اسلام

بیماری کے احکام و مسائل

کتاب الجنائز

بیماری کے احکام و مسائل

(۱)’’ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا یُصِیبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ہَمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا أَذًی وَلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَۃِ یُشَاکُہَا إِلَّا کَفَّرَ اللَّہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ‘‘۔ (1) (بخاری، مسلم)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ مسلمان کو کوئی رنج، کوئی دکھ، کوئی فکر، کوئی تکلیف، کوئی اذیت اور کوئی غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کانٹا جو اسے چبھے مگر اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔
(۲)’’ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیبُہُ أَذًی مِنْ مَرَضٍ فَمَا سِوَاہُ إِلَّا حَطَّ اللَّہُ بِہِ سَیِّئَاتَہٗ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَۃُ وَرَقَہَا‘‘۔ (2) (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ نہیں پہنچتی مسلمان کو کوئی اذیت مرض یا اس کے سوا کچھ اور لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کے (صغیرہ) گناہوں کوساقط کردیتا ہے ، جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔
(۳)’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ ذُکِرَتِ الْحُمَّی عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَبَّہَا
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم کے حضور میں بخارکا ذکر کیا گیا

رَجُلٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبَّہَا فَإِنَّہَا تَنْفِی الذُّنُوبَ کَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْحَدِیدِ‘‘۔ (1)
تو ایک شخص نے بخار کو بُرا کہا۔ حضور نے فرمایا بخار کو بُرا نہ کہو اس لیے کہ وہ ( مومن کو) گناہوں سے اس طرح پاک کردیتا ہے جیسے آگ لوہے کی میل کو صاف کردیتی ہے ۔ (ابن ماجہ ، مشکوۃ)
(۴)’’ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدِنِ السلَمِیّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ مَنْزِلَۃٌ لَمْ یَبْلُغْہَا بِعَمَلِہِ ابْتَلاہُ اللَّہُ فِی جَسَدِہِ أَوْ فِی مَالِہِ أَوْ فِی وَلَدِہِ ثُمَّ صَبَّرَہُ عَلَی ذَلِکَ حَتَّی یُبْلِغَہُ الْمَنْزِلَۃَ الَّتِی سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ‘‘۔ (2)
حضرت محمد بن خالد سلمی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے دادا نے کہا کہ حضور عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ بندہ کے لیے علمِ الہٰی میں جب کوئی مرتبہ کمال مقدر ہوتا ہے اور وہ اپنے عمل سے اس مرتبے کو نہیں پہنچا تو خدائے تعالیٰ اس کے جسم یا مال یا اولاد پر مصیبت ڈالتا ہے پھر اس پر صبر عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ اسے اس مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے جو اس کے لیے علمِ الہٰی میں مقدر ہوچکا ہے ۔ (احمد، ابوداود)
(۵)’’ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا کَثُرَتْ ذُنُوبُ الْعَبْدِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ مَا یُکَفِّرُہَا مِنَ الْعَمَلِ ابْتَلاہُ اللَّہُ بِالْحُزْنِ لِیُکَفِّرَہَا عَنْہُ ‘‘۔ (3)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ جب بندہ کے گناہ زیادہ ہوجاتے ہیں اور اس کے عمل میں کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو گناہوں کا کفارہ بن سکے تو اللہ تعالیٰ اس کو غم اور پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے ۔ (احمد، مشکوۃ)
(۶)’’عَنْ سَعْدٍ قَالَ سُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلائً قَالَ الْأَنْبِیَاءُ ثُمَّ
حضرت سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ نبی کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم سے دریافت کیا گیا کہ کون لوگ سخت

الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ یُبْتَلَی الْعَبْدُ عَلَی حَسَبِ دِینِہِ فَإِنْ کَانَ فِی دِینِہِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہُ وَإِنْ کَانَ فِی دِینِہِ رِقَّۃ ہُوِّنَ عَلَیْہِ فَمَا زَالَ کَذَلِکَ حَتَّی یَمْشِی عَلَی الْأَرْضِ مَا لَہُ ذَنْبٌ‘‘۔ (1)
بلائوں میں مبتلا ہوتے ہیں؟ حضور نے فرمایا ( سب سے پہلے )انبیاء کرام پھر ان کے بعد جو افضل ہیں پھران کے بعد جو افضل ہیں یعنی حسب مر اتب آدمی میں دین کے ساتھ جیسا تعلق ہوتا ہے اسی اعتبار سے بلا
میں مبتلا کیا جاتا ہے اگر دین میں سخت ہے تو بلا بھی اس پر سخت ہوگی۔ اور اگر دین میں کمزور ہے تو اس پر آسانی کی جاتی ہے ۔ یہی سلسلہ ہمیشہ رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ زمین پر وہ یوں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی)
(۷)’’ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِیْقُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَہِیدٌ وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ وَالْمَرْأَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَہِیدٌ‘‘۔ (2)
حضرت جابر بن عتیک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ التَّسْلِیْم نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کی را ہ میں قتل کے علاوہ سات شہادتیں ا ورہیں۔ جو طاعون میں مرے شہید ہے ۔ جو ڈوب کر مرے شہید ہے ۔ جو ذات الجنب(نمونیہ)میں مرے شہید ہے ۔ جو پیٹ کی بیماری میں مرے شہید ہے ۔ جو آگ میں جل جائے شہیدہے ۔ جو عمارت کے نیچے دب کر مرجائے
شہیدہے ۔ اور جو عورت بچہ کی پیدائش کے وقت مرجائے شہید ہے ۔ (مالک، ابوداود، مشکوۃ)

الحاصل :

بیماری سے بظاہر تکلیف پہنچتی ہے لیکن حقیقت میں وہ بہت بڑی نعمت ہے جس سے مومن کو ابدی راحت و آرام کا بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے اس لیے کہ یہ ظاہری بیماری حقیقت میں رُوحانی بیماریوںکا ایک بڑا زبردست

علاج ہے ۔ بشرطیکہ آدمی مومن ہو اور سخت سے سخت بیماری میں صبر و شکر سے کام لے اگر صبر نہ کرے بلکہ جزع فزع کرے تو بیماری سے کوئی معنوی فائدہ نہ پہنچے گا یعنی ثواب سے محروم رہے گا۔ بعض نادان بیماری میں نہایت بے جا کلمات بول اٹھتے ہیں اور بعض خدائے تعالیٰ کی جانب ظلم کی نسبت کرکے کفر تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ان کی انتہائی شقاوت اوردنیا و آخرت کی ہلاکت کا سبب ہے ۔ العیاذ باللہ تعالیٰ۔
٭…٭…٭…٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
error: Content is protected !!