمت سے نااُمید نہیں

اپنی محرومیوں سے ڈرتا ہوں
    اہل نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اس موجودہ صدی کی تیسری دہائی تک جن شعراء  کے دواوین شائع ہوئے ہیں ان کی ابتدا بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوئی ہے اسے محض ایک روایت کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خیر و برکت کے اس کلمہ کو صرف دواوین و مثنویوںتک محدود نہ سمجھا جائے۔اُردو میں جو کتابیں لکھی گئیں وہ چاہے نثر میں ہوں یا نظم میں اس کلمۂ برکت سے خالی نہیں۔
زبان و قلب یہ فکر رسا بھی تیری ہے

مرے قلم میں روانی عطا بھی تیری ہے
بلا ستون معّلق ہے عقل ہے حیراں

یہ آسمان کی نیلی ردا بھی تیری ہے
بھٹک رہا تھا اندھیروں میں آدمی کب سے

ترے نبی نے جو بخشی ضیا بھی تیری ہے
ترے حبیب پہ بھیجیں درود کے تحفے

یہ حکم بھی ہے ترا اور رضا بھی تیری ہے
…٭…
    حمد دُنیا کی ہر زبان اور ہر صنف میں کہی جا رہی ہے ۔وظیفۂ حمد ہر مسلمان اور انسا ن پر فرض ہے۔اُردو میں حمد نگاری کا آغاز اردو کے آغاز میں ہی ہو گیا تھا۔متقدمین اصولِ ثواب کے لیے دوابین کے آغاز میں حمد کا اہتمام کیا کرتے تھے۔چنانچہ اُردو میں سب سے پہلی حمد لکھنے کا اعزاز فخر الدین نظامی کو حاصل ہوا۔اُردو کی پہلی مثنوی قدم رائو پدم رائو ۱۴۲۱ء سے ۱۴۳۵ عیسوی کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی۔اس مثنوی کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا ولی دکنی،سراج اورنگ آبادی، مرزا رفیع سودا،میر تقی میر، سچل سرمست،نظیر اکبر آبادی،مومن  خان مومن،ذوق دہلوی،مرزا غالب، بہادر شاہ ظفر،میر انیس،مرزا دبیر،امیر مینائی،داغ دہلوی،محسن کاکوروی،مولانا حسن رضا بریلوی، الطاف حسین حالی،اسمٰعیل میرٹھی،مولانا احمد رضا خان بریلوی اور علامہ اقبال،مولانا ظفر علی خاں، بہزاد لکھنوی،شاعر لکھنوی،صبا اکبر آبادی،صہبا اختر،ماہر القادری تک جا پہنچتا ہے۔عصر حاضر میں تابش دہلوی،احمد ندیم قاسمی،راغب مراد آبادی، حفیظ تائب،حنیف اسعدی،امید فاضلی،سرشار صدیقی،عاصی کرنالی،راجا رشید محمود، ڈاکٹر ریاض مجید،علیم ناصری،ریاض حسین چودہری،خورشید خاور،شبنم رومانی،ابوالخیر کشفی،ادیب رائے پوری، اعجاز رحمانی،ظفر عمر زبیری ،ابولیث قریشی،ڈاکٹر جمیل عظیم آبادی،سہیل غازی پوری،حیرت الہ آبادی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کچھ شعراء و شاعرات نے حمد پر بھر پور توجہ کی اور مجموعہ ہائے حمد،شائع کیے۔ اُردو میں اوّلین مجموعۂ حمد’’دیوانِ ایذدی‘‘۱۳۲۷ہجری میں لکھنو سے شائع ہوا۔اس مجموعہ کے خالق مفتی محمد سرور لاہوری ہیں۔دوسرا مجموعہ حمد مضطر خیر آبادی کا’’نذرِ خدا‘‘کے نام سے ۱۹۰۸ء  میں کانپور سے شائع ہوا۔تیسرا مجموعہ حمد امتہ اللہ تسنیم کا’’بابِ کرم‘‘۱۹۵۴ء میں انڈیا سے شائع ہوا۔پاکستان میں پہلا
