اسلام
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
سلسلہ نسب
سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام ہندبنت ابی امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ ہے۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پہلا نکاح حضرت ابو سلمہ ابن عبد الاسدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔ جن سے چار بچے پیدا ہوئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے شوہر کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ طیبہ واپس آئیں۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ احد میں شریک ہوئے۔ لڑائی کے دوران جو زخم آئے کچھ عرصہ مندمل ہونے کے بعد دوبارہ تازہ ہوگئے۔ اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے انہی زخموں کی وجہ سے ۴ ھ میں اس دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
نکاح مع سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو اپنا ورد بنالیا ہے جسے حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلمان کو مصیبت کے وقت پڑھنے کی تعلیم فرمائی وہ دعا یہ ہے۔
اَللّٰھُمَّ أجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَيرًا مِّنْھَا
ترجمہ :” اے اللہ !عزوجل مجھے اجر دے میری مصیبت میں اور میرے لئے اس سے بہتر قائم مقام بنا ” سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنے شوہر کے وصال کے بعد اس دعا کو پڑھتی تھی اور اپنے دل میں کہتی کہ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر مسلمانوں میں کون ہوگا۔ لیکن چونکہ یہ ارشاد رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا تھا اس لئے اسے پڑھتی رہی۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
نیز سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے سن رکھاتھا کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جو میت کے سرہانے موجود ہو وہ اچھی دعا مانگے اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے فرشتے آمین کہتے ہیں۔ جب ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصال فرمایا تو بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یارسول اللہ :صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد ان کے فراق میں کیا کہوں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہو ”اے اللہ! عزوجل انہیں اور مجھے بخش دے اور
میری عاقبت کو اچھی بنا۔ پھر میں اسی دعا پر قائم ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر عوض عطا فرمایا۔ اور وہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تھے۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال پر حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تعزیت کے لئے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر تشریف لائے اور دعا فرمائی۔ اے خدا ان کے غم کو تسکین دے اور ان کی مصیبت کو بہتر بنا اور بہتر عوض عطا فرما۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے اپنا اپنا پیام بھیجا لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے پیام کو منظور نہ فرمایا پھر جب حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا پیام آیا تو کہا: ”مرحبا برسول اللہ”صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح ماہ شوال ۴ھ میں ہوا۔ ان کا مہر ایسا سامان جو دس درہم کی مالیت کاتھا مقرر ہوا۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین سو اٹھترحدیثیں مروی ہیں ان میں تیرہ حدیثیں بخاری و مسلم میں صرف بخاری میں تین حدیثیں اور تنہا مسلم میں تیرہ اور باقی دیگر کتابوں میں مروی ہیں۔
(المرجع السابق،ص۴۷۶)
وصال
ام المؤمنین حضرتِ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں ہوا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ۵۹ھ میں ہوا جو صحیح تر ہے اور
بعض ۶۲ھ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد بتاتے ہیں۔ اور اس قول کی تائیداس روایت سے ہوتی ہے جسے ترمذی نے ایک انصار کی بیوی سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا۔ وہ کہتی ہیں میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو روتے ہوئے دیکھ کر عرض کیا اے ام سلمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا کس چیز نے رلایا ہے؟ فرمایا کہ میں نے ابھی ابھی خواب میں تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا سر انور اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے محاسن شریف گرد آلود ہیں اورگر یہ فرمارہے ہیں، میں نے عرض کیا :یارسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کس بات پر گریہ فرمارہے ہیں۔ فرمایا: جہاں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا وہاں موجود تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت حیات تھیں۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال چوراسی سال کی عمر میں مدینہ طیبہ میں ہوا۔ ان کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بقول دیگر سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۵)