اسلام

نبی و رسول

عقیدہ :۱اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے بہت سے پیغمبروں کو دنیا میں بھیجا۔ یہ سب پیغمبر تمام گناہوں سے پاک ہیں ۔
         (المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، الکلام علی العصمۃ ، ص۲۲۷)
    اور اﷲتعالیٰ کے بہت ہی نیک بندے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے سب پیغمبروں کا یہی کام ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کے پیغام اور اس کے احکام کو بندوں تک پہنچاتے ہیں۔
         (شرح العقائد النسفیۃ،کتاب مبحث النبوات،ص۱۴۰)
     اﷲتعالیٰ نے ان پیغمبروں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں پر ایسی ایسی حیرت اور تعجب میں ڈالنے والی چیزیں ظاہر فرمائیں جو بہت ہی مشکل اور عادت کے خلاف ہیں جو دوسرے لوگ نہیں کرسکتے۔ ان چیزوں کو ”معجزہ” کہتے ہیں۔
 (شرح العقائد النسفیۃ ، والنوع الثانی خبر الرسول المؤید بالمعجزۃ ، ص۱۷، مبحث النبواۃ ، ص۱۳۵)
    جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا کہ وہ اژدہا بن کر فرعون کے سامنے جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا۔
 (روح البیان،طٰہٰ:۷۰،ج۵،ص۴۰۵)
اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا۔
    (پ۳،اٰل عمران:۴۹)
اور ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا چاند کو دو ٹکڑے کردینا۔
 (المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع فی المعجزات ،الفصل الاول فی معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۲،ص۵۲۳)
ڈوبے ہوئے سورج کو واپس لوٹادینا۔
 (المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع فی المعجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ج۲،ص۵۲۸۔۵۲۹)
کنکریوں سے اپنا کلمہ پڑھوالینا۔
    (الخصائص الکبری،با ب التسبیح الحصی والطعام،ج۲،ص۱۲۵)
انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری کردینا۔
 (صحیح البخاری، کتاب المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام ،رقم ۳۵۷۶،ج۲،ص۴۹۳)
یہ سب معجزات ہیں۔ ان پیغمبروں کو نبی کہتے ہیں۔ اور ان نبیوں میں سے جو خداوند تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی آسمانی کتاب اور نئی شریعت لے کر آئے وہ ”رسول” کہلاتے ہیں۔
 (النبراس، تعریف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ،ص۵۴/ المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، الکلام علی العصمۃ ، ص۲۳۱)
نبی سب مرد تھے’ نہ کوئی جن نبی ہوا’ نہ کوئی عورت۔
 (پ۱۴،النحل:۴۳/ تفسیر بیضاوی مع حاشیۃ محی الدین شیخ زادہ ، ج۵،ص۲۷۴)
نبی سب انسانوں سے زیادہ عقلمند ہوتے ہیں اور بے عیب بھی۔
            (المسامرۃبشرح المسایرہ،شروط النبوۃ،ص۲۲۶)
عقیدہ :۲سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہیں۔
 (شرح العقائد النسفیۃ ، اول الانبیاء آدم علیہ السلام واخرھم محمد علیہ السلام ،ص۱۳۶)
اور باقی تمام نبی و رسول ان دونوں کے درمیان ہوئے۔ ان پیغمبروں میں سے جو بہت مشہور ہیں۔ اور قرآن مجید اور احادیث میں جن کا باربار ذکر آیا ہے۔ وہ یہ ہیں:۔
 (۱)حضرت نوح علیہ السلام        (پ۱۷، الانبیآء : ۷۶)
(۲)حضرت ابراہیم علیہ السلام         (پ۱۷،الانبیاء:۶۹)
(۳)حضرت اسمٰعیل علیہ السلام         (پ۱۷،الانبیاء:۸۵)
(۴)حضرت اسحاق علیہ السلام        (پ۱۷،الانبیاء:۷۲)
(۵)حضرت یعقوب علیہ السلام     (پ۱۷،الانبیاء:۷۲)
(۶)حضرت یوسف علیہ السلام        (پ۱۲،یوسف:۴) 
(۷)حضرت داؤد علیہ السلام        (پ۱۷،الانبیاء:۷۹)
(۸)حضرت سلیمان علیہ السلام         (پ۱۷،الانبیاء:۸۱)
(۹)حضرت ایوب علیہ السلام        (پ۱۷،الانبیاء:۸۳)
(۱۰)حضرت موسیٰ علیہ السلام        (پ۱۷،الانبیاء:۴۸)
(۱۱)حضرت ہارون علیہ السلام    (پ۱۷،الانبیاء:۴۸)
(۱۲)حضرت زکریا علیہ السلام        (پ۷،الانعام:۸۵) 