مجموعہ حمد اور ترتیب کے لحاظ سے چوتھا ’’پتھر میں آگ‘‘۱۹۸۰ء کو لاہور سے شائع ہوا۔اس مجموعہ کے خالق عبدالسلام طورہیں۔
پانچواں مجموعہ حمد    ’’الحمد‘‘    ۱۹۸۴ء    مظفر وارثی
چھٹا مجموعہ حمد    ’’لاشریک‘‘    ۱۹۸۴ء    طفیل دارا
ساتواں مجموعہ حمد    ’’صحیفہ حمد‘‘    ۱۹۸۸ء    لطیف اثر
آٹھواں مجموعہ حمد    ’’سبحان اللہ وبحمدہٖ‘‘    ۱۹۹۰ء    حافظ لدھیانوی
نواں مجموعہ حمد    ’’بحضور حق تعالیٰ‘‘    ۱۹۹۰ء    کاوش زیدی
دسواں مجموعہ حمد    ’’قلم سجدے‘‘    ۱۹۹۳ء     لالہ صحرائی
گیارہواں مجموعہ حمد    ’’خالق ذوالجلال‘‘    ۱۹۹۴ء    ابرار کرت پوری
بارہواں مجموعہ حمد    ’’حمدیہ قطعات‘‘    ۱۹۹۴ء    مسرور بدایونی
تیرہواں مجموعہ حمد    ’’خدائے ذوالجلال‘‘    ۱۹۹۶ء    محبت خان بنگش
چودھواں مجموعہ حمد    ’’نام بنام حمدوثنا‘‘    ۱۹۹۸ء    انوار عزمی
پندرہواں مجموعہ حمد    ’’حمد نامہ‘‘    ۱۹۹۸ء    شیبا حیدری
سولہواں مجموعہ حمد    ’’اللہ اکبر‘‘    ۱۹۹۸ء    گہر اعظمی
سولہواں مجموعہ حمد    ’’متاعِ صراط‘‘    ۱۹۹۸ء    عابدہ کرامت
سترہواں مجموعہ حمد    ’’الرّحمن‘‘    ۲۰۰۰ء    جمیل عظیم آبادی
اٹھارہواں مجموعہ حمد    ’’حمد میری بندگی‘‘    ۲۰۰۰ء    طاہر سلطانی
انیسواں مجموعہ حمد    ’’صحیفہ حمد کا‘‘    ۲۰۰۰ء    اجمل نقشبندی
بیسواں مجموعہ حمد    ’’ربُ العالمین‘‘    ۲۰۰۱ء    سجاد سخن
اکیسواں مجموعہ حمد    ’’اللہ الصمد‘‘    ۲۰۰۱ء    نگار فاروقی
بائیسواں مجموعہ حمد    ’’زبور سخن‘‘    ۲۰۰۲ء    تنویر پھول
تیئسواں مجموعہ حمد    ’’تری ہی حمدوثنا‘‘    ۲۰۰۲ء    علیم النساء ثنا
چوبیسواں مجموعہ حمد    ’’الحمدللہ‘‘    ۲۰۰۲ء    عزیز الدین خاکی
پچیسواں مجموعہ حمد    ’’حمدومناجات‘‘    ۲۰۰۲ء    منصور ملتانی
چھبیسواں مجموعہ حمد    ’’حمدیہ رباعیات‘‘    ۲۰۰۳ء    راغب مراد آبادی
ستائیسواں مجموعہ حمد    ’’سرچشمۂ حمد‘‘    ۲۰۰۳ء    سائرہ حمید تشنہ
اٹھائیسواں مجموعہ حمد    ’’محامد باری تعالیٰ ‘‘    ۲۰۰۳ء    خطیب گلشن آبادی
اُنتیسواں مجموعہ حمد    ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘    ۲۰۰۴ء(زیر طباعت)     صبا اکبر آبادی
تیسواں مجموعہ حمد    ’’ثنائے کبریا‘‘    ۲۰۰۴ء    یونس ہویدا
