اسلام
جمع کے چند ضروری قواعد
٭ جمع مذکر سالم صر ف مذکرذوی العقول کے اعلام اور ان کی صفات ہی کی آتی ہے۔جیسے: زَیْدٌ سے زَیْدُوْنَ، مُسْلِمٌسے مُسْلِمُوْنَ۔ لہٰذا ہِنْدٌ کی جمع ہِنْدُوْنَ، قَلَمٌ کی جمع قَلَمُوْنَ اور رَجُلٌ کی جمع رَجُلُوْنَ نہیں بناسکتے؛کیونکہ اول مذکر نہیں ، ثانی ذوی العقول سے نہیں اور ثالث نہ علم ہے اور نہ صفت۔
مذکر ذوی العقول کا علم ہوتو یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے آخر میں تاء (ۃ)نہ ہو۔ لہٰذ ا طَلْحَۃُ کی جمع طَلْحَتُوْنَ نہیں بنا سکتے ؛کیونکہ اس کے آخر میں ۃ موجود ہے۔
اورمذکرذوی العقول کی صفت ہوتو یہ ضروری ہے کہ اس کی مؤنث میں تاء (ۃ)آتی ہو۔ لہذا أَحْمَرُ کی جمع أَحْمَرُوْنَ، سَکْرَانُ کی جمع سَکْرَانُوْنَ اورجَرِیْحٌ کی جمع جَرِیْحُوْنَ نہیں لاسکتے :کیونکہ ان کی مؤنث میں ۃ نہیں آتی۔
ہاں !اسم تفضیل اس سے مستثنیٰ ہے ؛کہ اس کی مؤنث میں اگرچہ تاء(ۃ )نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود اس کی جمع مذکرسالم بن سکتی ہے۔ جیسے:أَکْرَمُ سے أَکْرَمُوْنَ۔
تنبیہ:
أَرْضٌ کی جمع أَرْضُوْنَ، سَنَۃٌ کی جمع سِنُوْنَاور اس طرح کی دیگر جموع، شاذّ(خلاف قیاس)ہیں ۔
٭۔۔۔۔۔۔کبھی جمع کے حروف واحد کے حروف کے غیر(مغائر)ہوتے ہیں ۔ جیسے اِمْرَأَۃٌ کی جمع نِسَاءٌ اور ذُوْ کی جمع أُولُوْ۔ایسی جمع کو ”جَمْعٌ مِنْ غَیْرِ لَفْظِ وَاحِدِہ” کہتے ہیں۔
٭۔۔۔۔۔۔کبھی واحد اور جمع کی شکل بالکل ایک جیسی ہوتی ہے ،فرق صر ف اعتباری ہوتا ہے ۔ جیسے: فُلْکٌ(کشتیاں)اس کا واحد بھی فُلْکٌ(کشتی)ہے ۔ ان میں فرق صرف اس طرح کرتے ہیں کہ جب یہ واحد ہوتو بروزن قُفْلٌ اور جمع ہو تو بروزن أُسْدٌ (بہت سے شیر )ہو گا۔
فائدہ:
جمع اور اسم جمع میں فرق یہ کہ جمع کے لیے مفردہوناضروری ہے مِنْ لَفْظِہ ہویا مِنْ غَیْرِ لَفْظِہ ،جبکہ اسم جمع وہ ہے جو جمع کا معنی تو دے مگر اس کا کوئی مفرد نہ ہو۔ جیسے:قَوْمٌ، رَھْطٌ۔ وغیرہ۔