اسلام

خاطرمدارات اور واعظ نافع کی صفات

خاطرمدارات اور واعظ نافع کی صفات

پسرعزیز!  لوگوں
کی بہترین خاطر و مدارات کرنا،مگر ان سے دور رہنے کی پوری پوری کوشش کرنا،کیوں کہ
عزلت نشینی برے دوستوں کی صحبت کے مقابلے میں راحت رساں ہوتی ہے اور اس سے تمہارا
وقار لوگوں کی نگاہوں میں بحال رہتا ہے۔
ایک واعظ کے لیے بطورِ خاص یہ ضروری ہے کہ وہ فضول گو
نہ ہو،لوگوں کے سامنے نازیبا حرکت نہ کرے، بازاروں کے چکر نہ لگائے،اور زیادہ نہ
ہنسا کرے۔ تاکہ اس کے ساتھ حسن ظن قائم رہے اور لوگ اس کی بابت اچھا گمان رکھیں،  اس طرح اس کا وعظ و بیان اُن کے قلب و باطن کی
گہرائی میں اُترسکے گا۔
ہاں اگر کسی خاص ضرورت کے پیش نظر لوگوں میں جانا پڑ
جائے تو حلم کو اپنا امام بناؤ اور بردباری کے ساتھ ان سے پیش آؤ،کیوں کہ اگر تمہیں
ان کا اخلاق و کردار معلوم ہو جائے تو تم ان کی خاطرخواہ آؤ بھگت نہ کرسکوگے۔
حقوق کی اَدائیگی اور معاملات کی رعایت
عزیز از جان! 
بیوی و بچے اور اہل قرابت میں جس کے جو حقوق بنتے ہوں ان کی اَدائیگی میں کسی
تساہلی سے کام نہ لینا۔اور اپنے لمحات اور گھڑیوں کامحاسبہ کرتے رہنا کہ وہ کس کام
میں صرف ہو رہی ہیں۔بھرپور کوشش کرنا کہ وہ اچھے اور قابل تعریف کاموں میں گزریں۔
اپنے نفس کو آزاد نہ چھوڑ دو،بلکہ اسے کارِ خیر اور نیکیوں پراُکساتے رہو،اور اپنی
قبر کی کوٹھری میں آسودہ حال رہنے کے لیے جوبن پڑے آگے بھیج دو،تاکہ وہاں پہنچ کر آرام

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وسکون پاؤ۔بزبانِ شاعر  :

                        يا
من ب
دنياه  انشَغَل
                        يا
من غَرَّه طُول الامَل
                                                                                                المَوتُ يَاتي بَغتَةً
                                                                                                وَالقبرُ
صُندوقُ العمَل
            یعنی
اے وہ شخص! جو دنیا میں پورے طور پر مشغول و منہمک ہے اور لمبی لمبی اُمیدوں نے
دھوکے کے جال میں پھنسارکھاہے۔
یاد رہے کہ موت ہمیشہ اچانک آتی ہے، اور قبر عمل کا
صندوق ہے،(لہٰذا دیکھ لو کہ اپنے صندوق میں کیا کچھ بھیج رہے ہو)۔
ہمیشہ معاملات کے انجام کو دیکھو، ایسی صورت میں پسند
وناپسند چیز پر صبر کرنا تمہیں آسان ہو گا۔جب نفس غفلت کیشی شروع کر دے اور نیکیوں
میں دلچسپی لینا چھوڑ دے تو گورِ گریباں کی سیرکوچلے جایا کرو، اور اسے اپنے سانحہ
موت کی یاد دہانی کراتے رہو۔
اصل مدبر حقیقی تو پروردگار ہے تاہم جب کوئی معاملہ
درپیش ہو تو تدبیر کر کیا کرو کہ کہیں تمہارے اِنفاق میں اِسراف کی آمیزش تو نہیں ہے،
تاکہ لوگوں کا محتاج نہ بننا پڑے،کیوں کہ ہمارا دین‘ مال کی حفاظت کاسبق بھی دیتا
ہے۔ اپنے وارثوں کو محتاج بنانے سے بہتر ہے کہ اپنے بعد ان کے لیے کچھ چھوڑ جاؤ۔
(اپنے لختِ جگر کے لیے
مصنف ابن جوزی
مترجم علامہ محمدافروز القادری چریاکوٹی 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!