اسلام

اردو ادب کےصالح قدروں کا ترجمان۔غلام ربانی فداؔ

صالح قدروں کا ترجمان۔غلام ربانی فداؔ


بقلم: سعید رحمانی
اڈیٹر ادبی محاذ۔دیوان بازار
کٹک(اڑیسہ)

اردو میں صنفِ غزل کو جو مقام واہمیت حاصل ہے اس کی نظیر دنیا کی کسی اور صنفِ ادب میں پائی نہیں جاتی۔یہی وجہ ہے کہ اسے اردو کی آبرو تصور کیا جاتا ہے۔آغاز سفر میں اس نے جمالیات‘تصوف اور فلسفہ جیسے ادق موضوعات کی ترجمانی کی۔پھر بدلتے ہوئے رجحانات کے اثرات قبول کئے۔ روایت‘ ترقی پسندی ‘جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مراحل سے گزرتے ہوئے آج مقبولیت کے بامِ عروج تک پہنچ چکی ہے۔آج جو شاعری ہورہی ہے اسے نئی شاعری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے جس میں ماضی کے صالح عناصر اور زندہ روایات کی بازگشت بھی ہے اور عصرِ حاضر کی دھڑکنیں بھی شامل ہیں۔نئی شاعری کی بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی کہتے ہیں:۔’’حقیقت یہ ہے کہ درشتگی‘اضطراب‘غیر محفوظیت کا احساس‘شکستگی‘افق سے تا افق چھائی ہوئی تشویش‘تردد کی فضا اور روزبروز عام محاوروں سے دور ہوجاتی ہوئی‘زیادہ داخلی ہوتی ہوئی اور زیادہ غیر رسمی ہوتی ہوئی طنزیہ اور تڑپ اورچبھن سے بھر پور زبان۔یہ نئی شاعری کے بنیادی علائم ہیں۔‘‘
اس قول کی روشنی میں صاف ظاہر کہ نئی غزل میں اصلاح پسندی اور تعمیریت کے پہلو زیادہ نمایاں نظر ہیں۔اس ضمن میں نئی تشکیل کے شعرا کا کردار خاص کر تعمیری اور اصلاحی نظر آتا ہے۔ان حقائق کی روشنی میں جب ہم مولانا غلام ربانی فداؔصاحب کی شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں انھیں  تعمیری محرکات سے واسطہ پڑتا ہے۔ان کی شاعری روایت سے درایت تک کا سفر طے کرتے ہوئے زندگی کے تپتے ہوئے ریگزاروں میں آبلہ پا نظر آتی ہے۔اس میں جمالیات کی خنک فضا بھی ہے تو عصرِ حاضر کے سنگین مسائل کی تمازت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ایک طرف ماضی کی صالح قدروں کی بازیافت کا جذبہ موجزن ہے تو دوسری طرف سماج کے فاسد مادوں پر نشتر زنی بھی کی گئی ہے۔مختصرکہا جاسکتا ہے
