اسلام

ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
نسب شریف
     ام المؤمنین حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔ سیدہ کی والدہ ماجدہ حضرت زينب بنت مظعون ، حضرت عثمان بن مظعون کی بہن ہیں۔     ام المؤمنین حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی۔ سیدہ کی والدہ ماجدہ حضرت زينب بنت مظعون ، حضرت عثمان بن مظعون کی بہن ہیں۔
 (الطبقات الکبری لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج۸،ص۶۵)
     حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے پہلے حضرت خنیس بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں تھیں،جو شرکائے بدر میں سے ہيں سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔
     (الطبقات الکبری لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج۸،ص۶۵)
    بعد وصال حضرت خنيس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی صاحبزادی کے نکاح کے لئے حضرت عثما ن غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا مگر انہوں نے اثبات میں جواب نہ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا کہ اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش ہو تو حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں۔اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو میں غصہ میں آیا اور یہ غصہ اس سے زیادہ تھا جتنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر آیا تھا۔ اس کے بعد چند راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے پیام دیا اور میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکانکاح حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے کردیا، پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ شاید اس وقت مجھ پر ناراض ہوگئے تھے جب کہ تمہاری پیش کش پر میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا :میں ناراض ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری پیش کش کا انکار تو نہیں کیا تھا۔ البتہ میں یہ جانتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یاد فرمایا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے راز کو افشا نہیں کیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم انہیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کرلیتا۔
 (الطبقات الکبری لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج۸،ص۶۵،ملخصاً)
خوشخبری
    حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کوطلاق دینے کاارادہ فرمایاتوحضرت جبریل علیہ السلام نے حاضرہوکرعرض کی:آپ انھیں طلاق نہ دیں کیونکہ وہ شب بیدار،بکثرت
روزے رکھنے والی اورجنت میں آپ کی زوجہ ہیں۔
     (المعجم الکبیرللطبرانی،الحدیث۳۰۶،ج۲۳،ص۱۸۸)
    سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں، ان میں سے چار تو متفق علیہ ،صرف مسلم میں چھ اور پچاس دیگر تمام کتابوں میں مروی ہیں۔
 (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۴)
وصال
    سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال زمانۂ امارتِ حضرتِ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ۴۵ھ؁ یا  ۴۱ھ؁ یا ۴۷ھ؁ میں ہوا۔ بعض خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بتاتے ہیں لیکن پہلا قول صحیح تر ہے۔ (المرجع السابق)
 (۵)ام المؤمنین سیدہ زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
سلسلہ نسب
    زینب بنت خزیمہ بن حارث بن عبداللہ بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصعہ۔ (الطبقات
الکبریٰ لابن سعد،ذکر ازواج رسول اللہ،ج۸،ص۹۱)
آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہافقرا و مساکین پر نہایت ہی مہربان تھیں۔ انہیں کھانا کھلاتیں اور ان پر بڑی شفقت فرماتی تھیں۔ لہٰذا زمانہ جاہلیت میں بھی ” ام المساکین” کے لقب سے مشہور تھیں۔آپ کا پہلا نکاح حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا جو نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے غزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ ہجرت کے تیسرے سال حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاازواج
مطہرات میں شامل ہوئیں۔لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں بہت کم حیات رہیں۔ اور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں وصال فرمایا۔
وصال:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے تین ماہ یا چھ ماہ یا آٹھ ماہ سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہ کر ماہ ربیع الاخر   ۴ھ؁ میں اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔
 (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۴)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!