(۱۳)حضرت یحیی علیہ السلام         (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۴)حضرت عیسیٰ علیہ السلام        (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۵)حضرت الیاس علیہ السلام    (پ۷،الانعام:۸۵)
(۱۶)حضرت الیسع علیہ السلام        (پ۷،الانعام:۸۶) 
(۱۷)حضرت یونس علیہ السلام         (پ۷،الانعام:۸۶)
(۱۸)حضرت لوط علیہ السلام        (پ۷،الانعام:۸۶)
(۱۹)حضرت ادریس علیہ السلام     (پ۱۷،الانبیآء :۸۵)
(۲۰)حضرت صالح علیہ السلام         (پ۱۹،النمل:۴۵)
(۲۱)حضرت ہود علیہ السلام        (پ۱۹،الشعرآء: ۱۲۴)
(۲۲)حضرت شعیب علیہ السلام    (پ۱۲،ھود:۸۴)
(۲۳)حضرت محمد رسول اﷲ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم     (پ۴،اٰل عمران:۱۴۴)
عقیدہ :۳ نبیوں پر اﷲتعالیٰ نے جو صحیفے اور آسمانی کتابیں اتاریں۔
            (النبراس ، بیان الکتب المنزلۃ، ص۲۹۰)
    ان میں سے چار بہت مشہور ہیں:
     ”توریت” حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔(پ۶،المائدۃ:۴۴)
     ”زبور” حضرت داود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔(پ۱۵،بنی اسرائیل:۵۵)
     ”انجیل” حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر۔(پ۶،المائدۃ:۴۶)
     ”قرآن مجید” جو سب سے افضل کتاب ہے وہ سب سے افضل رسول حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم پر۔
 (پ۲۹،الدھر:۲۳)
عقیدہ :۴خدا کے نبیوں کی کوئی تعداد معین کرنی جائز نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ اور نبیوں کی کسی معین تعداد پر ایمان لانے میں یہ احتمال ہے کہ کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو جائے ۔
 (شرح العقائد النسفیۃ، مبحث اول الانبیاء آدم علیہ السلام ،ص۱۳۹۔۱۴۰/الفتاوٰی الرضویہ الجدیدۃ، کتاب السیر ، ج۱۵،ص۲۴۸/شرح الملا علی القاری علی الفقہ الاکبر، الانبیآء منزھون عن الکبائر والصغائر، ص۵۷/الشفاء فصل فی بیان ما ھو من المقالات کفر ، ص۲۴۵)
یا غیر نبی کو نبی مان لیا جائے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں۔ اس لئے یہ اعتقاد رکھنا چاہے کہ اﷲتعالیٰ کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔
عقیدہ :۵مسلمان کے لئے جس طرح اﷲتعالیٰ کی ذات و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح ہر نبی کی نبوت پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔
عقیدہ :۶ہر نبی اور فرشتہ کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔
 (النبراس ، مبحث مسئلہ عصمۃ الانبیاء علیہم السلام ،ص۲۸۳النبراس ، مبحث الملائکہ علیہم السلام ،ص۲۸۷)
اماموں کو نبیوں کی طرح معصوم سمجھنا بددینی و گمراہی ہے۔ نبیوں اور فرشتوں کے معصوم ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اﷲتعالیٰ نے ان حضرات کو گناہوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمالیا ہے۔ اس سبب سے ان حضرات کا  گناہ میں مبتلا ہونا شرعاً محال ہے برخلاف اماموں اور اولیاء کے۔ اﷲتعالیٰ انہیں گناہوں سے بچاتا ہے۔ لیکن اگر کبھی ان حضرات سے کوئی گناہ صادر ہو جائے تو یہ شرعاً محال نہیں۔
                     (بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۱۳)
عقیدہ :۷اﷲتعالیٰ نے پیغمبروں پر شریعت کے جتنے احکام تبلیغ کے لئے نازل فرمائے ان پیغمبروں نے ان تمام حکموں کو خدا کے بندوں تک پہنچادیا ہے۔
 (الیواقیت والجواہر ، المبحث الثانی والثلاثون فی ثبوت رسالۃ نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ج۲،ص۲۵۲)
جو شخص یہ کہے کہ کسی نبی نے کسی حکم کو تقیہ یعنی خوف کی وجہ سے یا اور کسی وجہ سے چھپالیا اور خدا کے بندوں تک نہیں پہنچایا وہ کافر ہے۔
 (المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد، منہ تبلیغ جمیع ما امروا بتبلیغہ، ص۱۱۳۔۱۱۴)
عقیدہ :۸حضرات انبیاء علیہم السلام کے جسموں کا برص و جذام وغیرہ ایسے امراض سے جن سے نفرت ہوتی ہے پاک ہونا ضروری ہے۔