اکتیسواںمجموعہ حمد    ’’قسّامِ ازل‘‘    ۲۰۰۴ء    ابرار کرت پوری
بتیسواں مجموعہ حمد    ’’اِلّاھُو‘‘    ۲۰۰۴ء    مشکورحسین یاد
تینتیسواںمجموعہ حمد    ’’سجدۂ شکر‘‘    ۲۰۰۴ء    ظفرہاشمی
تینتیسواںمجموعہ حمد    ’’حریمِ حمد‘‘    ۲۰۰۴ء    کعبی بہل پوری
چونتیسواں مجموعہ حمد    ’’لاشریک‘‘    ۲۰۰۴ء    اعجاز چشتی فیصل آبادی
پینتیسواںمجموعہ حمد    ’’نغمۂ حمد‘‘    ۲۰۰۵ء    اقبال نجمی
چھتیسواںمجموعہ حمد    ’’ارمغانِ حمد‘‘    ۲۰۰۵ء    شاعر علی شاعر
سینتیسواں مجموعہ حمد    ’’خدائے شہ زمن‘‘    ۲۰۰۸ء    راجارشیدمحمود
اڑتیسواںمجموعہ حمد    ’’حمدوثنا کی گونج‘‘    ۲۰۰۸ء    سراج الدین سراج
اُنتالیسواں مجموعہ حمد    ’’تُو خالق ہے تُو مالک ہے‘‘    ۲۰۱۰ء    خورشید بیگ میلسوی
چالیسواں مجموعہ حمد    ’’حرفِ ناتمام‘‘    ۲۰۱۰ء    منیرسیفی
اکتالیسواں مجموعہ حمد    ’’کمالِ سخن‘‘    ۲۰۱۱ء    منظرعارفی
    ہمارے حمدونعت ریسرچ سینٹر میں اس وقت کل ۵۳مجموعہ ہائے حمد موجود ہیں۔ ۴۲ شعراء و شاعرات کے ۵۵ مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے ہیں۔ لطیف اثر کے چار مجموعہ ہائے حمدکراچی سے شائع ہوئے۔حافظ لدھیانوی کے تین مجموعہ ہائے حمد فیصل آباد سے شائع ہوئے۔ راجارشید محمود کے پانچ مجموعہ ہائے حمد لاہور سے شائع ہوئے۔ مظفروارثی کے دو مجموعہ ہائے حمد لاہور سے شائع ہوئے۔ اقبال نجمی کے دو مجموعہ ہائے حمد گوجرانوالہ سے شائع ہوئے۔ سجاد سخن، تنویر پھول، گہر اعظمی، ظفرہاشمی اور طاہر سلطانی کے دو ،دو مجموعہ ہائے حمد کراچی سے شائع ہوئے۔ ترتیب کچھ اس طرح بنتی ہے کہ تقسیم سے قبل دو مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے۔تقسیم کے بعد ۵۳ مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے۔اب ان کی ترتیب ملاحظہ کیجیے:
/    لاہور شہر سے نو مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے۔
/    فیصل آباد سے پانچ مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے۔
/    ملتان شہر سے ایک مجموعہ حمد شائع ہوا۔
/    گوجرانوالہ سے چار مجموعہ ہائے حمد (دواُردو،دوپنجابی زبان میں) شائع ہوئے۔
/    کوہاٹ سے ایک مجموعہ حمد شائع ہوا۔
گجرات سے ایک مجموعہ شائع ہوا۔
/    بھارت سے چار مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے۔
/    کراچی شہر سے ۲۸ مجموعہ ہائے حمد شائع ہوئے۔
    یاد رہے یہ فہرست راقم اپنی محدود معلومات کے مطابق فراہم کر رہا ہے۔
