اسلام
۔۔۔۔۔۔کلمات شرط کا بیان ۔۔۔۔۔۔
ایسے کلمات جو شرط کے معنی دیں اور دوجملوں پر داخل ہوں ان کلمات کوکلمات شرط کہاجاتاہے۔پہلے جملے کو شرط اور دوسرے جملے کو جزاء کہتے ہیں۔
فعل کو جزم دینے یا نہ دینے کے اعتبار سے کلمات شرط کی دو قسمیں ۔
۱۔ جازمہ ۲۔غیرجازمہ
ز۔۔۔۔۔۔۱۔جازمہ:
کچھ کلمات ایسے بھی ہیں جو دو فعلوں پر داخل ہوتے ہیں اوراگر وہ مضارع ہو ں تو ان کوجزم دیتے ہیں۔ پہلے فعل کو شرط اور دوسرے کو جزاء کہتے ہیں ۔جیسے
اِنْ تَسُقِ الْجَوَّالَۃَ سَامِعاًنِ الْجَوّالَ تَصْطَلْدِمْ (اگرتم فون سنتے ہوئے موٹر سائیکل چلاؤ گے تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا) ۔
یہ کلمات درج ذیل ہیں۔
متی ،ای من، ما، انی،اینما ، مھما ، اذما ،حیثما
ان کے معنی کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
٭۔۔۔۔۔۔۱۔ من :
یہ ذوی العقول کیلئے آتاہے جیسے مَنْ یَّجْتَھِدْ یَفُزْ (جو کوشش کریگاوہ کامیاب ہوگا)۔
٭۔۔۔۔۔۔۲۔ ما:
یہ غیر ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔ جیسے مَا تَفْعَلْ خَیْرًا َتفْرَحْ ( تو جو اچھائی کریگا خوش ہوگا) ۔
٭۔۔۔۔۔۔۳ ۔ای:
یہ ہمیشہ مضاف ہو کر استعمال ہوتاہے ۔جیسے أَیُّ کِتَابٍ تَقْرَاءْ أَقْرَءْ (تو جوکتاب پڑھے گا میں بھی پڑھوں گا)۔
٭۔۔۔۔۔۔۴۔متی:
یہ زمان کیلئے آتاہے جیسے مَتٰی تَجْلِسْ أَجْلِسْ (جب توبیٹھے گا میں بیٹھو ں گا)۔
٭۔۔۔۔۔۔۵ ۔مھما:
اسکا استعمال غیر ذوی العقول کیلئے ہے اور یہ ظرف زمان ہے۔ جیسے مَھْمَا تَقْرَءْ أَقْرَءْ (جب تو پڑھے گا میں بھی پڑھوں گا)۔
٭۔۔۔۔۔۔۶، ۷، ۸، انی ،اینما ، حیثما:
یہ تینوں مکان کیلئے آتے ہیں ۔ جیسے أَنّٰی تَأْکُلِ المُشَبَّکَ اٰکُلْ ھُنَاکَ (جہاں تو جلیبی کھائے گا وہاں میں کھاؤں گا)۔ أَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (تم جدھر بھی منہ کرو، خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ ہے) حَیْثُمَا تَجِدِ المَنْطِقَ تجدِ الرُّوحَ والعَقْلَ والاسْتِطَاعَۃَ (جہاں تم نطق پاؤ گے ،وہیں روح ،عقل اور استطاعت پاؤ گے)۔
٭۔۔۔۔۔۔۹۔اذما:
یہ ظرف مکان ہے اورجب کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔جیسے اِذْمَا تَعْصِ اللہَ
یَسْوَدُّ قَلْبُکَ (جب تو اللہ کی نافرمانی کریگا، تو تیرا دل کالاہو جائے گا)۔
ز۔۔۔۔۔۔۲۔غیر جازمہ:
وہ کلمات جو شرط کا معنی دیتے ہیں لیکن فعل مضارع کو جزم نہیں دیتے انہیں غیر جازمہ کہتے ہیں۔ یہ سات ہیں۔
۱۔ لَوْ(اگر)۲۔ أَمَّا(بہرحال)۳۔ لَوْلاَ(اگرنہ)۴۔ کُلَّمَا(جب بھی)۵۔ اِذَا(جب)۶۔ لَوْمَا(اگر نہ) ۷۔لَمَّا(جب) ۔
اِن کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭۔۔۔۔۔۔لو:
یہ اس بات کے اظہار کیلئے آتا ہے کہ شرط نہ پائے جانے کی وجہ سے جزاء بھی نہیں پائی جارہی ہے۔جیسے لَوْکُنْتُ أَعْمَلُ لَفُزْتُ (اگر میں عمل کرتا تو ضرور کامیاب ہو جاتا)۔
٭۔۔۔۔۔۔اما:
یہ اسم پر اس لئے داخل ہوتاہے تاکہ شرط کے معنی کی تفصیل بیا ن کرے اس کے جواب پر فاء کا داخل کرنا لازم ہے۔ جیسے لِزَیْدٍ صَدِیْقَانِ أَمَّا أَحَدُھُمَا فَصَالِحٌ وَأَمَّا ثَانِیْھِمَا فَشُجَاعٌ۔
٭۔۔۔۔۔۔لولا، لوما:
یہ دونوں کلمات اس بات کے اظہار کیلئے آتے ہیں کہ شرط کے پائے جانے کی وجہ
سے جزاء نہیں پائی جارہی انکے بعدوالااسم ہمیشہ مبتداء ہونے کی وجہ سے مرفوع ہوگا۔اور اس کی خبر وجوبا محذوف ہوگی ، اس کا جواب اگر ماضی ہو تو اس پر لام کا داخل کرناجائز ہے ورنہ نہیں۔ جیسے لَوْلاَ الأُسْتَاذُ مَافَھِمْتُ الدَّرْسَ (اگر استاذ نہ ہوتاتو میں سبق نہ سمجھتا) اس مثال میں الأُسْتَاذُ کے بعد مَوْجُوْدٌ خبر محذوف ہے۔ لَوْمَا الْقِصَاصُ لَعَمَّتْ اِرَاقَۃُ الدِّمَاءِ، (اگر قصاص نہ ہوتا تو خون بہانا عام ہو جاتا) اس مثال میں القصاص کے بعد مَوْجُوْدٌ خبرمحذوف ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔کلما:
یہ معنی کے تکرار کا فائدہ دیتاہے اس کے بعد ہمیشہ فعل ماضی ہوتا ہے اوریہ ظرف زمان ہے۔ جیسے کُلَّمَا أَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَھَا اللّٰہُ (جب جب ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکا ئی اللہ عزوجل نے اسے بجھا دیا) ۔
٭۔۔۔۔۔۔اذا:
یہ بھی ظرف زمان ہے اور یہ مستقبل کیلئے آتا ہے اور اس کے بعد فعل کا آنا ضروری ہے۔ چاہے لفظا ہو یا تقدیرا۔ جیسے اِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ (اور جب میں بیمار ہو جاتاہوں تو وہ مجھے شفاء دیتاہے)۔
٭۔۔۔۔۔۔لما:
یہ ظرف زمان ماضی کیلئے آتاہے۔ اور اس کے ساتھ ہمیشہ فعل ماضی آتاہے۔ جیسے لَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ ظَھَرَ الْحَقُّ (جب قرآن نازل ہوا تو حق ظاہر ہو گیا) ۔