اسلام
گوا کی سر زمین پر شیخ الاسلا م کا فیضان
عبد الکبیر قادری اشرفی (مڈگاؤں گوا)
گوا کی سر زمین پر شیخ الاسلا م کا فیضان
بر صغیر ہند وپاک میں علمائے اہل سنت ومشائخ عظام نے اسلام کی سر بلندی ،اشاعت دین ،توحید وسنت نبوی ﷺ کے لیے جو کارہائے نمایاں سر انجام دئے ہیں وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے انھیں اکابر جماعت میں ایک نام تاجدار اہل سنت رئیس المحققین ،عارف کامل،صوفئی باصفا ،آل رسول، اولاد غوث اعظم ،پروردۂ مخدوم سمناں،نوردیدۂ حضور سرکار کلاں جانشین حضور محدث اعظم سیدی ومرشدی آقائی حضور شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ مفتی شاہ سید محمد مدنی میاں اشرفی جیلانی ’’حفظہ اللہ تعالی‘‘کا بھی ہے جنھوں نے عقائد اہل سنت کی اشاعت وترویج میں جوکارہائے نمایاں انجام دیے وہ ہر داعئ اسلام ،علما ومبلغین کے لیے مشعلِ راہ ہیں ۔
آج دنیائے سنیت میں ان جیسے خطیب جو عصری تقاضوں سے صرف واقف ہی نہیں بلکہ موجودہ دور کے فتنوں سے بھی مکمل طور پر آگاہ ہوں اور ان کاسدِّ باب کرتے ہوں شاذو نادر ہی پائے جاتے ہیں،آج علم وعمل کے کوہ گراں بہت سارے حضرات موجود ہیں ان سب کی صلاحیتوں کا ہم اعتراف کرتے ہیں لیکن حضور شیخ الاسلام کی شخصیت ان سب میں بہت حد تک جداگانہ ہے ،حضرت شیخ الاسلام والمسلمین بیک وقت ایک عظیم خطیب محدث،مفسر،مفتی،محقق،مفکر ،شاعر ،مدبر اور اعلی تنظیمی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے ساتھ آپ نجیب الطرفین سید بھی ہیں ۔بلا مبالغہ بر صغیر ہند وپاک میں ہمیں ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جو ان تمام خوبیوں کی حامل ہو ،آپ چمن رسالت کے مہکتے پھول ،آفتاب وماہتاب کی طرح اپنے بزرگوں کی امانتوں کے امین بن کر ہندوستان کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی اپنی علمی کرنوں سے تاریکیوں کو مٹا رہے ہیں ۔ایک وہ حسین وقت بھی آیا کہ صوبۂ گوا کو بھی آپ نے اپنے قدم بابرکت سے فیضیاب فرمایا ،بقول الحاج عبد الجبار جاگیر دار اشرفی کے ۱۹۸۰ء میں حضور شیخ الاسلام نے گوا کا سب کا پہلا دورہ فرمایا اور اسی سفر کے دوران شہر ’’ پنجیم ‘‘میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی ،آپ کے مریدین ومعتقدین کی خواہش سے مسجد کا نام مسجد مدنی رکھا گیا ۔ ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۶ء تک آپ کے دورے ہوتے رہے گوا کے مختلف مقامات پر آپ کا خطاب ہوا کرتا تھا خاص کر پنجیم ،مڈگاؤں ،ماپوسا واسکو وغیرہ میں۔
غالباً ۱۹۹۷ء کی بات ہے کہ جب آپ گوا میں تشریف لائے آپ کے ساتھ آپ کے نواسے حضرت ابو الحسن سید اشرف میاں صاحب خلیفۂ حضور شیخ الاسلام مولانا قاضی شمس الدین صاحب خلیفۂ شیخ الاسلام، مولانا اقبال اشرفی علیہ الرحمہ (پونہ) بھی تھے ،مڈگاؤں میں حضرت کا پہلا خطاب تھا جس کا عنوان ’’وَمَاَ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَلَمِیْنَ‘‘تھا لگاتارچار جگہ (مڈگاؤں، پنجیم،واسکو ماپوسا )کے خطاب میں مذکورہ آیت کو موضوع سخن بنایا اور ہر جگہ الگ الگ نکات بیان فرمائے ،حضرت اپنے خطاب میں دقیق سے دقیق علمی مباحث میں وہ نکتہ سنجیاں فرماتے کہ عقل دنگ رہ جاتی ۔
جب حضرت خطاب فرماتے تو سامعین عشق رسول میں اتنے سرشار ہوجاتے کہ آنکھوں سے آنسوں کی لڑیاں جاری ہوجاتیں ،جب جلسہ اختتام کو پہنچتا تو لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ جس جماعت میں حضرت مدنی میاں جیسے بزرگ موجود ہوں تو وہ جماعت جھوٹی نہیں ہوسکتی ،موجودہ دور میں بعض واعظین سے ہم سب واقف ہیں جن کی تقریر سننے کے بعد سنیت پر مضبوط ہونے کے بجائے لوگ سنیت سے دور ہوتے نظر آتے ہیں مگر حضرت کے خطاب کا یہ عالم تھا کہ کوئی کافر سن لے تو ایمان کی حرارت پیدا ہوجائے کوئی بد مذہب سن لے تو اپنی بد عقیدگی سے توبہ کرلے ،اگر کوئی فاسق سن لے تو عاشق ہوجائے ۔بارہا دیکھا گیا ہے کہ جب اہم نکات بیان کرنے کے بعد آپ اپنے مخصوص انداز میں درود شریف پڑھتے ہیں جی میں آتا ہے کہ آپ کے قدموں میں ابھی جاکر جان نثار کردوں ۔
