اسلام
اسلامی اقدار کا شاعر عزیزبلگامی
اسلامی اقدار کا شاعر
عزیزبلگامی
غلام ربانی فدا
جن کو تم شعر و سخن کی کہکشاں کہتے رہے
اصل میں قرطاس پر تھے، خامہ فرسائی کے داغ
مذکورہ بالا شعرعزیز بلگامی کاہے مگرعزیز بلگامی کے خیال سے میں متفق نہیںہوں، کیونکہ داغ تو ان کے لیے ہوسکتے ہیں مگر ان کا لکھاہواہرہرلفظ مجھ کوروشن اجالوںسے عبارت نظرآتاہے۔عزیزبلگامی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔مشاعرے،اخبارات ورسائل سے لے کر انٹرنیٹ تک ان کی چھاپ دکھائی دیتی ہے۔عزیزبلگامی کے یہاں اسلامی اقدار کی پاسداری مقصداولیں ہے۔گو کہ عزیزبلگامی نے خال خال عاشقانہ شاعری بھی کی ہے۔ اس کی خصوصیت اول تو یہ ہے کہ شاعر کااحساس جمال نہایت تیزاورشدیدہے۔ انگریزی رومانی شاعرکیٹس(KEATS) نے اپنے ایک خط میں لکھاہے کہ’’ایک ادنیٰ مخفی اورہلکاسا بھی احساس جمال میرے جسم کی رگ رگ میں ہیجان پیداکردیتاہے‘‘۔عزیزبلگامی کا معاملہ بھی کچھ ایساہی ہے مگر اس ہیجان میں سنبھلی ہوئی کیفیت نظر آتی ہے اوراس کے اظہارمیں رکھ رکھاؤ موجود ہے۔قدوگیسوکی قیامت خیزیوں، لب ورخسارکی حلاوت اور چشم وابرو کی فتنہ انگیزیوںکا ذکر اوّل توہے نہیں اور اگر ہے بھی تو اِس میں عامیانہ پن نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ ان کے عشقیہ اشعارمیں مریضانہ کیفیت بھی نہیں ہے۔ ہمارے اکثرشعرا غزلوںمیں اس امر کااعادہ کرتے رہتے ہیں کہ عاشق مجبور محض، ناکام اور غم آلام میں محصورہوتا ہے۔ محبوب کو ستم پیشہ،کج رو،بددماغ اورتغافل شعارکہا جاتا ہے۔لیکن عزیز کے کلام میں عاشق کی دوری ومہجوری اس کی حیات کا تقاضہ ہے، محبوب کی ستم نوازشوں کا نتیجہ نہیں۔ اس عالم جدائی میں عزیزؔمحبوب کی تغافل شعارطبیعت کارونانہیں روتے ،بلکہ جذب وکیف، سروروانبساط میںڈوب
جاتے ہیں۔اس طرح قاری کی طبیعت پربجائے افسردگی کے شگفتگی طاری ہوجاتی ہے۔تیسرے یہ کہ ان شعروں میںعاشق کارول ایک غیرت مند اورخوددارانسان کاکردارہے۔ وہ درمحبوب پرناصیہ فرسائی نہیں کرتا اور محبوب ستم شعار ہوتے ہوئے بھی باوقارہے، بے وفا اور ہرجائی نہیں۔ اِن کی تمام تر عشقیہ شاعری میں ضمناًبھی کہیں کسی ’’رقیب‘‘ کاذکر نہیں ملتا اور ہوبھی نہیں سکتا ،ظاہر ہے یہ ایک اسلامی اقدار کے پاسدار شاعرکی عشقیہ شاعری ہے۔ اس سلسلہ میںآخری نکتہ یہ ہے کہ اِن کے اس نوع کے شعروں پر مشتمل غزلوں کامحبوب ایک تصوراتی یامثالی محبوب ہے جس کے حسن وجمال کوآب ورنگ، عشق نے بخشاہے،اس کی تائید عزیز کے اس شعرسے ہوتی ہے:
مرے اشعار میں کچھ زخم مہکتے ہیں عزیزؔ
یہ سبب ہے کہ مرے فن پہ بہار آئی ہے
