اسلام
عمرو بن عبدود مارا گیا
سب سے آگے عمرو بن عبدود تھایہ اگرچہ نوے برس کا خرانٹ بڈھا تھا مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھاجنگ ِ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا،یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگاتین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیرخداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ”میں” حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے روکاکہ اے علی!کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم یہ عمرو بن عبدود ہے۔حضرت علی شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے لیکن میں اس سے لڑوں گا،یہ سن کر تاجدار نبوت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرارکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھااوریہ دعا فرمائی کہ یااللہ!عزوجل تو علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی مدد فرما ۔حضرت اسد اﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا:
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اے عمرو بن عبدود! تو مسلمان ہو جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھ سے کبھی ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑائی سے واپس چلا جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھے منظور نہیں!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو پھر مجھ سے جنگ کر!
عمرو بن عبدود ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا
میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔
عمرو بن عبدود آخر تمہارا نام کیا ہے؟
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ علی بن ابی طالب
عمرو بن عبدود اے بھتیجے!تم ابھی بہت ہی کم عمر ہومیں تمہارا خون
بہانا پسند نہیں کرتا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تمہاراخون بہانے کوبے حدپسندکرتا ہوں۔
عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیاحضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھااس پر جو غیرت سوار ہوئی توگھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اورحضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر تلوار کا بھرپور وار کیاحضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا،یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگامگر پھر بھی زندگی بھریہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیاحضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو! سنبھل جااب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد اﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ
الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچا تلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرااور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیااور میدان کارزار زبان حال سے پکار اٹھا کہ ؎
شاہِ مرداں، شیرِ یزداں قوتِ پرورد گار
لَا فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیااور منہ پھیر کر چل دئیے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے علی!کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔ (1)
(زُرقانی ج۲ ص۱۱۴و۱۱۵)