اسلام
شرک
شرک کے لغوی معنی ہیں حصہ یا ساجھا ۔ لہٰذا شریک کے معنی ہیں حصہ دار یا ساجھی۔
رب تعالیٰ فرماتا ہے :
(1) اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ۚ
کیا ان بتوں کا ان آسمانوں میں حصہ ہے ۔(پ22،فاطر:40)
(2) ہَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ تَخَافُوْنَہُمْ کَخِیۡفَتِکُمْ اَنۡفُسَکُمْ ؕ
کیا تمہارے مملوک غلاموں میں سے کوئی شریک ہے اس میں جو ہم نے تمہیں دیا ہے کہ تم اس میں برابر ہو ان غلاموں سے تم ایساڈرو جیسا اپنے نفسوں سے ڈرتے ہو(پ21،الروم:28)
(3) رَّجُلًا فِیۡہِ شُرَکَآءُ مُتَشٰکِسُوۡنَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ؕ ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ
ایک وہ غلام جس میں برابر کے چند شریک ہوں اور ایک وہ غلام جو ایک ہی آدمی کا ہو ۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں(پ23،زمر:29)
ان آیتوں میں شرک اور شریک لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حصہ ، ساجھا اور حصہ دار وساجھی ۔ لہٰذا شرک کے لغوی معنی ہیں کسی کو خدا کے برابر جاننا ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں معنی میں استعمال ہواہے ۔شرک بمعنی کفران آیات میں آیا :
(1) اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ
اللہ تعالیٰ اس جرم کو نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیاجائے اس کے سوا جس کو چاہے بخش دے گا ۔(پ5،النسآء:48)
(2) وَ لَا تُنۡکِحُوا الْمُشْرِکِیۡنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوۡا ؕ
نکاح نہ کرو مشرکوں سے یہاں تک کہ ایمان لے آویں۔(پ2،البقرۃ:221)
(3) وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ
مومن غلام مشرک سے اچھاہے۔(پ2،البقرۃ:221)
(4) مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعْمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ بِالْکُفْرِؕ
مشرکوں کو یہ حق نہیں کہ اللہ کی مسجد یں آباد کریں اپنے پر کفر کی گواہی دیتے ہوئے ۔(پ10،التوبۃ:17)
ان آیات میں شرک سے مرادہر کفر ہے کیونکہ کوئی بھی کفر بخشش کے لائق نہیں اور کسی کافر مرد سے مومنہ عورت کا نکاح جائز نہیں او رہر مومن ہر کافر سے بہتر ہے خواہ مشرک ہو جیسے ہند و یا کوئی اور جیسے یہودی ، پارسی ، مجوسی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دوسرے معنی کا شرک یعنی کسی کو خدا کے برابر جاننا کفر سے خاص ہے کفر اس سے عام یعنی ہر شرک کفر ہے مگر ہر کفر شرک نہیں۔ جیسے ہر کوا کالا ہے مگر ہر کا لا کو انہیں۔ ہر سوناپیلا ہے مگر ہر پیلا سونانہیں ۔ لہٰذا دہر یہ کافر ہے مشرک نہیں اور ہند ومشرک بھی ہے کافر بھی۔ قرآن شریف میں شرک اکثر اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے
(1)جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا
ان دونوں نے خدا کے برابر کر دیا اس نعمت میں جو رب تعالیٰ نے انہیں دی۔(پ9،الاعراف: 190)
(2) حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾
میں تمام برے دینوں سے بیزار ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔(پ7،الانعام:79)
(3) اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾
بے شک شرک بڑا ظلم ہے ۔(پ21،لقمٰن:13)
(4) وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمۡ مُّشْرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾
ان میں سے بہت سے لوگ اللہ پر ایمان نہیں لائے مگر وہ مشرک ہوتے ہیں۔(پ13,یوسف:106)
ان جیسی صدہا آیتو ں میں شرک اس معنی میں استعمال ہوا ہے بمعنی کسی کو خدا کے مساوی جاننا۔