حضرت خطاب کے بعد جب قیام گاہ پر تشریف لے جاتے تو وہاں پر بھی لوگ بالخصوص علمائے کرام ملاقات کی غرض سے آتے اور آپ سے علمی گفتگو کرتے اور حضرت لوگوں کے الجھےمسائل کو چٹکیوں میں حل فرماتے اور اتنے احسن انداز میں فرماتے کہ سائل مطمئن ہوجاتا۔
ایک مرتبہ سرکار شیخ الاسلام جناب طاہر اشرفی کروال کے گھر میں تشریف فرما تھے اس وقت میں خود وہاں پر موجود تھا اور مخدوم محترم سید حسین اشرف صاحب اشرفی الجیلانی بھی موجود تھے اسی دوران تحریک سنی دعوت اسلامی کے مبلغین وذمہ داران حضرت کے پاس آئے ، دست بوسی کے بعد مبلغین حضرات نے عرض کیا کہ حضور ہمارے حق میں کچھ نصیحت فرمائیں ،تو حضرت نے فرمایا آپ لوگ جو تنظیم کا کام کر رہے ہو اس میں سنیت کا فروغ بھی ہے اور بد مذہبوں کا توڑ بھی ہے ،آپ حضرات کام کرتے رہیں اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا چادر کی جتنی لمبائی ہے اتنا ہی اپنے پیروں کو پھیلانا مطلب جتنا علم آپ جانتے ہوں اتنا ہی لوگوں تک پہنچانا اور علماے اہل سنت کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے سنیت کا کام کرتے رہنا ،اور آخر میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر تنظیم اور مبلغین کے حق میں دعا فرمائی، آپ کی دعامیں اللہ نے بڑی برکت رکھی ہے ۔
حضرت کے ایک مرید جناب سید حسن صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت کا قیام ایک دن میرے گھر میں تھا اسی دوران دو گاڑیاں بھرکر کچھ معتقدین ومریدین حضرت سے ملاقات کرنے کے لیے آئے اور وہ کھانے کا وقت تھا اور ہمارے گھر میں اتنا ہی کھانا بنا ہوا تھا جتنا کے حضرت ان کے خدام اور میرے گھر والوں کے لیے کافی تھا، تو حضرت فرمایا کہ سید حسن جتنے لوگ آئے ہوئے ہیں سب کو کھانا کھلاؤ میں دل ہی دل میں گھبرایا اور میں نے اپنی اہلیہ سے کہا حضرت ایسا کہ ہے ہیں بالآخر ہم نے حضرت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سب کو کھلانا شروع کیا، ایک آل رسول کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ تمام لوگوں کے کھانے سے فارٖ غ ہونے کے بعد بھی کھانا بچا رہا جسے ہم نے دوسرے دن بھی استعمال کیا ۔
۲۰۰۶ء کا واقعہ ہے یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے ۲۰۰۶ء میں مڈگاؤں کی جامع مسجد میں آپ کی اقتدا میں نماز مغرب کا اہتمام کیا گیا نماز مغرب میں بھی اتنی تعداد میں لوگ مسجد میں آئے ایسا لگتا تھا کہ نماز جمعہ کے لیے آئے ہیں اور ہم غلاموں پر یہ کرم نوازی ہوئی کہ بعد نماز مغرب تیس منٹ کھڑے رہ کر خطاب فرمایا ،سبحان اللہ ،کیا نصیحت آمیز خطاب تھا اس شعر کی تشریح کو ہی آپ نے عنوان بنادیا
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگیے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اسی میں عقائد ،ساتھ ہی ساتھ نماز کی پابندی اور مسجد کے آداب کو بیان فرماکر گویا کہ آپ نے سمندر کو کوزے میں سمانے کا کام کیا، اسی طرح ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۶ء تک اہل گوا آپ کے فیضان سے مالا مال ہوتے رہے آپ نے عقائد اہل سنت کو ایسے احسن انداز میں لوگوں تک پہنچایا کہ وہ لائق تحسین اور قابل تقلید ہیں اللہ تبارک و تعالی آپ کو عمر حضر بالخیر عطا فرمائے اور آپ کے سایۂ کرم کوجماعت اہل سنت پر قائم رکھے آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدۂ ور پیدا