اسلام

ساداتِ کرام کو زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ

     سادات کرام اور دیگربنوہاشم کو زکوٰۃ اس لئے نہیں دے سکتے کہ سادات کرام اور دیگر بنوہاشم پر زکوٰۃ حرامِ قطعی ہے جس پر چاروں مذاہب (یعنی حنفی، شافعی، حنبلی ، مالکی )کے ائمہ کرام کا اجماع ہے ۔ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”باتفاقِ ائمہ اربعہ بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب پر صدقہ فرضیہ حرام ہے ۔”
 (فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ،ج۱۰،ص۹۹)
بنو ہاشم کون ہیں؟
    بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب سے مراد پانچ خاندان ہیں،آلِ علی،آلِ عباس ، آلِ جعفر، آل عقیل، آلِ حارث بن عبدالمطلب ۔ ان کے علاوہ جنھوں نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی اِعانت نہ کی، مثلاً ابو لہب کہ اگرچہ یہ کافر بھی حضرت عبدالمطلب کا بیٹا تھا، مگر اس کی اولادیں بنی ہاشم میں شمار نہ ہوں گی۔
(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الزکوٰۃ،الباب السابع فی المصارف ،ج۱،ص۱۸۹و بہارِشریعت ،ج۱،حصہ۵،مسئلہ ۳۹ص۹۳۱)
بنو ہاشم کو زکوٰۃ نہ دینے کی حکمت
    اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے”یہ صدقات لوگوں کے مَیل ہیں ،نہ یہ محمد(صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم) کو حلال ہیں اورنہ محمد(صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم) کی آل کو ۔”
 (صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ،باب ترک استعمال…الخ،الحدیث۱۰۷۲،ص۵۴۰)
     حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:”یہ حدیث ایسی واضح اور صاف ہے جس میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی یعنی
مجھے اور میری اولاد کو زکوٰۃ لینا اس لئے حرام ہے کہ یہ مال کا میل ہے ،لوگ ہمارے میل سے ستھرے ہوں ہم کسی کا میل کیوں لیں۔”(مراٰ ۃ المناجیح،ج۳،ص۴۶)
سادات کی امداد کی صورت
    اولاً تو مالداروں کو چاہے کہ اپنے مال سے بطورِ ہدیہ ان حضراتِ عالیہ کی خدمت اپنی جیب سے کریں اور وہ وقت یاد کریں کہ جب ان ساداتِ کرام کے جدِّاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلّم کے سوا ظاہر ی آنکھوں کو بھی کوئی ملجاوماوا نہ ملے گا ۔ وہ مال جو انہی کی بارگاہ سے عطا ہوا اور عنقریب چھوڑ کر زیرِ زمین جانے والے ہیں اگر ان کی خوشنودی کے لئے ان کی مبارک اولاد پر خرچ ہوجائے تو اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہوگی ۔ اور اگر کسی علاقے میں ایسی ترکیب نہ بن سکے تو کسی مستحق ِ زکوٰۃ کو مالِ زکوٰۃ کا مالک بنا کرمال اس کے قبضہ میں دے دیں پھر اسے اس سید صاحب کی خدمت میں پیش کرنے کا مشورہ دیں ۔( فتاویٰ امجدیہ ،ج۱، ص۳۹۰،ملخصاً)

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!