اسلام
ایک وضاحت
ایک وضاحت
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے جو امام کے پیچھے خاموش رہنے کی بات کی ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس سے مقصود مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے سے روکنا ہے۔
ایسا نہیں ہے بلکہ شیخ کا مقصد وہی ہے جو حدیث پاک میں وارد ہو چکا ہے کہ خاموشی سے مطلوب بلند آواز سے نہ پڑھنا ہے جس سے امام کے لیے غلطی کا احتمال ہوتا ہے، ورنہ فاتحہ کا ترک مقصود نہیں ہے۔ چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک بار ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا رہے تھے کہ اٹکنے بھولنے لگے۔ نماز ختم ہوئی تو اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ کیا تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، تو فرمایا میں بھی کہتا تھا کہ مجھ سے نماز چھینی کیوں جا رہی ہے۔ پھر ہدایت کی کہ آئندہ کے لیے یاد رکھو جب میں قرأت کر رہا ہوں تو میرے پیچھے سوائے ( پست آواز میں ) سورہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ( ابوداود، ترمذی، نسائی )
حضرت ابوہریرہؓ نے ایک روز اپنی مجلس میں مسئلہ بیان کیا کہ نماز میں سورہ فاتحہ کی قرأت سے کبھی کوتاہی نہ کرنا۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ حاضرین میں سے ایک بزرگ نے بات اٹھائی کہ ابوہریرہؓ! ہم کبھی امام کے پیچھے ہوتے ہیں، وہ قرأت کر رہا ہوتا ہے تو ایسی صورت میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا کیونکر ممکن ہے؟ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: اقرابھا فی نفسک کہ ( سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم امر ہے ) ایسی صورت میں تم اس کو اپنے جی میں پڑھ لیا کرو۔ ( ابن ماجہ )
حضرت عبادہؓ حضرت مکحولؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے۔ امام کی اقتداء کی حالت میں سورہ فاتحہ کو امام کے سکتوں میں پڑھ لیا کرو یعنی امام جب ایک آیت ختم کر کے اگلی شروع کرنے لگے تو اس وقفہ میں تم وہ آیت پڑھ لو۔ ( ابوداود )
ایسے ہی ہمارے احناف اہل علم بزرگوں میں کچھ بزرگ اسی مسلک کو صحیح سمجھتے ہیں چنانچہ مولانا عبدالحئی لکھنوی تحریر فرماتے ہیں کہ امام کے سکتوں میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا کے خلاف نہیں پڑتا اور ہم میں سے جو لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ( امام الکلام حضرت لکھنوی )
ٹھیک یہی مسلک حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا بھی ہے اور وہ وقفوں اور سکتوں یا پست آواز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے خلاف نہیں ہیں ورنہ وہ اس کو نماز کا رکن کیوں قرار دیتے۔ جو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے ہی بلا امتیاز مقتدی اور منفرد لازم ہے۔
سوال: کہا گیا ہے کہ سورہ فاتحہ کے نہ پڑھنے سے نماز کا باطل ہونا منفرد یعنی اکیلے نمازی کے لیے ہے مقتدی کے لیے نہیں۔
جواب: یہ بات غلط ہے بلکہ لکل مصل ان یقدم النیة لصلاتہ ( غنیة الطالبین صفحہ 852 )
یعنی یہ حکم ہر اس شخص کے لیے ہے جو نماز کی نیت سے کھڑا ہو اور خوب یاد رکھو۔ ھذا الذی ذکرنا یشترک فیہ الامام والماموم والمنفرد۔ ( غنیة الطالبین صفحہ 858 )
کہ ہم نے یہ جو کچھ بیان کیا ہے اس میں امام مقتدی اور اکیلا نمازی سارے شامل ہیں۔