معدودے چندعشقیہ اشعارکے اِس تذکرے کے بعد عزیزکی اُن غزلیات کی طرف توجہ کرتے ہیں جواصلاً اُن کی فکر و نظر کا محور رہی ہیں، جن کوخالص سماجی وسیاسی صورت حال سے سروکار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عزیز جیسے طبعاًحساس شاعراپنے اردگردکے ماحول سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہتے۔عزیزؔکے ان اشعار میںجن کاتعلق اخلاقی وسماجی اقدار کی پامالی سے یاسیاسی زبوںحالی سے ہے،لہجے کی تندی،احتجاج،چیخ وپکار،گھن گرج،یانعرہ بازی یا سوقیانہ بلندآہنگی نہیںہے،بلکہ ان میں جرأتِ اظہار کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سلگنے کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان اشعارمیںاپنے موقف یاردعمل کااظہا رشاعرنے سلیقہ مندی سے کیاہے، جس طرح ایک نہایت ہلکاسارنگ کسی تصویرمیںچمک پیداکردیتا ہے، اسی طرح چند علامات کے استعمال سے شاعرنے معنی آفرینی کاکام کیاہے اورچند اشارے صورت حال کی افراتفری،زمانے کے پیچ وخم اوروقت کے نشیب وفرازکی تصویرواضح طورپرنمایاںکردیتے ہیں۔ یہ علامات ہیں: باغباں،گلشن،آشیاں،صیاد،گل تر،شمع ،محفل ،قفس وغیرہ۔مادروطن کی ترقی اور اس کی مادی،تہذیبی اورمعاشی خوشحالی کے فروغ میںہندوستان کی مختلف قوموںاورنسلوں کی جو قربانیاں شامل ہیں ان میںمسلمانوںکی قربانیوں کو جس طرح یکسرنظراندازکیاجاتارہاہے،اس حقیقت کے اظہار میں شاعر کالہجہ کرب انگیز بن جاتا ہے اور اُن کاتیورطنزیہ چاشنی سے بھرپورنظر آتا ہے:
کیوں کر مزاج صبح کو سب کے بدل گیے
اطوار محسنوں کے تو کل رات ٹھیک تھے
معاشرے میں موجودنفاق وافتراق کے درمیان فرد کی بے بسی،انحطاط پذیر سوسائیٹی کی ابتری وبدحالی اورآئے دن برپا ہونے والے فرقہ وارنہ فسادات کی ہلاکت خیزی کاعکس اس شعرمیں دیکھئے:
ایک حسینہ ہے ، تشدّد جسے کہتے ہیں عزیزؔ
گرم رکھتی ہے بہت اہلِ وطن کا پہلو
جہاںطاقتور کی برتری وبالادستی کی اساس محض کسی دوسرے کی کمزوری اورخستہ حالی پر استوار ہوتی ہو،اخلاقی اقدار کے زوال کے ایسے ایک نمونے کا
عکس اس شعرمیںملاحظہ ہو:
’’قوم زندہ ہے‘‘ یہ کہتے نہیں تھکتے تم لوگ
کیوں یہ تصویر بنی پھرتی ہے مجبوری کی!
اسی زوال پذیر معاشرے کی پیداوار ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ذمہ دارانہ مناصب پر فائز رہتے ہوئے بھی ریاکاری اورمنافقت کا پیکر بن جاتے ہیں:
متولیوں کو کس کی نظر لگ گئی عزیزؔ
اب تک تومسجدوں کے حسابات ٹھیک تھے
اشتراکیت کی یلغار نے دنیاکے سیاسی استحکام اورمعاشی نظام کو تہہ وبالاکر کے رکھ دیا ہے۔آج یہی اشتراکیت پارہ پارہ ہے۔اس کے برعکس المیہ یہ ہے کہ خالص روحانی نظام بھی ملک ،معاشرے اورافرادکی ترقی کاضامن نہیں بن سکا ہے۔ایک اِلٰہی نظام کویکسر نظرانداز کرکے شخصیت کی نشونماہوسکتی ہے نہ معاشرے کی۔انسان کے متنوع مسائل کا واحدحل صرف اسلامی نظام میں ہے جو…مادہ اور روح…دونوں کے امتزاج میںتوازن واعتدال کو ترجیح دیتاہے۔ اور نمونہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ اس خیال کے اظہار کے لئے درج ذیل شعر غیرمعمولی بصیرت اوردروں بینی کا ذریعہ بن گیا ہے:
اپنے خاموش سمندر میں بھنور پیدا کر
سیپیاں خالی نہ رہ جائیں گُہر پیدا کر
