اسلام
چمنِ طیبہ میں سُنبل جو سنوارے گیسو
چمنِ طیبہ میں سُنبل جو سنوارے گیسو
حُور بڑھ کر شِکن ناز پہ وارے گیسو
کی جو بالوں سے تِرے روضہ کی جاروب کشی
شب کو شبنم نے تبرک کو ہیں دھارے گیسو
ہم سِیہ کاروں پہ یاربّ تپشِ محشر میں
سایہ افگن ہوں تِرے پیارے کے پیارے گیسو
چرچے حُوروں میں ہیں دیکھو تو ذرا بال براق
سُنبلِ خلد کے قربان اُتارے گیسو
آخرِ حج غمِ اُمّت میں پریشاں ہو کر
تِیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو
گوش تک سُنتے تھے فریاد اب آئے تادوش
کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو
سُوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے
چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمہارے گیسو
کعبۂ جاں کو پنھایا ہے غلافِ مُشکیں
اُڑ کر آئے ہیں جو اَبرو پہ تمہارے گیسو
سِلسلہ پا کے شفاعت کا جھکے پڑتے ہیں
سجدئہ شکر کے کرتے ہیں اِشارے گیسو
مُشک بُو کوچہ یہ کس پھول کا جھاڑا ان سے
حُوریو عنبرِ سارا ہوئے سارے گیسو
دیکھو قرآں میں شبِ قدر ہے تا مطلعِ فجر
یعنی نزدیک ہیں عارِض کے وہ پیارے گیسو
بِھینی خوشبو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واللّٰہ
کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمہارے گیسو
شانِ رحمت ہے کہ شانہ نہ جُدا ہو دم بھر
سینہ چاکوں پہ کچھ اس درجہ ہیں پیارے گیسو
شانہ ہے پنجۂ قدرت تِرے بالوں کے لئے
کیسے ہاتھوں نے شہا تیرے سنوارے گیسو
اُحدِ پاک کی چوٹی سے اُلجھ لے شب بھر
صبح ہونے دو شبِ عید نے ہارے گیسو
مژدہ ہو قبلہ سے گھنگھور گھٹائیں اُمڈیں
اَبرووں پر وہ جھکے جھوم کے بارے گیسو
تارِ شیرازئہ مجموعۂ کونین ہیں یہ
حال کھل جائے جو اِک دم ہوں کنارے گیسو
تیل کی بُوندیں ٹپکتی نہیں بالوں سے رضاؔ
صبح عارِض پہ لٹاتے ہیں سِتارے گیسو
٭…٭…٭…٭…٭…٭