اسلام
وفد ثقیف
جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ ِحنین کے بعد طائف سے واپس تشریف لائے اور ”جعرانہ” سے عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے ہی میں قبیلہ ثقیف کے سردار اعظم ” عروہ بن مسعود ثقفی”رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر برضا و رغبت دامن اسلام میں آ گئے۔ یہ بہت ہی شاندار اور با وفا آدمی تھے اور ان کا کچھ تذکرہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم تحریر کر چکے ہیں۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ مجھے اجازت عطا فرمائیں کہ میں اب اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور یہ وہیں سے لوٹ کر اپنے قبیلہ میں گئے اور اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ اس علانیہ دعوت اسلام کو سن کر قبیلہ ثقیف کے لوگ غیظ و غضب میں بھر کر اس قدر طیش میں آ گئے کہ چاروں طرف سے ان پر تیروں کی بارش کرنے لگے یہاں تک کہ ان کو ایک تیر لگا اور یہ شہید ہو گئے۔ قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ان کو قتل تو کر دیا لیکن پھر یہ سوچا کہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرچکے ہیں۔ اب ہم بھلا اسلام کے خلاف کب تک اور کتنے لوگوں سے لڑتے رہیں گے؟ پھر مسلمانوں کے انتقام اور ایک لمبی جنگ
کے انجام کو سوچ کر دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنے ایک معزز رئیس عبدیالیل بن عمرو کو چند ممتاز سرداروں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔ اس وفد نے مدینہ پہنچ کر بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ ہم اس شرط پر اسلام قبول کرتے ہیں کہ تین سال تک ہمارے بت ”لات” کو توڑا نہ جائے۔ آپ نے اس شرط کو قبول فرمانے سے صاف انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسلام کسی حال میں بھی بت پرستی کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بت تو ضرور توڑا جائے گا یہ اور بات ہے کہ تم لوگ اس کو اپنے ہاتھ سے نہ توڑو بلکہ میں حضرت ابوسفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہما) کو بھیج دوں گاوہ اس بت کو توڑ ڈالیں گے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور حضرت عثمان بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جو اس قوم کے ایک معزز اور ممتاز فرد تھے اس قبیلے کا امیر مقرر فرما دیا۔ اور ان لوگوں کے ساتھ حضرت ابوسفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو طائف بھیجا اور ان دونوں حضرات نے ان کے بت ”لات” کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالا۔(1)(مدارج النبوۃ ج۲ ص۳۶۶)