 کہ ان کی شاعری فکری طہارت اور تعمیر ی جذبات کی روشن علامت ہے۔بعض جگہ تلمیحات اور استعارات کے برملا استعمال سے انھوں نے اپنی شاعری کو سلاست وروانی کے ساتھ تہداری بھی عطا کی ہے۔ ان کا شعری سفر گو کہ بڑا مختصر ہے لیکن جذبوں میں وفور اور رہوارِ قلم کی تیزروی کے باعث شعر وادب کے مختلف شعبوں میں ان کی ظفر یابیوں کے پرچم ابھی سے لہرانے لگے ہیں۔ایک ہمہ جہت قلمکار کا ثبوت دیتے ہوئے شاعری‘نقد وتحقیق اور صحافت کے ساتھ ساتھ تاریخ‘سوانح نگاری اور سائنسی موضوعات کو اپنی فکر کا محور بنایا ہے اور ان کی نگارشات عمیق مطالعہ اور مشاہدات کی نشاندہی کرتی ہیں۔سہ ماہی جہانِ نعت ان کی ادارت میں شائع ہونے والا ایک مقبول رسالہ ہے جسے ویب سائیٹ پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔بنیادی طور پر ایک خوش فکر نعت گو کی شناکت رکھتے ہیں۔ان کا نعتیہ مجموعہ’’گلزارِ نعت‘‘اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکا ہے۔’’شہرِ آرزو‘‘غزلیہ مجموعہ ہے جس کی اشاعت سالِ رواں (۲۰۱۲ ؁ء) میں ہوئی ہے۔اس کی ابتدا میں حمد ونعت آزاد نظم کی صورت میں ہیں۔پھر غزلیں‘نظمیں اور قطعات ہیں۔اس میں شامل ان کی شاعری ہمیں ایک ایسے شاعر سے متعارف کراتی ہے جوایک دلِ درد مند رکھتا ہے اور جس کا نصب العین اصلاحِ معاشرہ ہے۔اسی لئے ایک وہ کہتے ہیں:
میں اپنے دفکر و فن سے عالمِ نو پیدا کرلوں گا
میں انسانوں کو نیکی کے لئے آمادہ کرلوں گا
میں کچھ ایسے طریقے سے کروں گا خلق کی خدمت
ہیں اپنے پھر بھی اپنے‘غیر کو میں اپنا کرلوں گا
شاعری کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ’’فقط دل کی تسلی کے لئے ہے شاعری اپنی‘‘یعنی نام ونمود اور صلہ وستائش کی تمنا کئے بغیر وہ اپنی شاعری کو صرف اپنے لئے تسکینِ قلب کا ذریعہ مانتے ہیں۔یہ بات سچ ہے کہ شاعری روح کی غذا بھی ہوتی ہے لیکن جب یہ پکی روشنائی میں دوسروں تک پہنچتی ہے تو وہ پھر ذاتی میراث نہیں رہ جاتی بلکہ اس میں مخفی حکمت ودانش کے گوہرِ آبداداراپنی کرنوں سے پڑھنے والوں کے ذہن ودل کو بھی منور کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کی شاعری وادیٔ شوق کی شبنی فضاؤں سے نکل کر زندگی کی دھوپ چھاؤں کا عکس پیش کرنے لگی ہے اور عوامی توجہ کا مرکز بنتی جارہی ہے۔اس میں جہاں جمالیات کی دلآویزی ہے وہیں زندگی کے تپتے ہوئے صحرا کی تمازت کا احساس ہوتا ہے۔اس میں آج کی صارفانہ ذہنیت‘اخلاقی قدروں کی پائمالی ‘محبت ‘ہمدردی اور خلوص کا فقدان‘نفرت‘مخاصمت ‘ بزرگوں کی ناقدری اورحیوانیت کا فروغ ایسے سنگین مسائل ہیں جن کی بازگشت فداؔ صاحب کی شاعری میں سنی جا سکتی ہے۔مثالاً یہ چند اشعار پیش ہیں:۔اب اس سے سوا ذہنی ترقی ہو بھلا کیا