            (المسامرۃ بشرح المسایرۃ ، شروط النبوۃ ، ص۲۲۶)
عقیدہ :۹اﷲتعالیٰ نے اپنے نبیوں خاص کر حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو بہت سی غیب کی باتوں کا علم عطا فرمایا ہے۔
  (پ۴،اٰل عمران: ۱۷۹/پ۵،النسآء :۱۱۳)
یہاں تک کہ زمین و آسمان کا ہر ذرہ ہر نبی کی نظروں کے سامنے ہے۔ مگر حضرات انبیاء علیہم السلام کا یہ علم غیب اﷲتعالیٰ کے عطا فرمانے سے ہے۔
 (پ۷،الانعام:۵۰/پ۲۹،الجن:۲۶۔۲۷)
لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا۔ اور اﷲتعالیٰ کے علم کا عطائی ہونا محال ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ کا کوئی کمال کسی کا دیا ہوا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کا علم اور اس کا ہر کمال ذاتی ہے۔
            (پ۷،الانعام:۵۹/پ۲۲،سبا:۳/پ۱۱،یونس:۲۰)
اﷲتعالیٰ اور نبیوں کے علم غیب میں ایک بہت بڑا فرق تو یہی ہے کہ نبیوں کا علم غیب عطائی (اﷲ کا دیا ہوا) ہے اور اﷲتعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے یعنی کسی کا دیا ہوا نہیں ہے۔ کہاں عطائی اور کہاں ذاتی’ دونوں میں بڑا فرق ہے۔ جو لوگ انبیاء بلکہ حضرت سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے مطلق علم غیب کا انکار کرتے ہیں۔ وہ قرآن کی بعض آیتوں کو مانتے ہیں اور بعض آیتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔
   (پ۱،البقرۃ:۸۵)
    قرآن مجید میں دونوں قسم کی آیتیں ہیں۔ بعض آیتوں میں یہ ہے کہ خدا کے نبیوں کو علم غیب حاصل ہے اور بعض آیتوں میں یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں آیتیں حق ہیں اور ان دونوں آیتوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور ان دونوں آیتوں میں سے کسی کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔ جہاں جہاں
قرآن میں یہ ہے کہ نبیوں کو علم غیب حاصل ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ نبیوں کو خدا کے عطا فرمانے سے غیب کا علم حاصل ہے اور جہاں جہاں قرآن میں یہ ہے کہ اﷲ تعالی کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ بغیر اﷲتعالیٰ کے بتائے ہوئے کسی کو بھی کسی چیز کا علم غیب حاصل نہیں ہے۔ ہرگز ہرگز ان دونوں قسم کی آیتوں میں کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہے۔
عقیدہ :۱۰حضرات انبیائے کرام تمام مخلوق یہاں تک کہ فرشتوں کے رسولوں سے بھی افضل ہیں۔
               (بہارشریعت،ج۱،ح۱،ص۱۵)
ولی کتنے ہی بڑے مرتبے والا ہو مگر ہرگز ہرگز کسی نبی کے برابر نہیں ہو سکتا۔( جو کسی غیر نبی کو کسی نبی سے افضل یا برابر بتائے وہ کافر ہے۔)
 (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ، فصل فی بیان ماھومن المقالات کفر ، ص۲۵۱)
عقیدہ :۱۱حضرات انبیاء علیہم السلام کے مختلف درجے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔
        (پ۳،البقرۃ:۲۵۳)
سب سے افضل و اعلیٰ ہمارے حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہیں۔
 (پ۲۲،سبا:۲۸/شرح العقائدالنسفیہ،مبحث افضل الانبیاء علیہم السلام،ص۱۴۱)
پھر حضور کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کا ہے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ‘ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کا درجہ ہے۔ ان پانچوں حضرات کو مرسلین اولوالعزم کہتے ہیں۔ اور یہ پانچوں باقی تمام انبیاء ومرسلین سے افضل ہیں۔
 (حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین، پ۲۶،الاحقاف:تحت آیت ۳۵،ج۵، ص۱۹۴۷ / شرح الملاء علی القاری علی الفقہ الاکبر،تفضیل بعض الانبیاء علی بعض ،ص۱۱۶)
عقیدہ :۱۲حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازمِ حیات کے ساتھ
زندہ ہیں۔
 (سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز ،باب ذکروفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وسلم ،رقم۱۶۳۷،ج۲،ص۲۹۱)