    اس حوالے سے اُردو حمدیہ ادب میں کراچی کا پچاس فیصد سے زائد حصہ شامل ہے۔ الحمدللہ، اُردو حمدیہ ادب کے حوالے سے کراچی کو یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ یہاں سے۱۹۹۸ء کو ’’جہانِ حمد‘‘کا اجراء ہوا۔ کراچی سے ہی اُردو حمد کے موضوع پر اوّلین ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد‘‘ کا پہلا شمارہ فروری ۲۰۰۴ء کو شائع ہوا۔ مذکورہ رسائل کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
راقم الحروف کی ادارت میں شائع ہونے والا کتابی سلسلہ
’’جہانِ حمد‘‘
اُردو میں حمد کے موضوع پر اوّلین کتابی سلسلہ
ایک شمارہ ایک کتاب…حمدونعت کا عالمی پیامبر
الحمدللہ! ۱۸ شمارے کم و بیش ساڑھے سات ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔
(خصوصی شماروں کی فہرست)
’’خواتین نمبر‘‘    ۲۰۰۰ء
’’بہزاد لکھنوی‘‘(حمدونعت نمبر)     ۲۰۰۱ء
’’صبا اکبر آبادی‘‘(حمدونعت نمبر)     ۲۰۰۲ء
’’مناجات نمبر‘‘     ۲۰۰۳ء
’’نعت نمبر‘‘     ۲۰۰۴ء
’’اُردو حمد کا ارتقاء‘‘( صاحبِ کتاب حمد گویان اُردو کا تذکرہ مع انٹر ویوز)    ۲۰۰۴ء
’’علامہ اقبال حمدونعت نمبر‘‘        ۲۰۰۶ء
’’سلام نمبر‘‘(دو سو سے زائد شعراء و شاعرات کا حضورﷺ کی خدمت میں عاجزانہ سلام)     ۲۰۰۷ء
’’قرآن نمبر‘‘ (۱۱۹۰ صفحات، مقدّس مقامات کی ۴۰ رنگین تصاویر سے مزیّن)    ۲۰۱۰ء
{الحمدللہ!’’سیرت النبیﷺ‘‘ پر کام جاری ہے}
/
راقم الحروف کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ
’’ارمغانِ حمد‘‘
اُردو میں حمد کے موضوع پر اوّلین ماہنامہ
(خصوصی شماروں کی فہرست)
’’حفیظ تائب‘‘ (حمدونعت نمبر)     ۲۰۰۴ء
’’سیّد الشہداء امیر حمزہ‘‘(خصوصی اشاعت)    ۲۰۰۷ء
’’صبا اکبرآبادی‘‘(حمدونعت نمبر)    ۲۰۰۷ء
’’ڈاکٹر ابوالخیر کشفی‘‘(حمدونعت نمبر)    ۲۰۰۸ء
’’ڈاکٹر شمس جیلانی‘‘(حمدونعت نمبر)    ۲۰۰۸ء
’’حمدیہ و نعتیہ نظمیں‘‘ (خصوصی شمارہ)    ۲۰۰۸ء
’’حمدیہ و نعتیہ ہائیکو نمبر‘‘(خصوصی شمارہ)    ۲۰۰۸ء
’’شاہ انصار حسین الٰہ آبادی‘‘(حمدونعت نمبر)    ۲۰۱۰ء
’’حسن اکبر کمال‘‘(حمدونعت نمبر)    ۲۰۱۱ء
’’طاہرباتیں‘‘ (ماہنامہ’’ارمغانِ حمد‘‘میں شائع ہونے والے  اِداریوں کا مجموعہ)     ۲۰۱۱ء
’’حمدِاِلٰہ ومدح رسول‘‘ (غیرمنقوطہ حمدیہ و نعتیہ شاعری کا انتخاب)    ۲۰۱۱ء
’’حمدربّ ذوالجلال‘‘ (عربی و فارسی کلام پر مشتمل)    ۲۰۱۱ء
’’طرحی حمدیہ مشاعرے‘‘ (ماہانہ طرحی حمدیہ مشاعروں میں پڑھا گیا کلام)    ۲۰۱۲ء
’’ڈائمنڈجوبلی نمبر‘‘ (۱۰۰واں شمارہ،خصوصی اشاعت،صفحات۳۲۰)    ۲۰۱۲ء
٭