انسان نے کی ہائے رے انسان کی تقسیم
جو میرے حلقۂ احباب میں تھا
دکھائی دے رہا ہے قاتلوں میں
ساڑیاں بیوی کی‘بچوں کے کھلونے تو لئے
صرف ماں کی دوا لے کر نہ بیٹا گھر گیا
وہ جب ملک کی سیاسی‘سماجی اور معاشرتی شعبوں میں بدعنوانی‘اخلاقی گراؤٹ‘تعصب اور نسلی منافرت کے تحت فسادات کا سلسلہ دراز ہوتا دیکھتے ہیں تو مضطرب ہوجاتے ہیں اوران فاسدمادوں کی تطہیر کے کیلئے اپنے قلم سے نشتر کا کام ہیں۔ہم نے آزادی کا جو سنہرا خواب دیکھا تھااس کی تعبیر اب تک نظر نہیں آئی۔اس آزادی کے نتیجے میں ملک کا بٹوارہ ہوا۔ایک کی جگہ دو دو پنجاب معرضِ وجود میں آئے۔سیاسی رہنما اورحکومت بھی عوام کی توقع پر پوری نہیں اتری۔عوام کی خدمت کی جگہ ذاتی مفادات اور لوٹ کھسوٹ ان کا وطیرہ بن گیا ہے۔مذہب کے نام پر فتنہ وفساد بھی جاری ہے۔اس ذیل میں یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:۔
جانے کیسی بہار آئی ہے
شاخ کوئی بھی با ثمر نہ ہوئی
حکمراں یہ کیسے ہیں‘ جو وطن کو گھیرے ہیں
کارواں میں شامل سب چور اور لٹیرے ہیں
بٹوارہ اور بھی کئی زکموں کے ساتھ ساتھ
دو دو ہمارے ملک کو پنجاب دے گیا
ہم کو رہنا ہے مل کے جب اے فداؔ
بے سبب ہی فساد کرتے ہیں
فداؔ صاحب کی نشو ونما اور ذہنی تربیت چونکہ دینی ماحول میں ہوئی ہے اس لئے اسلام پسندی اور فکری طہارت ان کی طبیعت کا خاصہ ہے جس کے اثرات ان کی شاعری پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔تفریحِ طبع کی بجائے انھوں نے شاعری کو اصلاح ِنفس ‘اسلامی تعلیمات‘اخلاقیات اور جذبۂ انسانیت کے فروغ کا وسیلہ بنایا ہے۔اپنے ارفع جذبات کو حرف وصوت کا آہنگ عطا کرتے وقت کہیں کہیں اسلامی تلمیحات تو کہیں کہیں خوؓصورت علائم واستعارات سے کام لیتے ہیں۔غزلوں میں بعض جگہ نعتیہ اشعار کی موجودگی ان کے عشقِ رسول کا پتہ دیتی ہے۔تصدیق کے لئے یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔
حق پرستوں کی وہ راہِ پرنور ہے
جان قرباں فداؔ جس پہ کرتا ہوں میں
کشتیاں ہم نے جلائی تھیں نہ جانے کے لئے
جن کے تاریخ کے صفحے پہ نشاں آج بھی ہیں
ہیں پلکیں ہماری منور منور
منڈیروں پہ جن کے ستارے ہیں آنسو
آمد پہ ان کی شاد ہوا یوں دلِ حزیں
جیسے بہار آئے غموں کے دیار میں
پائے نازک کبھی رکھے تھے جہاں پہ تم نے
ریگِ ساحل کے دہانے پہ نشاں آج بھی ہیں
اعزاز مجھے حاصل ہو ان کی غلامی کا
مدت سے فداؔ دل میں یہ جذبہ مچلتا ہے
مجموعی طور پر کہا جائے تو ان کی شاعری ذاتی مشاہدات وتجربات اور داخلی جذبات واحساسات کا ایک آئینہ ہے جس میں زندگی کے سرد وگرم لمحوں کا عکس بھی ہے
تو ان کے دینی‘ ملی اور تعمیری افکار بھی مترشح ہیں۔چونکہ ان کے شعری سفر کی ابھی شروعات ہوئی ہے اس لئے فکری بہاؤ کے ساتھ رطب ویابس کا آجانا بعید از امکان نہیں۔پھر وہ ہمہ دانی کا دعویٰ بھی کرتے بلکہ بڑی انکساری اپنی علمی تشنگی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:۔
میں سمندر کا سمندر پی گیا
پھر بھی میرے ہونٹ سوکھے رہ گئے
  اس کے باوجود انھوں اب تک جتنی پیش رفت کی ہے اس سے ان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے ۔ویسے انھیں بھی احساس  ہے کہ شاعری بچوں کا کھیل نہیں۔ یہ وہ فن ہے کہ سیروں خون جلانے کے بعد کہیں ایک مصرعۂ تر کی صورت پیدا ہوتی ہے۔اس لئے وہ کہتے ہیں:۔
جب فکر کی آتش میں پہروں کوئی جلتا ہے
تب ذہن کے پردے سے اک شعر نکلتا ہے
تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں تخلیقی صلاحیت ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شعری بصیرت اور فکری صلابت کو  بھی جلا ملتی رہے گی۔شاعری میں اب تک جو کچھ حاصل کیا ہے وہ اسے اپنے استادِ محترم علامہ میکش اجمیری کی دین سمجھتے ہیں اور جس کا اعتراف اس طرح کیا ہے:۔
زندگی میری شاعری کو فداؔ
سچ ہے میکشؔ کے میکدے سے ملی
مجھے پوری امید ہے کہ فداؔ صاحب کی یہ پیش رفت جاری رہے گی اور اگلے پڑاؤ کے آتے آتے ان کی بصیرت وبصارت کے چراغ کی لویں اور تیز ہوں گی۔
٭٭٭ 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!