اسلام
فاتح مکہ کا پہلا فرمان
تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں:
”جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔”
اس موقع پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ابوسفیان ایک فخرپسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرما دیا کہ
”جوابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔”
اس کے بعد ابوسفیان مکہ میں بلند آواز سے پکار پکار کر اعلان کرنے لگا کہ اے قریش!محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)اتنا بڑا لشکر لے کر آگئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت نہیں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ ابوسفیان کی زبان سے یہ کم ہمتی کی بات سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ جل بھن کر کباب ہوگئی اور طیش میں آکر ابوسفیان کی مونچھ پکڑ لی اور چلا کر کہنے لگی کہ اے بنی کنانہ! اس کم بخت کو قتل کردو یہ کیسی بزدلی اور کم ہمتی کی بات بک رہا ہے۔ ہند کی اس چیخ و پکار کی آواز سن کر تمام بنوکنانہ کا خاندان ابوسفیان کے مکان میں جمع ہوگیا اور ابوسفیان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس وقت غصہ اور طیش کی باتوں سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ میں پورے اسلامی لشکر کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں اور میں تم لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ہم لوگوں سے محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ خیریت ہے کہ انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ جو ابوسفیان کے مکان میں چلا جائے اس کے لئے امان ہے۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ لوگ میرے مکان میں آکر پناہ لے لیں۔ ابوسفیان کے خاندان والوں نے کہا کہ تیرے مکان میں بھلا کتنے انسان آسکیں گے؟
ابوسفیان نے بتایا کہ محمد(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے ان لوگوں کو بھی امان دے دی ہے جو اپنے دروازے بند کرلیں یا مسجد حرام میں داخل ہوجائیں یا ہتھیار ڈال دیں۔ ابوسفیان کا یہ بیان سن کر کوئی ابوسفیان کے مکان میں چلا گیا۔ کوئی مسجد حرام کی طرف بھاگا۔ کوئی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔(1)(زرقانی ج ۲ص ۳۱۳)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس اعلان رحمت نشان یعنی مکمل امن و امان کا فرمان جاری کردینے کے بعد ایک قطرہ خون بہنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ لیکن عکرمہ بن ابوجہل و صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو اور جماش بن قیس نے مقام ”خندمہ” میں مختلف قبائل کے اوباش کو جمع کیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج میں سے دو آدمیوں حضرت کرزبن جابر فہری اور حبیش بن اشعر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو شہید کردیا اور اسلامی لشکر پر تیر برسانا شروع کردیا۔ بخاری کی روایت میں انہی دو حضرات کی شہادت کا ذکر ہے مگر زرقانی وغیرہ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ تین صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کفارقریش نے قتل کردیا۔ دو وہ جواو پر ذکر کئے گئے اور ایک حضرت مسلمہ بن المیلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بارہ یا تیرہ کفار بھی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔(2) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۳ و زرقانی ج ۲ ص ۳۱۰)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ تلواریں چمک رہی ہیں تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ میں نے تو خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ
کرنے سے منع کردیا تھا۔ پھر یہ تلواریں کیسی چل رہی ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ پہل کفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس لئے لڑنے کے سوا حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں رہ گیا تھا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ قضاء الٰہی یہی تھی اور خدا نے جو چاہا وہی بہتر ہے۔ (1)(زرقانی ج ۲ ص ۳۱۰)