اسلام
ابوسفیان کا اسلام
ابوسفیان بن حرب کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔ مکہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو سخت سے سخت ایذائیں دینی، مدینہ پر بار بار حملہ کرنا، قبائل عرب کو اشتعال دلاکر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قتل کی بارہا سازشیں، یہودیوں اور تمام کفارعرب سے سازباز کرکے اسلام اور بانی اسلام کے خاتمہ کی کوششیں یہ وہ ناقابل معافی جرائم تھے جو پکار پکار کرکہہ رہے تھے کہ ابوسفیان کا قتل بالکل درست و جائز اور
برمحل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن کو قرآن نے ”رء وف و رحیم” کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان کی رحمت چمکارچمکار کر ابوسفیان کے کان میں کہہ رہی تھی کہ اے مجرم!مت ڈر۔ یہ دنیا کے سلاطین کا دربار نہیں ہے بلکہ یہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ رحمت ہے۔ بخاری شریف کی روایت تویہی ہے کہ ابوسفیان بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے جان بچ گئی۔ (1)
(بخاری ج۲ ص ۶۱۳باب این رکزالنبی رایۃ)
مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے تو فوراً رات ہی میں اسلام قبول کرلیا مگر ابوسفیان نے صبح کو کلمہ پڑھا۔(2) (زرقانی ج ۲ص۳۰۴)
اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ابوسفیان اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے درمیان ایک مکالمہ ہوا اس کے بعد ابوسفیان نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ وہ مکالمہ یہ ہے:
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: کیوں اے ابوسفیان!کیا اب بھی تمہیں یقین نہ آیا کہ خدا ایک ہے؟
ابوسفیان: کیوں نہیں کوئی اورخداہوتاتوآج ہمارے کام آتا ۔
رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: کیا اس میں تمہیں کوئی شک ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
ابوسفیان: ہاں! اس میں تو ابھی مجھے کچھ شبہ ہے۔
مگر پھر اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن بعد میں بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔چنانچہ غزوه طائف میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوکر انہوں نے کفار سے جنگ کی اور اسی میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوگئی۔ پھر یہ جنگ یرموک میں بھی جہاد کے لئے گئے۔(1)
(سیرت ابن ہشام ج ۲ص ۴۰۳وزرقانی ج۲ ص ۳۱۳)