اسلام
من دون اللہ
قرآن شریف میں یہ لفظ بہت زیادہ استعمال ہوا ہے ۔ عبادت کے ساتھ بھی آیا ہے ۔ تصرف اور مدد کے ساتھ بھی ، ولی اور نصیر کے ساتھ بھی ۔ شہید اور وکیل کے ساتھ بھی ، شفیع کے ساتھ بھی ۔ ہدایت ، ضلالت کے ساتھ بھی جیسے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والوں پر مخفی نہیں اور ہم بھی ہر طرح کی آیات گزشتہ مضامین میں پیش کرچکے ہیں ۔
اس لفظ دون کے معنی سواء اور علاوہ ہیں،مگر یہ معنی قرآن کی ہر آیت میں درست نہیں ہوتے ۔ اگر ہر جگہ اس کے معنی سواء کئے جا ئیں تو کہیں تو آیات میں سخت تعارض ہوگا اور کہیں قرآن میں صراحۃًجھوٹ لازم آئے گاجس کے دفع کے لئے سخت دشواری ہوگی قرآن کریم میں تامل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ تین معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
(۱) سواء، علاوہ(۲) مقابل(۳)اللہ کو چھوڑ کر ۔ جہاں من دون اللہ عبادت کے ساتھ ہو یا ان الفاظ کے ہمراہ آوے جو عبادت یا معبود کے معنی میں استعمال ہوئے ہوں تو اس کے معنی سواء ہوں گے کیونکہ خدا کے سوا ء کسی کی عبادت نہیں ہوسکتی، جیسے اس آیت میں ۔
(1) فَلَاۤ اَعْبُدُ الَّذِیۡنَ تَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللہَ الَّذِیۡ یَتوَفّٰىکُمْ
پس نہیں پوجتا میں انہیں جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوا اور لیکن میں تو اس اللہ کو پوجوں گا جو تمہیں موت دیتا ہے ۔(پ11،یونس:104)
(2) وَ یَعْبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُہُمْ وَ لَا یَضُرُّہُمْ
او رپوجتے ہیں وہ کافر اللہ کے سوا ء انہیں جو نہ انہیں نفع دیں نہ نقصان ۔(پ19،الفرقان:55)
(3) اُحْشُرُوا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ اَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوۡا یَعْبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾مِنۡ دُوۡنِ اللہِ
جمع کرو ظالموں کو اور ان کی بیویوں کو اور ان کو جن کی پوجا کر تے تھے یہ اللہ کے سواء۔(پ23،الصّٰفّٰت:22،23)
اس جیسی بہت سی آیات میں مِنْ دُوْنِ اللہِ کے معنی اللہ کے سواء ہیں کیونکہ یہ عبادت کے ساتھ آئے ہیں اور عبادت غیر اللہ کسی کی بھی نہیں ہوسکتی ۔
(4) قُلْ اَرَءَیۡتُمْ شُرَکَآءَکُمُ الَّذِیۡنَ تَدْعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ ؕ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا
فرماؤ کہ تم بتا ؤ کہ تمہارے وہ شرکاء جن کی تم پوجاکرتے ہو خدا کے سواء مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے کیا پیدا کیا ۔(پ22،فاطر:40)
(5) وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ ﴿۲۳﴾
اور بلا لو اپنے معبودوں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو ۔(پ1،البقرۃ:23)
(6) اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوْلِیَآءَ
تو کافر وں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ میرے بندوں کومیرے سوا معبود بنائیں ۔(پ16،الکہف:102)
ان جیسی آیا ت میں چونکہ دون کا لفظ تدعون اور اولیاء کے ساتھ آیا ہے اور یہاں تدعون کے معنی عبادت ہیں اور اولیاء کے معنی معبود لہٰذا یہاں بھی دون بمعنی علاوہ اور سواہوگا ۔ لیکن جہاں ”دون” مدد یا نصرت یا دوستی کے ساتھ آوے گا تو وہاں اس کے معنی صرف سواء کے نہ ہوں گے ۔ بلکہ اللہ کے مقابل یا اللہ کو چھوڑ کر ہوں گے یعنی اللہ کے سواء اللہ کے دشمن۔ اس تفسیر اور معنی میں کوئی دشواری نہ ہوگی جیسے