اﷲتعالیٰ نے ان کو زندگی عطا فرمادی۔ خدا کے نبیوں کی حیات شہیدوں کی حیات سے کہیں بڑھ چڑھ کر ارفع واعلیٰ ہے۔
 (حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین ،پ۳،آل عمران:۱۶۹،ج۱، ص۳۳۳، وآیت:۱۸۵،ج۱،ص۳۴۰)
یہی وجہ ہے کہ شہیدوں کا ترکہ تقسیم کردیا جاتا ہے اور ان کی بیویاں عدت کے بعد دوسروں سے نکاح کر سکتی ہیں۔ مگر انبیاء علیہم السلام کا نہ ترکہ تقسیم ہوتا ہے۔
 (سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ ، باب فضل العلماء والبحث علی طلب العلم ، رقم ۲۲۳،ج۱،ص۱۴۵/صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانورث ، رقم ۱۷۵۹،ص۹۶۶)
نہ ان کی بیویاں عدت کے بعد دوسروں سے نکاح کرسکتی ہیں۔
 (پ۲۲،الاحزاب:۵۳/الخصائص الکبری ، باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم،بتحریم النکاح ازواجہ من بعدہ ، ج۲،ص۱۹۰۔۱۹۱)
عقیدہ :۱۳ہمارے آقا و مولیٰ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ”خاتم النبیین” ہیں۔ یعنی اﷲتعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ذات پر سلسلہ نبوت کو ختم فرما دیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے زمانہ میں یا اس کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ جو شخص حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے زمانہ میں یا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے بعد کسی کو نبوت ملنے کو مانے یا کسی نئے نبی کے آنے کو ممکن مانے وہ شخص کافر ہے۔
 (پ۲۲، الاحزاب:۴۰،المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد،تکمیل الباب ، ص۱۲۰)
عقیدہ :۱۴ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اﷲتعالیٰ نے جاگتے میں جسم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک اور وہاں سے ساتوں آسمانوں کے اوپر اور وہاں سے جہاں تک اﷲتعالیٰ کو منظور ہوا رات کے ایک مختصر حصہ میں پہنچایا اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے عرش و کرسی اور لوح و قلم اور خدا کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا۔ اور خدا کے دربار میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو وہ قرب خاص حاصل ہوا کہ کسی نبی اور فرشتہ کو نہ کبھی حاصل ہوا نہ کبھی حاصل ہوگا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے اس آسمانی سفر کو ”معراج” کہتے ہیں۔
 (التفسیرات الاحمدیۃ ، بنی اسرآء یل تحت آیت :۱،مسئلۃ المعراج ، ص۵۰۲۔۵۰۵/ النبراس،بیان المعراج، ص۲۹۲۔۲۹۵)
معراج میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے اپنے سر کی آنکھوں سے جمال الٰہی عزوجل کا دیدار کیا
 (پ۲۸،النجم:۱۳۔۱۷/فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب المعراج، رقم ۳۸۸۸،ج۸،ص۱۸۶)
اور بغیر کسی واسطہ کے اﷲتعالیٰ کا کلام سنا۔ اور تمام ملکوت السموات والارض کے ذرہ ذرہ کو تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمایا۔
(روح المعانی، پ۶،النسآء:۱۶۴،ج۳،ص۲۸)
عقیدہ :۱۵ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو اﷲتعالیٰ نے قیامت کے دن شفاعت کبریٰ اور مقام محمود کا شرف عطا فرمایا ہے۔ جب تک ہمارے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم شفاعت کا دروازہ نہیں کھولیں گے کسی کو بھی مجال شفاعت نہ ہوگی بلکہ تمام انبیاء و مرسلین حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہی کے دربار میں اپنی اپنی شفاعت پیش کریں گے۔ اﷲعزوجل کے دربار میں درحقیقت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہی شفیع اوّل و شافع اعظم ہیں۔
 (روح البیان، پ۱۵،الاسراء:۷۹،ج۵،ص۱۹۲/ روح المعانی،پ۱۵، الاسراء:۸۹، ج۸،ص۲۰۲۔۲۰۴)
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شفاعت کے بعد تمام انبیاء و اولیاء وصلحا و شہداء وغیرہ سب شفاعت کریں گے ۔
(المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد ، تکمیل الباب ، ص۱۲۹)
عقیدہ :۱۶حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت مدار ایمان بلکہ عین ایمان ہے۔ جب تک حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی محبت ماں باپ اولاد بلکہ تمام جہاں سے زیادہ نہ ہو۔ کوئی شخص کامل مسلمان نہیں ہو سکتا۔
 (پ۱۰،التوبۃ:۲۴/ صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان،رقم ۱۵،ج۱،ص۱۷)
عقیدہ :۱۷حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تعظیم و توقیر ہر مسلمان پر فرض اعظم بلکہ جان ایمان ہے۔
(پ۲۶،الفتح:۹/الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم،الجزء الثانی، فصل واعلم ان حرمۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ص۳۲ )
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تمام صحابہ و اہل بیت اور تمام متعلقین و متوسلین سے محبت رکھے۔ اور ان سب کی تعظیم و تکریم کرے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے تمام دشمنوں سے عداوت و دشمنی رکھے۔ اگرچہ وہ اپنا باپ یا بیٹا یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ رسول سے بھی محبت ہو اور ان کے دشمنوں سے بھی الفت ہو۔
 (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ،الجزء الثانی ، فصل فی علامات محبتہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ص۲۱/ پ۲۸،المجادلۃ:۲۲/ پ۱۰،التوبۃ:۲۳)
عقیدہ :۱۸حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم اﷲتعالیٰ کے نائب مطلق ہیں۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے۔    
اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی اطاعت اﷲعزوجل کی اطاعت ۔
                        (پ۵،النسآء:۸۰)
اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی نافرمانی اﷲتعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
        (المعجم الاوسط ، من اسمہ ابراہیم ، رقم ۲۴۰۱،ج۲،ص۳۲)
تمام جہان کو اﷲتعالیٰ نے حضور کے زیر تصرف کردیا ہے۔ اورآسمان وزمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس ہاتھوں میں دے کر آپ کو اپنی تمام نعمتوں اور عطاؤں کا قاسم بنادیا ہے۔
 (صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ، باب اثبات حوض نبینا صلی اللہ علیہ وسلم وصفاتہ ، رقم ۲۲۹۶،ص۱۲۵۸/ المواہب اللدنیۃ ، الفصل الثانی ، اعطی مفاتیح الخزائن ، ج۲،ص۶۳۹)
چنانچہ ہر قسم کی عطائیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔
 (صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین ، رقم ۷۱،ج۱،ص۴۲)
سبحان اﷲ ! ؎
رب ہے معطی’ یہ ہیں قاسم
رزق اس کا ہے کھلاتے یہ ہیں
    عقیدہ :۱۹حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے کسی قول وفعل و عمل و حالت کو جو حقارت کی نظر سے دیکھے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی شان میں کوئی ادنیٰ سی گستاخی یا توہین و بے ادبی کرے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو جھٹلائے یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے کلام میں شک کرے۔
(حاشیۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین ، پ ۱۸ النور:۶۳،ج۴،ص۱۴۲۱/الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، الجزء الثانی ، فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر، ص۲۴۶)
یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم میں کوئی عیب نکالے۔ یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی کسی سنت کو برا سمجھے یا مذاق اڑائے وہ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔
(البحرالرائق ، کتاب السیر ، با ب احکام المرتدین، ج۵،ص۲۰۳۔۲۰۴/ الفتاوی الھندیہ ، کتاب السیر ، الباب التاسع فی احکام المرتدین مطلب موجبات الکفرانواع ، ج۲،ص۲۶۳۔۲۶۴)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!