    کراچی شہر کو’’ شہر ِ حمد‘‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا اس عظیم شہر میں’’ بزمِ جہانِ حمد پاکستان‘‘ ہر ماہ طرحی حمدیہ مشاعرہ عیسوی مہینے کے پہلے اتوار کو بعد نماز مغرب منعقد کرتی ہے۔ان مشاعروں کے انعقاد سے حمد کی خوشگوار فضا قائم ہوئی ہے۔ کئی شعراء کرام کے مجموعہ ہائے حمد منظرعام پرآگئے ہیں اور ان مشاعروں کی وجہ سے کئی شعراء کے مجموعہ ہائے حمد اشاعت کے منتظر ہیں۔ مشاعرے میں پڑھا گیا کلام ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد‘‘ میں باقاعدگی سے شائع کیا جاتا ہے۔ فروغِ حمد کے حوالے سے بزمِ جہانِ حمد نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے اور حمد کو خاصا فروغ حاصل ہورہا ہے۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں حمدیہ انتخاب و حمد نمبر وں کا:
حمدیہ انتخاب:
    حمدیہ انتخاب اور حمد نمبروں کے حوالے سے بھی بہت کم کام ہوا ہے۔جو ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔حمدیہ انتخاب اور حمد نمبر کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔
نغمۂ توحید    ۱۹۸۱ء     مرتبین:صوفی عبدالغفار ،ظفر صابری(لاہور)
حمد    ۱۹۸۵ء    مرتب: درد اسعدی(حیدر آباد سندھ)
حمدومناجات    ۱۹۸۶ء    مرتبین:ضیاء محمد ضیاء،طاہر شادانی(لاہور)
مناجاتِ مقبول    ۱۹۸۶ء     مرتب:انیس احمد نوری(سکھّر)
خزینۂ حمد    ۱۹۹۵ء     مرتب:طاہر سلطانی(کراچی)
{اس انتخاب میں اُردو کے علاوہ دس زبانوں کا حمدیہ کلام اُردو ترجمے کے ساتھ شامل ہے}
اذانِ دیر    ۱۹۹۷ء     مرتب: طاہر سلطانی(کراچی)
{غیر مسلم شعراء کا حمدیہ کلام ،معہ کوائف}
الف اللہ    ۱۹۹۷ء      مرتب:مرتضیٰ اشعر(ملتان)
حریم ناز میں صدائے اللہ اکبر    ۱۹۹۹ء     مرتب:طاہر سلطانی(کراچی)
{۹۹ شاعرات کا کلام معہ کوائف شامل ہے}
انتخابِ حمد    ۲۰۰۲ء    مرتب:غوث میاں(کراچی)
خواتین کی حمدیہ شاعری    ۲۰۰۳ء     مرتب:غوث میاں(کراچی)
حمدِ خالق    ۲۰۰۳ء    مرتب:راجا رشید محمود(لاہور)
حمد نمبر:
ماہنامہ’’نعت‘‘    ۱۹۸۸ء    مرتب:راجا رشید محمود(لاہور)
’’مفیض‘‘    ۱۹۹۷ء    مدیر:محمد اقبال نجمی(گوجرانوالہ)
کتابی سلسلہ’’نعت رنگ‘‘    ۲۰۰۰ء    مرتّب:صبیح رحمانی(کراچی)
ماہنامہ ’’خیال وفن‘‘    ۲۰۰۰ء    مرتب: ممتازراشد(کراچی)
’’مفیض‘‘(حمدنمبر۲)    ۲۰۰۳ء    مدیر:محمد اقبال نجمی(گوجرانوالہ)
’’مناجات نمبر‘‘    ۲۰۰۳ء    مرتب:طاہرسلطانی(گوجرانوالہ)
یہ تھا اُردو حمد کا مختصر جائزہ جو میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیا۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!