(1) اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾
کہ میرے مقابل کسی کو وکیل نہ بناؤ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:2)
(2) اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ
کیا ان لوگوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں۔(پ24،الزمر:43)
(3) وَمَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ ﴿۱۰۷﴾
اور اللہ کے مقابل نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار ۔(پ1،البقرۃ:107)
(4) وَّلَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷۳﴾
اور وہ اللہ کے مقابل اپنا نہ کوئی دوست پائینگے اور نہ مدد گار ۔(پ6،النسآء:173)
(5) لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ
مومن مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔(پ3،اٰل عمرٰن:28)
(6) وَمَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾
اور جو شیطان کو دوست بنائے خدا کو چھوڑ کر وہ کھلے ہوئے گھاٹے میں پڑگیا ۔(پ5،النسآء:119)
(7) وَمَا کَانَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ مِنْ اَوْلِیَآءَ
اور نہیں ہے ان کافروں کے لئے اللہ کے مقابل کوئی مدد گار ۔(پ12،ہود:20)
ان جیسی تمام ان آیتوں میں جہاں مدد، نصرت ، ولایت، دوستی وغیرہ کے ساتھ لفظ دون آیا ہے ۔ ان میں اس کے معنی صرف سواء یا علاوہ کے نہیں بلکہ وہ سواء مراد ہے جو رب تعالیٰ کا دشمن یا مقابل ہے ۔ لہٰذا اس دون کے معنے مقابل کرنا نہایت موزوں ہے جن مفسرین نے یا تر جمہ کرنیوالوں نے ان مقامات میں سواء ترجمہ کیا ہے ان کی مراد بھی سواء سے ایسے ہی سواء مرا دہیں ۔ اس دون کی تفسیر یہ آیات ہیں:
(1) وَ اِنۡ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَنۡصُرُکُمۡ مِّنۡۢ بَعْدِہٖ
اوراگر رب تمہیں رسوا کرے تو کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:160)
(2) لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷﴾
تم فرماؤ کہ وہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچائے اگر ارادہ کرے رب تمہارے لئے برائی کا اور ارادہ کرے مہربانی کا اور وہ اللہ کے مقابل کوئی نہ دوست پائیں گے نہ مد د گار ۔(پ21،الاحزاب:17)
(3) اَمْ لَہُمْ اٰلِہَۃٌ تَمْنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ؕ
کیا ان کے کچھ ایسے خدا ہیں جو انہیں ہم سے بچالیں۔(پ17،الانبیآء:43)
ان آیات نے تفسیر فرمادی کہ جہاں مد د یادوستی کے ساتھ لفظ دون آئے گا وہاں مقابل اور رب کو چھوڑ کر معنی دے گا نہ کہ صرف سواء یاعلاوہ کے ۔
نیز اگر اس جگہ دون کے معنی سواء کئے جائیں تو آیات میں تعارض بھی ہوگا کیونکہ مثلاً یہاں تو فرمایا گیا رب کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مدد گار نہیں اور جو آیات ولی کی بحث میں پیش کی گئیں وہاں فرمایا گیا کہ تمہارا ولی اللہ اوررسول اور نیک مومنین ہیں یا تمہارے ولی فرشتے ہیں یا فرمایا گیا کہ اے مولیٰ اپنی طر ف سے ہمارے مدد گار فرما ۔ ا س تعارض کا اٹھانا بہت مشکل ہوگا ۔
نیز اگر ان آیات میں دون کے معنی سواء کئے جائیں تو عقل کے بالکل خلاف ہوگا اور رب کا کلام معا ذ اللہ جھوٹا ہوگا ۔
