اسلام

میت کے گھر کھانا کیسا ہے

✍الجواب اللھم ھدایۃ الحق والصواب 
صورت مسؤلہ میں عرض یہ ھیکہ میت کا کھانا امیر غریب سب کے لئے جائز ہے
کہ یہ صدقۂ نافلہ ہے واجبہ نہیں
مگر اس کھانے کی دعوت ناجائز ہے
شامی جلد اول
صفحہ۶۲۹ میں ہے
یکرہ اتحاذ الضیافة من الطعام من اھل البیت لا نہ شرع فی السرور لا فی الشرور وھی بدعة ۔۔اھ۔۔
اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے

جلد اول صفحہ ۱۶ میں ہے
لا یباح اتحاذ الضیافة عند ثلاثتة ایام کذافی التتار خانیة ۔۔اھ۔۔

اور فقیہ اعظم ہند حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
میت کے گھر والے تیجہ وغیرہ کے دن دعوت کرے تو ناجائز و بدعت قبیحہ ہے
کہ دعوت تو خوشی کے وقت مشروع ہے نہ کہ غم کے وقت۔۔۔اھ۔۔
بہار شریعت جلد چہارم صفحہ۱۶۹
اس سے واضح ہوگیا کہ بہار شریعت کے حوالے سے گاؤں کے عالم کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ امیر بھائ پٹی دار اور دوست و احباب کو کھانا جائز نہیں
اس لئے کہ بہار شریعت میں تیجہ وغیرہ کی دعوت کو ناجائز لکھا ہے کھانے کو ناجائز نہیں لکھا

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اور اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ والرضوان نے فتاوٰی رضویہ شریف جلد چہارم
صفحہ۲۱۴ جو تحریر فرمایا ہے کہ وہ طعام کہ عوام ایام موت میں بطور دعوت کرتے ہیں یہ ناجائز و ممنوع ہے
لان الدعوة  انما الشرعت فی السرور لا فی الشرور کما فی فتح القدیر وغیرہ من کتب الصدور
اغنیاء کو اس کا کھانا جائز نہیں۔۔ھ

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اغنیاء کو بطور دعوت کھانا جائز نہیں
اس لئے کہباس جملہ کا تعلق ما قبل کی اسی عبارت سے ہے جس میں بطور دعوت کھانے کو ناجائز فرمایا گیا ہے۔
اور جب فقہ کی معتبر کتابوں سے یہ ثابت ہوگیا طعام میت کے لئے دعوت ناجائز وممنوع ہے تو اگر بلا دعوت اغنیاء کو وقت پر بلا کر کھلا دے یا ان کے گھر کھانا بھیجوا دے تو امیر کے لئے بھی جائز ہے جیسے کہ عام طور پر لوگ محرم کے مہینہ میں کھیچڑا پکا کر بغیر دعوت کے سب کو کھلاتے ہیں
واللہ اعلم بالصواب
فتاوٰی فقیہ ملت
جلد اول صفحہ 285
✍ازقلم؛  العبدالاثیم خاکسار
ابوالصدف محمد صادق رضا
مقام ـ سنگھیاٹھول(پورنیہ) 
خادم ـ شاہی جامع مسجد
پٹنہ  بہار  الھند
نــــوٹ ـ مفتیان کرام کی بارگاہ اصلاح گزارش ہے کرم فرمائیں اکابرین حضرات مشکور و ممنون

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!