اسلام
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھو کریں سب کی کھائے کیوں
پھر کے گلی گلی تباہ ٹھو کریں سب کی کھائے کیوں
دِل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں
رُخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوں
سوتے ہیں اُن کے سایہ میں کوئی ہمیں جگائے کیوں
بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو
روئیں جو اَبْ نصیب کو چین کہو گنوائے کیوں
یادِ حُضور کی قسم غفلتِ عیش ہے سِتم
خُوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چُھڑائے کیوں
دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی
چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آنہ جائے کیوں
جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فَزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں
ہم تو ہیں آپ دِل فِگار غم میں ہنسی ہے ناگوار
چھیڑ کے گُل کو نوبہار خون ہمیں رُلائے کیوں
یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں
مِنّت غیر کیوں اُٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں
اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر
جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں
خوش رہے گُل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب
میری بَلا بھی ذِکر پر پھول کے خار کھائے کیوں
گردِ ملال اگر دُھلے دِل کی کلی اگر کِھلے
بَرق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں
جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو
کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں
اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی
میرے کریم پہلے ہی لقمہ تر کھلائے کیوں
راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دِیدہ کی
چادرِ ظل ہے مَلْگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں
سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے
جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں
ہے تو رضاؔ نِرا سِتَم جُرم پہ گر لجائیں ہم
کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طَرَب بجائے کیوں
٭…٭…٭…٭…٭…٭