مثلاً یہا ں فرمایا گیا کہ اَمِ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ شُفَعَآءَ ؕ انہوں نے خدا کے سوا سفارشی بنالیئے ۔ سفارشی تو خدا کے سواہی ہوگا۔(پ۲۴،الزمر:۴۳)
خدا تو سفارشی ہوسکتا ہی نہیں یا فرمایاگیا:
اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ (بنیۤ اسرآء یل:2) میرے سوا کسی کو وکیل نہ بناؤ حالانکہ دن رات وکیل بنایا جاتا ہے اب وکیل کے معنی کی تو جیہیں کرو اور شفعاء کے متعلق بحث کرتے پھرو لیکن اگر یہاں دون کے معنی مقابل کرلئے جائیں تو کلام نہایت صاف ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل نہ کوئی سفارشی ہے نہ وکیل، نہ کوئی حمایتی ہے نہ کوئی مدد گار نہ کوئی دوست جو کوئی جو کچھ ہے وہ رب تعالیٰ کے ارادہ اور اسی کے حکم سے ہے لہٰذا جہاں بندوں سے ولایت، حمایت، مدد، دوستی کی نفی ہے وہاں رب تعالیٰ کے مقابل ہوکر ہے کہ رب تعالیٰ چاہے ہلاک کرنا اور یہ مدد کر کے بچالیں او رجہاں ان چیز وں کا بندوں کے لئے ثبوت ہے وہاں اذن الٰہی سے مدد نصرت وغیرہ ہے ۔
اعتراض : ان آیات میں مِنْ دُوْنِ اللہِ سے اللہ کے سواء ہی مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا ء غائبانہ مافوق الاسباب مدد کرنے والا کوئی نہیں ۔ یہ ہی عقیدہ شرک ہے جن آیتو ں میں اللہ کے بندوں کی مدد اور ولایت کا ثبوت ہے ۔ وہاں حاضرین زندوں کی اسباب غائبانہ مدد مراد ہے ۔(جواہر القرآن)
جواب:یہ تو جیہہ بالکل غلط ہے چند وجہوں سے ایک یہ کہ نفی مدد کی آیتوں میں کوئی قید نہیں ہے مطلق ہیں تم نے اپنے جیب سے اس میں تین قیدیں لگائیں غائبانہ، مافوق الاسباب ، مردو ں کی مدد ، قرآن کی آیت خبر واحد سے بھی مقید نہیں ہوسکتی اور تم صرف اپنے گمان وہم سے مقید کر رہے ہو ۔ او راگردون کوبمعنی مقابل لیا جاوے تو کوئی قید
لگانی نہیں پڑتی ۔
دوسرے یہ کہ تمہاری یہ تفسیر خود قرآن کی اپنی تفسیر کے خلاف ہے قرآن کی مذکورہ بالا آیات نے بتایا کہ یہاں دون بمعنی مقابل ہے ۔ لہٰذا تمہاری یہ تفسیر تحریف ہے ۔ تفسیر نہیں ۔ تیسرے یہ کہ ان قیدوں کے با وجود آیت درست نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ سے بیٹھے ہوئے حضرت ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ کی مافوق الاسباب مدد فرمادی کہ انہیں دشمن کی خفیہ تدبیر سے مطلع فرمادیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کی مافوق الاسباب دور سے مدد فرمادی کہ اپنی قمیص کے ذریعہ باذن پر ور دگار ان کی آنکھیں روشن فرمادیں اور ظاہر ہے کہ قمیص آنکھ کی شفا کا سبب نہیں لہٰذا یہ مدد مافوق الاسباب ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات کے بعد ہماری مافوق الاسباب یہ مدد کی کہ پچاس نمازوں کی پانچ کرادیں۔
اس قسم کی سینکڑوں مددیں ہیں جو اللہ کے پیاروں نے غائبانہ مافوق الاسباب فرمائیں ۔ تمہاری اس تفسیر کی رو سے سب شرک ہوگئیں غرضیکہ تمہاری یہ تفسیر درست نہیں ہوسکتی ۔چوتھے یہ کہ تم اپنی قیدوں پر خود قائم نہ رہو گے ۔ اچھا بتاؤ ۔اگر غائبانہ امداد تو منع ہے کیا حاضر انہ امداد جائز ہے تو بتا ؤ کسی زندہ ولی سے اس کے پاس جاکر فر زند مانگنا یا رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر پر جاکر حضور سے جنت مانگنا ودوزخ سے پناہ مانگنا جائز ہے تم اسے بھی شرک کہتے ہو تو تمہاری یہ قیدیں خود تمہارے مذہب کے خلاف ہیں بہر حال یہ قیود باطل ہیں ان آیات میں دون بمعنی مقابل ہے ۔