کائنات کے ذرّے ذرّے میں چونکہ عشق سرایت کئے ہوئے ہے چنانچہ انسانی نفوس کی اکملیت کا انحصار اِسی فطری عشق میں مضمر ہے،یہ عشق روحانی کی صورت میں متجلی رہتاہے۔لیکن درمیان میں جب ہوس کی منزل آجاتی ہے ، جو حسن کا ایک تجسیمی تصور ہے تو یہی مقام ہوتا ہے جہاں عاشق کی نظر صرف قدوگیسو اورلب ورخسار تک محدود ہوکررہ جاتی ہے۔ پھر یہی ہوس جل کرعشقِ روحانی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس کاپہلا زینہ ہوتا ہے:
تلاش کُو چۂ جاناں کی چھوڑ دی میں نے
دماغ و دِل میں چمکنے لگی ہے حق کی کِرن
ذہن تھا سوچ میں جذبات ہوں پیدا کیسے
دفعتاً آئی صدا ، دِل میں اُتر ، پیدا کر
ابھی چشمِ کرم کی آرزو ہے سیر چشموں کو
ہو ممکن تو ہوس کے داغ دھولو ، کیا تماشہ ہے
تمام اشعار میں مذہبی عقیدے کی سختی ہے، نہ بوجھل صوفیانہ مصطلحات کی فراوانی۔یہ اشعارایک اسلامی مبلغ کی سادگی ،انسان دوستی اور حقیقت سناشی کے پرتوہیں۔غزلوںمیںبدیع وبیان کاتصنع ہے، نہ ملمع کاری۔نمودونمائش اورالفاظ وتراکیب کے طمطراق سے دوردرورکاواسطہ نہیں۔ایک قلب بے ریا کی طرح یہ اشعار بھی سادہ وسلیس الفاظ مگرلطیف احساسات سے مملوہیں۔تلمیحات کااستعمال کم سے کم ہے۔مفرس معرب الفاظ کے استعمال سے حتی الامکان گریزکیاگیاہے۔ مشکل اورپیچیدہ تراکیب کی ترکیب سازی سے شاعر کی قوت ایجاد اورذہنی اختراع کاپتہ چلتاہے۔مگران کے استعمال کی
کثرت سے شعر کی لطافت مجروح ہوتی ہے۔اس حقیقت سے عزیز صاحب خوب واقف ہیں۔ ترکیب سازی کلام عزیزؔمیں ایک وسیلہ ہے ترسیل وابلاغ کا،کلام میں گل بوٹے بنانے کا نہیں ۔اسی لئے کلام میں سہل ممتنع کے اشعار بیش ازبیش ہیں اوریہ شاعر کی فنکارانہ ہنرمندیوں پردال ہیں۔اسی طرح تشبیہات واستعارات سے بھی کلام کونہیں سجایاگیاہے۔زیادہ سے زیادہ صنعت تضاد سے کام لیاگیاہے۔تمام اشعارمیں آرائش اظہار کے لئے کوئی شعوری کوشش نظرنہیں آتی۔
ان تمام غزلوںکے مطالعہ کے بعد یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ شاعری خشک ہے نہ محض قافیہ پیمائی۔اس کی وجہ صاف ہے ۔عزیزپروجد اورسرخوشی کاعالم طاری ہوتارہتا ہے ۔پایان کارکسی اسلامی شاعرکاکلام سپاٹ اور بے رنگ نہیں ہوسکتا۔ان غزلوںمیں جمالیاتی احساس کی شدت کے ساتھ عصری حسیت بھی بدرجہ اتم موجودہے۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ غزلیہ شاعری ہے یالطافت احساس، غنائیت اورموسیقیت کاایک سیل رواں۔!!شعری اظہارمیں غیرمعمولی سرمستی اوروالہانہ پن ہے۔بعض غزلوںمیں قافیے کی تکرار اوراس کے پھیلاؤ نے غزل کے حسن کودوبالاکردیاہے۔مجموعی طور پرکلام کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اپنے احساسات ومشاہدات وتجربات کی ادائیگی میںعزیزؔتغزل کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔بعض اشعار ملاحظہ ہو ں جہاں جذبہ وفکر کی آمیزش کوتغزل کے رنگ وآہنگ نے چمکادیاہے۔یہ اشعار نہایت مترنم بحرمیں ہیں:
زمیں بنجر ہے پھر بھی بیج بولو ، کیا تماشہ ہے
ترازو پر خرد کی دِل کو تولو ، کیا تماشہ ہے
ابھی تک گیسوئوں کے پیچ و خم کی بات ہوتی ہے
بھگولو ، اب تو پلکوں کو بھگولو ، کیاتماشہ ہے
ہم نے ہر شرط دُعائوں کی کہاں پوری کی!
