اختلاف امتی رحمتٔ
یعنی میری امت کا اختلاف باعث رحمت الٰہی ہے۔
اختلاف امتی سے مراد ،’’ اختلاف مجتہدین ہے، اس لئے کہ اس اختلاف سے بہت سے مشکل مسائل حل ہوگئے ، بہت سی دقیق باتیں جن کو کم فہم ، کم علم سمجھنے سے عاجز تھے، ان کے لئے آسان کردیا ، مجتہدین نے قرآن وسنت میں امعان نظر کر کے بال کی کھال نکالی ، قواعد مقرر کئے ، اور ان پر جزویات متفرع کئے ، وہ خلائق کے حوادث کے باوجود اس کے اختلاف مواقع کے بعینہٖ لکھ دیئے یا جو ان حوادث پر دلالت کرتے تھے بلکہ فقہ ان امور میں تکلم کیا ، جو بھی واقع نہیں ہوتے اس تصور سے کہ مبادا اگر ایسا موقع ہوتو مسلمان حیران نہ ہوں اور جو جزوی منصوص نہیں وہ نادر اور کمیاب ہے اور گاہے منصوص بھی ہوتا ہے، لیکن ناظر اس کے محل سے قاصر ہے ، فہم کا قصور ہے ، ہرامرفقہ میں مذکور خواہ بمفہوم ہو یا منطوق۔ ( طحطاوی )۔
ہمارے امام کا اسم مبارک یہ ہے، نعمان بن ثابت ، لقب امام اعظم ، کنیت ابو حنیفہ ( سب باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف جانا اس کو حنیف کہتے ہیں ) اہل عرب کی عادت ہے ، جو چیز کسی سے زیادہ صادر ہوجائے تو اس کی اس کی کنیت بنادیتے ہیں ، گویا کہ وہ چیز اس سے پیدا ہوئی ، اور یہ شخص اس کا باپ ٹھہرا ، حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ باطل کو مٹانے والے ، برباد کرنے والے ، ہمیشہ حق کے تابع ، حق کے پیرو حق پر چلنے والے تھے، گویا کہ حق امام اعظم رضی اللہ عنہ سے پیدا ہوا اور حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ حق کے باپ ہوئے اس لئے امام اعظم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حنیفہ ہوئی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تا، اسم وحدت اور یکتائی کا ہے ، مسند خوارزمی میں سیف الائمہ سے منقول ہے کہ یہ بات مشہور ہے،چارہزار استادوں کی علماء تابعین سے شاگردگی کی ، اور علم فقہ حاصل کیا ، لیکن اپنے علم پر اپنی زبان سے فتویٰ نہیں دیا ، یہاں تک کہ انہوں نے اجازت دی ، کوفہ کی جامع مسجد میں مجلس کے اندر بیٹھے اور ہزار شاگرد امام کے جمع ہوئے ان میں سے بزرگ تر اور فاضل تر چالیس شاگرد تھے جو رتبہ اجتہاد کو پہنچے تھے ان کو اپنا مقرب کیا اور کہا کہ تم میرے رازداں اور غمگسار ہو، میں نے اس فقہ کے گھوڑے کو تمہارے واسطے تیار کردیا لگام دے کر زین کس کر تم میری مدد کرو اس واسطے کہ لوگوں مجھ کو جہنم کا پل بنایا ہے، غیر لوگ پار ہوتے ہیں اور بوجھ میری پیٹھ پر پڑے ،یعنی لوگ تقلید کے سبب سے نجات پائیں گے، مواخذہ مجھ سے ہوگا اگر عرق ریزی اور اجتہاد میں کچھ تساہل ہوگا، امام کو عادت تھی کہ جب کوئی واقعہ پیش آتا تو مجتہد شاگردوں سے مشورہ اور مناظرہ اور گفتگو کرتے اور ان سے پوچھتے اور جو احادیث اور آثار شاگردوں کے پاس تھے ان کو سننے اور جو آپ کو معلوم تھے ان کو فرماتے، اور مجتہد شاگرد امام کے ساتھ مہینہ مہینہ بھر بلکہ زیادہ دو بدل اور مناظرہ کرتے ، یہاں تک کہ آخر کو ایک بات ٹھہر جاتی ، اس کو