اسلام
حقوق کو ادا کرو’ یا معاف کرالو
اگر کسی کا تمہارے اوپر کوئی حق تھا اور تم اس کو کسی وجہ سے ادا نہیں کر سکے تو اگر وہ حق ادا کرنے کے قابل کوئی چیز ہو مثلاً کسی کا تمہارے اوپر قرض رہ گیا تھا تو اس کو ادا کرنے کی تین صورتیں ہیں یا تو خود حق والے کو اس کا
حق دے دو۔یعنی جس سے قرض لیا تھا اسی کو قرض ادا کردویا اس سے قرض معاف کرالو اور اگر وہ شخص مر گیا ہو تو اس کے وارثوں کو اس کا حق یعنی قرض ادا کر دو۔ اور اگر وہ حق ادا کرنے کی چیز نہ ہو بلکہ معاف کرانے کے قابل ہو مثلاًکسی کی غیبت کی ہو یا کسی پر تہمت لگائی ہو تو ضروری ہے کہ اس شخص سے اس کو معاف کرالو۔ اور اگر کسی وجہ سے حق داروں سے نہ ان کے حقوق کو معاف کراسکانہ ادا کرسکا۔ مثلاً صاحبان حق مرچکے ہوں تو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ بخشش کی دعاکرتا رہے اور اﷲتعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا رہے تو امید ہے کہ قیامت کے دن اﷲتعالیٰ صاحبان حق کو بہت زیادہ اجرو ثواب دے کر اس بات کے لئے راضی کردے گا کہ وہ اپنے حقوق کو معاف کردیں۔ اور اگر تمہارا کوئی حق دوسروں پر ہو ۔ اور اس حق کے ملنے کی امید ہو تو نرمی کے ساتھ تقاضا کرتے رہو۔ اور اگر وہ شخص مرگیا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تم اپنے حق کو معاف کردو۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے بدلے میں بہت بڑا اور بہت زیادہ اجرو ثواب ملے گا۔
(واﷲتعالیٰ۱علم)
عام طور پر لوگ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتے۔ حالانکہ بندوں کے حقوق کا معاملہ بہت ہی اہم’ نہایت ہی سنگین اور بے حد خوفناک ہے۔ بلکہ ایک حیثیت سے دیکھا جائے توحقوق اﷲ (اﷲ کے حقوق) سے زیادہ حقوق العباد (بندوں کے حقوق) سخت ہیں۔ اﷲتعالیٰ تو ارحم الراحمین ہے وہ اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں پر رحم فرما کر اپنے حقوق معاف فرما دے گا مگر بندوں کے حقوق کو اﷲتعالیٰ اس وقت تک نہیں معاف فرمائے گا۔ جب تک بندے اپنے حقوق کو نہ معاف کردیں۔ لہٰذا بندوں کے حقوق کو ادا کرنا یا معاف کرالینا بے حد ضروری ہے ورنہ قیامت میں بڑی مشکلوں کا سامنا ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ جس شخص کے پاس درہم اور دوسرے مال وسامان نہ ہوں وہی مفلس ہے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میری امت میں اعلیٰ درجے کا مفلس وہ شخص ہے کہ وہ قیامت کے دن نماز’ روزہ اور زکوٰۃ کی نیکیوں کولے کر میدان حشر میں آئے گا مگر اس کا یہ حال ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال کھالیا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا’ کسی کو مارا ہوگا تو یہ سب حقوق والے اپنے اپنے حقوق کو طلب کریں گے تو اﷲتعالیٰ اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کو ان کے حقوق کے برابرنیکیاں دلائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کے حقوق نہ ادا ہو سکے بلکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقوق باقی رہ گئے تو اﷲتعالیٰ حکم دے گا کہ تمام حقوق والوں کے گناہ اس کے سر پر لاد دو۔ چنانچہ سب حق والوں کے گناہوں کو یہ سر پر اٹھائے گا پھر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو یہ شخص سب سے بڑا مفلس ہوگا۔
(صحیح مسلم ، کتاب البروالصلۃ ، باب تحریم الظلم، رقم ۲۵۸۱،ص۱۳۹۴)
اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ یا تو حقوق کو ادا کردو۔ یا معاف کرالو۔ ورنہ قیامت کے دن حقوق والے تمہاری سب نیکیوں کو چھین لیں گے اور ان کے گناہوں کا بوجھ تم اپنے سر پر لے کر جہنم میں جاؤ گے۔ خدا کے لئے سوچو کہ تمہاری بے کسی و بے بسی اور مفلسی کا قیامت میں کیا حال ہوگا۔