پھر بھی اُمید دُعائوں کی ہے منظوری کی
معاملے میں تُو کردار کے نکھر تو سہی
تُو کارزار کے میدان میں اُتر تو سہی
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
لپٹ کے چومے گی تجھ سے،ترے قدم جنّت
اے نوجوان! کبھی راہِ حق میں مر تو سہی
فکر کی آنکھ سے اوجھل تھا سُخن کا پہلو
بس اِسی واسطے تشنہ رہا فن کا پہلو
نظروں سے ہے اوجھل تو، تعجب ہے تجھے کیوں
اِنصاف کا خوگر ہے تو محشر کو پرکھ مت
میں تو بس، دولتِ اخلاص کا شیدائی ہوں
اس لئے پیشِ نظر ہی نہیں دھن کا پہلو
غزلوں کے مطالعہ سے عزیزؔکی شاعرانہ مہارت وعظمت میں کسی کمی کا احساس پیدانہیں ہوتا۔مگر سچی بات یہ ہے کہ شاعر کے محسوسات،مشاہدات وتجربات کی اصل جولاںگاہ غزل ہے۔ یہ غزلیں چاہے عشقیہ ہوں یاصوفیانہ یا چاہے ان کاسروکارعصری حسیت سے ہو،ان کی سادگی میں گل پیرہنی، حزنیہ لہجے
میں سر خوشی ،نشاطیہ آہنگ میں رومانی غم انگیزی اورلفظوںکے پیچ وخم میں طنزیہ کاٹ کی آمیزش موجود ہے۔عزیزؔکے صاف وشفاف اور بے داغ کتاب ’’ دل کے دامن پر ‘‘کی طرح کلام میں بھی ابہام ہے نہ پیچیدگی نہ ژولیدہ خیالی۔
یہ اشعارملاحظہ کیجئے اورانصاف کے ساتھ کہئے کہ عزیز کی شاعری آپ کے ’’دل کے دامن پر‘‘کیا کھلبلی مچائی ہے:
کون کہتا ہے کہ مُردوں کو کفن دیتی ہے
اِن کی تہذیب مجھے ننگے بدن دیتی ہے
آزمائش کے لیے شرط ہے عالی ظرفی
زندگی سب کو کہاں دارو رسن دیتی ہے
ایسانہیں کہ آپ کے جذبات ٹھیک تھے
سب کچھ تھا ٹھیک ،جب مرے حالات ٹھیک تھے
زمانے سے چھپا رکھا ہے ہم نے سارے زخموں کو
ستم کے داغِ داماں تم بھی دھولو ، کیا تماشہ ہے
کچھ نظر آتا نہیں ، کچھ بھی نظر آتا نہیں
ان کے چہروں پر اُبھر آئے ہیں بینائی کے داغ
اگرکوئی شخص یہ سوچتاہے کہ عزیزبلگامی ہندوستان کے ہزاروں شعرا میں سے ایک اورشاعر کی اضافت ہے تو میرے خیال میں وہ سخت اندھیرے میں ہے۔دراصل عزیزبلگامی ایک تحریک کا نام ہے، جس کامقصدادب میں اسلامی اقداروروایات کی امانتداری وپاسداری ہے۔ جس میںوہ یقینااطمینان بخش حدتک کامیاب ہے۔عزیزبلگامی اپنے شاعرانہ جنون میں حرف کولفظ،لفظ کومعنی،معنی کوکہانی بنانے کاہنر خوب جانتے ہیں۔ان کے ہی شعرمیں کچھ تصرف کے ساتھ قلم روکتاہوں:
تم نے بخشاہے تغزل کو تقدس کا جمال
ہر غزل تیری، ضمیروں کو چبھن دیتی ہے
٭٭٭